Sunday 17 December 2017

کیا جیت ہی کامیابی کی علامت ہے

*کیا ریس میں اکیلے بھاگ کر اول آنا عقلمندی ہے؟*
*تحریر اسرار احمد انڈس یونیورسٹی کراچی*
''صرف اپنے فرقے کے علماء کو پڑھ کر حق کو تلاش کرنے والوں کے نام'' صرف ایک فرقے کو پڑھ کر حق پر ہونے کا فیصلہ کرنے والوں کی مثال ریس میں اکیلے بھاگ کر اول آنے جیسی ہے، ہم کوئی عام سی چیز مارکیٹ میں لینے جاتے ہیں تو اسکی مختلف کوالٹیز دیکھ کر اور پرکھ کر لیتے ہیں، اور اگر خاص چیز لینی ہو تو پھر تو اچھے سے تحقیق کیے بغیر لینے کا سوال ہی نہیں، لیکن جب اسلام میں حق مسلک کی بات آتی ہے تو اسکو ریڈی میڈ ہی لے لیتے ہیں، یعنی جس فرقے پر ابا دادا چل رہے ہوں اسی کو بغیر پرکھے بغیر تحقیق کیے لے لیتے ہیں، اگر زیادہ سے زیادہ کیا تو اسی فرقے کے علماء کی کچھ کتب پڑھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کے کافی ہے، نہ دوسرے فرقوں کے دلائل دیکھنے کی جسارت کرتے ہیں نہ ہی کوئی فرقہ ایسا درس دیتا نظر آتا ہے کے بھائی سب کو دیکھ پرکھ کر تحقیق کر لو، ہر فرقہ کتاب لکھتے دوسرے کو گمراہ بتاتا ہے، پھر پڑھنے والا کوشش ہی نہیں کرتا کے اس "گمراہ" کے دلائل کا جائزہ ہی لیلے، دماغ یہ بن جاتا ہے کے فلاں تو ہے ہی گمراہ، تو اسکو پڑھ کر فائدہ، پڑھ کر بھٹک نہ جاؤں. نتیجہ آپکے سامنے ہے، جو جہاں ہے وہیں رہتا ہے اور دوسروں کے پورے مسلک پر اعتراض کرتا نظر آتا ہے.
دیکھیں میں آتا ہے کے ایک فرقے کے لوگ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہوتے ہیں جب کے اکثر کو تو دوسرے فرقے کے اصول و عقائد ہی نہیں پتا ہوتے صحیح سے، اس جہالت کی وجہ سے کافی الزامات غلط اور بہتان ہوتے ہیں، جب کے ہونا یہ چاہیے کے تحقیق کے ساتھ ہر فرقے کی ہم اس بات کی تفریق کیے بغیر کے کون سا فرقہ ہے، ہر حق بات قبول کریں اور غلط بات رد کریں.
اگر انسان نے ایک دفع ورڈ ٹو ورڈ قرآن کا ترجمہ ہی سمجھ کر پڑھا ہو تو ہر فرقے کی اکثر باتوں کے صحیح یا غلط ہونے کو پہچان سکتا ہے، یقین کریں کے قرآن سمجھ کر پڑھنے کے بعد کبھی انسان کسی کے باطل عقیدے میں نہیں پھنس سکتا، البتہ اجتہادی مسائل اور پیچیدہ مسائل میں حق کا فیصلہ کرنے کے لیے صحیح حدیث اور علماء کی کتب کا تفصیلی جائزہ لینا پڑتا ہے، جو اتنا زیادہ ضروری بھی نہیں ہوتا کے ہر کوئی کرتا پھرے، اصل بات بنیادی عقائد ہیں.
دین بہت آسان ہے، کم سے کم میرا تو یہ تجربہ ہے کے قرآن اور 400-500 بنیادی صحیح احادیث پتا ہوں تو کبھی انسان کسی کی باطل عقیدے میں نہیں آئے اور روز کی معمول کی سب عبادات اور کام قرآن اور سنت کے مطابق ہو جائیں.
اپنے ہی فرقے کو حق سمجھنے والوں کو مشورہ ہے کے دوسروں کے دلائل دل و دماغ کھول کر بغیر کسی مسلک کی عینک لگا کر پڑھیں، انکے دلائل کا بھی نیوٹرل ہو کر جائزہ لیں، انکی جو بات صحیح ہو اسکو قبول کرلیں اور غلط کو رد کر دیں، ریس میں اکیلے بھاگ کر اول آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، اپنے علاوہ ہر مسلک کو گمراہ کہنے کے بجاۓ انکی صرف غلط باتوں کا رد کریں اور صحیح باتوں میں ساتھ دیں، بہتان بہت بڑا گناہ ہے، کسی پر جان بوجھ کر یا بغیر اسکے اصول و عقائد کی تحقیق کیے جہالت میں بہتان لگانے سے بچیں، اس لیے دوسرے کے عقائد و اصول ٹھیک سے سمجھنے کے بعد ہی اسکے پورے مسلک کے بجاۓ صرف اسکی غلط بات پر علمی اور اخلاق سے اعتراض کریں. اس طرح اللّه نے چاہا تو آپ اپنی بھی اصلاح کر سکیں گے اور دوسروں کی بھی، ساتھ ساتھ مسلمان فرقہ واریت کی لعنت سے بھی بچ سکیں گے.....!
*مزید معلومات کے لئے وزٹ کیجیے*
🌏"engriersturdypage.blogspot.com"

Tuesday 12 December 2017

سراج الحق ہی میرا وزیراعظم کیوں۔............۔۔۔۔۔!


_تحریر اسرار احمد انڈس یونیورسٹی کراچی
پاکستان میں سراج الحق کے علاوہ بہت سے مزہبی و سیاسی رہنما ہیں ان میں سے کوئی حصول اقتدار کے لئے میدان میں آیا  اور کوئی اپنے کاروبار اور دیگر وسائل و مفاد کو بچانے کے لئے میدان میں آیا ہے ۔سراج الحق وہ واحد مزہبی و سیاسی رہنما ہے جو اس وقت اکیلے میدان جنگ میں اور نفرتوں کے گرما گرم بازار میں ایک مثبت طریقکار اور حکمتِ عملی کے ساتھ اقامت دین کا کام کر رہا ہے ۔اس فرد مجاہد میں نہ کوئی تفرقہ بازی ہے اور نہ اشتعال انگیزی ۔
یہ وہ فرد ہے جسکی ایمانداری کا ثبوت پاکستان کی سب بڑی عدالت سپریم کورٹ نے صادق اور امین کے لقب سے دیا۔
سراج الحق اور اسکی ٹیم اسی نصب العین ساتھ کے میدان عمل میں موجود ہے جس کی بنیاد رسول اللہ صلی الله عليه وسلم  نے آج سے 14 سو سال قبل رکھ دی تھی ۔رسول اللہ صلی الله عليه وسلم  نے جہاں مخلوق خدا کو دینی تعلیمات سے روشناس کیا اور وہاں آج کے اس کٹھن اور دجالی حالات کے لئے سیاسی نمونہ بھی بنے ۔کہیں سر جھکا کر حالات کا مقابلہ کیا کہیں سر اٹھا کر آج کے مسلمانوں اور غیور پاکستانیوں کو پیغام دیا ۔
لیکن اسی اقامت دین نظام مصطفٰی کے لئے آج بھی گلی گلی نگر نگر سید مودودیؒ کا شہزادہ سراج الحق اپنی مکمل ٹیم کے ہمراہ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہیں شہروں میں، کہیں تعلیمی اداروں میں اور کہیں ایوانوں میں آج بھی عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہاٰ کے انصاف ، عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سخاوت اور علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہاٰ کی شجاعت کے  ایجنڈے پر قائم ہیں ۔
افسوس سد افسوس
وہ پاکستان جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی۔لیکن آج وہ پاکستان باطل طاقتوں ، امریکی دباؤ اور کفر کے آگے جھکا ہوا ہے ۔ نااہل جاگیروں اور ویڑوے حکمرانوں نے بین الاقوامی ممالک، اداروں اور بینکوں سے قرضے لے لے کر ملک کے ہر شہری کو لاکھوں روپیوں کا قرضدار بنالیا-
غریب عوام کو گردے بیچنے پر مجبور کردیا ۔انصاف کو ناپید اور جینا دوبھر کردیا ۔آپکی عزتوں کو پارہ پارہ کردیا ۔اپکی قیمتیں امریکہ اور اپنے یاروں سے وصول کیں ۔جسکا منہ بولتا ثبوت ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور شہید غازی ممتاز قادری ہیں ۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے  تو بنیاد رکھ دی تھی لیکن *کاش* آج تک اس 95 فیصد مسلمان آبادی والے ایٹمی ملک کو ایک مسلمان حکمران نہیں مل سکا۔
جو حقیقی معنوں میں پاکستان کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکے -اور (بقول قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے کہ پاکستان ہم نے اسلام کی مکمل  تجربہ گاہ کے طور پر بنایا ہے)  اسلامی تجربہ گاہ کے طور طریقے پر گامزن کر سکے ۔
پاکستان کو اللہ پاک نے دنیا کی ہر نعمت سے مالامال کیا-
پس وقت کا تقاضا ہے اور ظلم کی چکی میں پسی ہوئی غریب عوام آپ ہم سب  سے پکار پکار کر کہتی ہے کوئی اللہ کا نیک بندہ لے آؤ جسے دیکھنے کے لئے قائد اعظم اور اقبالؒ کی وہ آنکھیں ترس گئی ہے جنکا انھوں نے خواب دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خواب تعبیر کرنے کے لئے وقت حاضرہ میں سراج الحق  کے علاوہ ہمیں کوئی متبادل دکھائی نہیں دیتا جسے ہم مزید ازما سکیں اور اپنے اوپر نگرانی اور ملکی سلامتی، نظریات وافکار سپرد کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔