پاکستان کا مشرق وسطئ میں تحریک آزادی کی حمایت
پاکستان نے ہمیشہ مڈل ایسٹ میں جاری تحاریکِ آزادی کو دامے درمے سخنے امداد فراہم کی ہے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پچاس کی دہائی میں تیونس اور فلسطینی مجاہدین آزادی پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کیا کرتے تھے،
جیسے ہی پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جبکہ پاکستان کو بنے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا پاکستان نے چیکوسلاواکیہ میں ڈھائی لاکھ رائفلیں خرید کر عربوں کو دیں اور تین جنگی جہاز اٹلی سے خرید کر مصر کے حوالے کیے اور اس جنگ کا باقاعدہ حصہ بن گیا ۔
1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے خفیہ طور پر حصہ لیا تھا ۔اس میں ایس ایس جی کمانڈوز کے 200 جوان، ایک بریگیڈ نفری 5000 فوجی، ائیرفورس کے تقریباً دو اسکوارڈن شامل تھے
اس جنگ میں شام اور مصر نے 1967ء کی جنگ کا بدلہ لینے کا پروگرام بنایا تھا ۔ پاکستان ائیرفورس کے جہازوں نے مصر کا اندرونی دفاع سنبھالا ہوا تھا۔ ایس ایس جی کے دو سو جوان جنرل ٹکا خان کی سرکردگی میں 5 اکتوبر 1973ء کو نہر سویز کے کنارے پر تیار کھڑے تھے ۔صبح سویرے مصر کی راکٹ یونٹوں اور دو ہزار سے زائد توپوں نے اسرائیلی مورچوں پر گولہ باری شروع کی۔ اس کور فائر کی آڑ میں ایس ایس جی کے جوان موٹربوٹ کے ذریعے نہر سویز پار کرنا شروع ہوئے۔
پاک فوج نے اسرائیل کے کم از کم دو درجن جہاز مار گرائے ۔ جبکہ وہ ایک بھی پاکستانی جہاز نہ گرا سکے ۔ انہی جنگوں میں اسرائیل کے خلاف پاکستانی توپ خانہ بھیجا گیا تھا جس کے بعد لبنان کے قریب اسرائیل کی پیش قدمی روک گئی تھی۔ لبنانیوں نے پاک فوج کے اس توپخانے کو"کتیبہ ۃ لمجاہد" کا خطاب دیا تھا یعنی "مجاہدین کی توپیں" ۔ پاک فوج نے فسلیطن کی جہادی تحریک کے جوانوں کو پاکستان بلوا کر انکی ٹریننگ شروع کر دی ۔ اسی دور میں اسرائیل نے پاکستان کے خلاف انڈیا کی خفیہ ایجنسی راء کو منظم کیا اور اسکی تربیت کی ۔
اسی عرصے میں اسرائیل نے جارج حباش کی مدد سے مجاہدین کی کچھ جماعتوں پر کنٹرول حاصل کر لیا اور وہ اسرائیل کے بجائے اردن کے خلاف لڑنے لگے تو پاکستان نے بریگیڈئر ضیاء الحق کو بھیجا جس نے انکو کنٹرول کر لیا ۔
1980 کی دہائی میں عراق کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے نیوکلئر پروگرام پر حملہ کرنے کا پلان بنایا جسکو جنرل ضیاء الحق نے بڑی جراءت سے ناکام بنا دیا ۔ 82 میں لبنان اسرائیل جنگ میں پاکستان سے جنگجو رضا کار اسرائیل کے خلاف لڑنے گئے جن میں سے پچاس گرفتار ہوئے ۔
اسرائیل نے ہی کشمیر کی جنگ آزادی کو ناکام بنانے کے لیے وہاں جعلی مجاہدین تنظمیں بنائیں اور جنگ آزادی کو سخت نقصان پہنچایا ۔
حماس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسکو سپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک پاکستان ہے ۔ غالباً اسی لیے پاکستان مخالف جہادی تنظیمیں حماس کے بھی خلاف ہیں ۔
جنرل ایوب خان کی 1967میں لکھی گئی ڈائری
جنرل ایوب خان کی 1967میں لکھی گئی ڈائری
میں دس جون کی ایک تحریر میں درج ہے کہ ’’عمان سے خبر آئی ہے کہ اردنی فضائیہ کو فراہم کئے گئے ہمارے دو پائلٹ بخیریت ہیں۔ان میں سے ایک نے دشمن کا ایک طیارہ مارگرایا اور دوسرے کو نقصان پہنچایا جبکہ دوسرے پائلٹ نے شاہ حسین کے محل پر اسرائیلی بمباری کے بعد اسرائیلی صدر کی رہائش گاہ پر راکٹ فائر کیے۔ ہم نے اپنے متعدد پائلٹ اردن بھیجے ہیں لیکن وہ جدہ میں رکے ہوئے ہیں کیونکہ اردن جانے کی فضائی سہولت معطل ہے۔ اردن نے پیغام بھیجا ہے کہ انہیں اب پائلٹ نہیں چاہییں کیونکہ ان کی پوری فضائیہ ختم ہوگئی ہے۔ بارہ جون 1967کو ایوب خان ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ’’عمان سے آنے والی تازہ اطلاعات کے مطابق ہمارے ایک پائلٹ اعظم نے تین اسرائیلی طیارے تباہ کیے اور ایک کو نقصان پہنچایا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ وہی پائلٹ ہے جس نے پینسٹھ کی لڑائی میں دو بھارتی طیارے تباہ کیے اور اسے ستارۂ جرات سے نوازا گیا ۔
ڈیوڈ بن گوریان بانیان اسرائیل میں سے تھا ۔ اس نے اسرائیل بنتے ہی پیشن گوئی کی تھی کہ اسرائیل کے لیے سب سے بڑا اور اصل خطرہ پاکستان ہوگا ۔ پھر اسی گوریان نے 1967 میں ساربون یونیورسٹی میں یہودیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اہل یہود کو ایک بار پھر پاکستان کے بارے میں خبردار کیا تھا کہ یہی تمھارا حقیقی اور سب سے بڑا دشمن ہے ۔
یہودیوں کے عالمی شہرت یافتہ مصنف پروفیسر سی جی پروئینز نے بھی اپنی کتاب " مشرق وسطی سیاست اور عسکری وسعت" میں پاکستان کی افواج کو اہل یہود اور اسرائیل کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے ۔ تب سے لے کر آج تک اسرائیل پاکستان کے خلاف مسلسل برسرپیکار ہے ۔
اسرائیل کو دنیاکے 32ممالک نے تسلیم نہیں کیا جن میں الجیریا،بحرین،کمروز،جبوتی،عراق، کویت، لبنان، لیبیا، مراکو، اومان، قطر، سعودی عرب، صومالیہ، شام، تیونس، متحدہ عرب امارات، یمن، افغانستان، بنگلہ دیش، برونائی، چاڈ، گینیا، انڈونیشیا، ایران، ملائشیا، مالی، نائیجر، پاکستان اور تین غیر اسلامی ممالک بھوٹان، کیوبا، اور شمالی کوریاشامل ہیں۔
امید ہے کہ مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے ہوتے ہوئے کوئی حکمران اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پاکستان کی اٹوٹ پالیسی کو تبدیل کرنے کی جرات نہیں کرے گا ۔
No comments:
Post a Comment