اللہ کا فرمان
قرآن پاک میں سورۂ المائدہ میں اللہ پاک فرماتا ہے (ترجمہ)
’’اے لوگوں! جو ایمان لائے ہو، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو، یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے، یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے (۵:۵۱)
تاریخ شاہد ہے کہ یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں کے ان کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کے باوجود مسلمانوں کا کبھی ساتھ نہیں دیا۔ رسول اکرمﷺ نے جب مدینۃ النبیؐ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تو یہودیوں نے اس کے خلاف سازشوں کے جال بُن دیئے اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو ہر طرح زک پہنچانے کی ناپاک کوششیں کیں لیکن اللہ کے کرم اور مسلمانوں کے جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے ہمیشہ منہ کی کھائی، عیسائی مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کے ذریعے ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے رہے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ ترکوں کی عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کے خلاف یہود و نصاریٰ اکٹھے ہوگئے اور سازشوں کے جال ہر طرف پھیلادیئے۔ عرب علاقوں میں عرب نسل پرستی کا بیج بوکر عرب قبائل کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا اور لارنس آف عربیا کے ذریعے عظیم الشان مسلم سلطنت ’’سلطنت عثمانیہ‘‘ کو پارہ پارہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
1897ء میں بیسل (سوئٹزر لینڈ) کی پہلی صہیونی کانگریس کے جس اجلاس میں آسٹروی صہیونی تھیوڈر ہرزل کا یہودیوں کی الگ ریاست کا نظریہ زیر بحث آیا اس میں اور اس کے فالو اپ میں یوگینڈا کے علاوہ فلسطین، ارجنٹینا، آسٹریلیا، صحرا سینا (مصر) قبرص اور یوگنڈا میں سے (کسی ایک میں ) اسرائیل کے قیام کی تجویز زیر بحث رہی
بظاہر اسرائیل کے قیام کے مخالف قدامت پسند یہودیوں اور اس کے حامی جدید یہودیوں (صہیونیوں ) کی طرف سے بھی ہوئی لیکن دل سب کا فلسطین پر ٹھکا، جہاں پہلے ہی مشرقی یورپ سے فلسطین میں آ کر آباد ہونے والے یہودیوں اور فلسطینی عربوں میں تنازعہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس وقت فلسطین برطانیہ کی کالونی تو نہیں تھا لیکن اس پر اس کا انتظامی کنٹرول تھا یا فلسطین پہنچنے والے یہودیوں نے زرعی خطوں کی خریداری بھی شروع کر دی تھی جس کے بعد ان کے مطالبات اور انتظامیہ میں دخل بڑھتا گیا جو فلسطینیوں اور یہودیوں کے تنازعات میں تبدیل ہو گیا۔ برطانوی اتھارٹی بڑی چالاکی سے فلسطین میں اپنی جگہ بھی بنا رہی تھی ’’یہاں لارنس آف عریبیا‘‘ کی خفیہ کارروائیوں اور عربوں کے جذبات کو ابھارنے کی وجہ سے عثمانی سلطنت کا کنٹرول ختم اور برطانیہ کا اثر بڑھتا جا رہا تھا۔
لارنس آف عریبیہ نے اپنے قومی مقاصد کے لئے ترک و عرب میں خلیج پیدا کرنے کے لئے جو علمی و قلمی حربے استعمال کئے وہ ہم مسلمانوں کے لئے تو بلاشبہ گہری سازش ہی تھی جس میں برطانیہ مقررہ ہدف سے کہیں زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، تاہم ہندوستانی مسلمانوں اور خود ترکوں کے لئے یہ خاتمہ خلافت کا محاذ کھولنا تھا جس کے ذریعے عرب مسلمانوں کو نبی کریم ﷺ کے خطبہ حجتہ الوداع کی تعلیم عظیم کے برعکس عربی تشخص میں مبتلا عرب، عرب و حجم کے تعصب میں مبتلا ہو کر خاتمہ خلافت کے لئے ذہناً امادہ ہو گئے۔ خلافت کے مقامی عرب منتظمین دشمن خلافت انگریز سے ملتے گئے۔
عربوں نے ’’قومیت ‘‘ میں غرق ہو کر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے لئے یورپی استعمار سے گٹھ جوڑ تک پر آمادگی کی۔ سرزمین فلسطین پر یورپ سے مالدار یہودیوں کی آمد کا سلسلہ تو پہلے ہی شروع ہو چکا تھا جو غیر معمولی معاوضوں پر غریب عرب کسانوں سے کھیت اور باغات خرید رہے تھے۔ مفتیِ اعظم فلسطین ’’ امین الحسینی‘‘ خود اور ان کے ساتھی فلسطینی کسانوں اور زمینداروں کے گھروں پر دستک دے کر انتباہ کرتے رہے کہ یہودیوں کو زمینیں نہ بیچی جائیں، پھر بھی ہر دو فرقوں کے یہودی قیام اسرائیل سے قبل 29 فیصد زرخیز زرعی قطعات خریدنے میں کامیاب ہو گئے۔ جس کے بعد عربوں اور یہودیوں میں زرعی زمینوں کے حوالے سے آئے دن تصادم بھی ہونے لگے اور برطانیہ جو لارنس آف عریبیا کے ’’علمی مورچے‘‘ سے یہودیوں کی آمد اور قیام کے استحکام کی بھر پور حوصلہ افزائی کر رہا تھا ترکی کے فلسطین میں اثر و نفوذ کے مکمل خاتمے کے لئے فرانس اور روس سے بھی گٹھ جوڑ کئے ہوئے تھا جو جنگِ عظیم اول (1914ء) شروع ہونے پر اتحادی بھی بنے۔
برطانیہ فروری ء1947 میں مسئلہ فلسطین اقوامِ متحدہ لے گیا جہاں طے پایا کہ فلسطین کا 56 فیصد رقبہ یہودیوں کو دیکر ان کی ریاست بنا دی جائے جبکہ یہ فلسطین پر موجود کل آبادی کا 33 فیصد تھے ۔ بیت المقدس کو انٹرنیشنل زون قرار دیا گیا۔ عربوں نے پلان سے اختلاف اور یہودیوں نے اتفاق کیا۔ بعد میں اس فارمولے میں بھی یہودیوں کے حق میں ترامیم ہوئیں ۔
29 نومبر 1947ء کو امریکہ، فرانس اور روس سمیت 33 اقوام نے اس پارٹیشن فارمولے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ تمام اسلامی ممالک، بھارت، یوگو سلاویہ اور یونان نے اس کی مخالفت کی۔ تاہم اس کے نتیجے میں اسرائیل تو ایک الگ مملکت بن گیا لیکن فلسطینیوں کی الگ ریاست پر اتفاق کو مسلسل کٹھائی میں ڈال کر نوبت موجودہ غزہ تک پہنچائی گئی پھر اس میں 67ء کی جنگ میں اسرائیل نے شام اور اردن کے علاقے پر بھی قبضہ کیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت عمرؓ کے فلسطین کو فتح کرنے سے لے کر سلطان صلاح الدین کی فیصلہ کن فتح عظیم تک اور اس کے بعد فلسطین پر مسلمانوں کا کنٹرول قائم رہنے تک، اسلامی تعلیمات کے مطابق عیسائیوں اور یہودیوں سے بہترین سلوک کیا گیا اور انہیں اپنے عقائد پر قائم رہنے کی آزادی رہی۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ترک مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کے قیام سے قبل سپین میں مسلمانوں کا 800سالہ دور آج بھی یہودی مورخین محققین اور مذہبی اسکالروں کی متفقہ رائے کے مطابق یہودیوں کی 4000سالہ تاریخ کا سب سے سنہری دور رہے، جس میں انہیں مذہب سمیت ہر طرح کی آزادی اور تحفظ حاصل ہوا وگرنہ وہ ہر دور میں اور ہر جگہ غیر محفوظ اور دبے ہوئے ہی رہے۔
قائد اعظم کا اسرائیل کے متعلق نظریہ۔
اسرائیل بنتے ہی انکی حکومت نے پاکستان کو سفارتی تعلقات کے لیے ٹیلی گرام کیا تھا جس پر قائداعظم نے نہ صرف سخت ترین الفاظ میں انکار کر دیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا
” یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے۔ یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا ”
"اس ناجائز ریاست کو امریکن اور یورپی سپورٹ حاصل نہ ہو تو یہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہے گی "
دوسری جنگ عظیم میں قائداعظم نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کی کوشش کرنے پر امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ۔ ” یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے”
اس وقت قائداعظم نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ ” اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جائیں اورخبردار ایک یہودی کو بھی فلسطین میں داخل نہ ہونے دیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے آج تک اسے تسلیم نہیں کیا بلکہ پاکستان دنیا کا اکلوتا ملک ہے جو نہ صرف اسرائیلی پاسپورٹ کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنا پاسپورٹ بھی اسرائیل کے لیے کارآمد قرار نہیں دیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری)
No comments:
Post a Comment