Sunday 13 January 2019

الذوالفقار (پیپلز پارٹی کے نظریات سے وابستہ پاکستان کی پہلی دہشت گرد تنظیم )


الذوالفقار نامی تنظیم ایک دہشت گرد تنظیم تھی جس کا سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا اور بے نظیر بھٹو کا بھائی مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزارت عظمی سے برطرف کرکے جب جیل میں ڈالا تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں بیٹے مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو انہوں نے افغانستان میں روس نواز کمیونسٹ حکومت کی مدد سے الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ جس نے ضیاءالحق کے دور حکومت میں حکومت مخالف کارروائیاں بھی کیں تاہم دونوں بھائیوں کی اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور ان کے والد کو 1979 میں پھانسی کی سزا دے دی گئی
کم از کم پانچ ملک اس تنظیم کو اسلحہ، تربیت اور مالی وسائل فراہم کر رہے تھے جن میں انڈیا، افغانستان، شام، لیبیا، روس، فلسطین کی پی ایل او اور کسی حد تک اسرائیل کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔
جئے سندھ تنظیم کے قادر بخش جتوئی کی جلاوطنی کی تفصیل میں طیارہ اغوا کے اس معاملے کے متعلق واضح ہوتا ہے کہ الذولفقار ہو یا کوئی اور اس طرح کی غیر ریاستی تنظیم یا ادارہ وہ کسی ریاستی تعاون کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ان کے بقول المرتضیٰ کو افغانستان، شام اور لبیا کی براہ راست اور سوویت یونین اور بھارت کی کسی حد تک حمایت حاصل رہی۔
اس تنظیم کے لوگوں نے ملک میں افراتفری، فتنہ فساد، قتل و غارت اور بم دھماکے کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ چوہدری ظہور الٰہی سمیت متعدد لوگ شہید ہوئے۔ جج، جرنیل، سیاسی مخالفین سب نشانے پر تھے۔ ضیاءالحق کو بھی متعدد مرتبہ نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس دہشت گرد تنظیم سے دکھاوے کی حد تک بے نظیر نے فاصلہ رکھنے کی کوشش کی لیکن پیپلز پارٹی کی سربراہ نصرت بھٹو ان سے ملتی رہیں اور ان کی رہنمائی بھی کرتی رہیں۔ اس پارٹی کے عسکری اور سیاسی شعبوں کے لئے مالی معاونت کے ذرائع بھی مشترک تھے۔ تنظیم کی دہشت گرد کارروائیوں، انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ رابطوں کی تفصیل گھر کے بھیدی ’’راجہ انور‘‘ کی کتابوں اور مضامین میں دیکھی جا سکتی ہے۔

1981ء میں پی آئی اے کے جہاز کو اغواءکر لیا گیا اور اس کے اغوا میں اسی الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کاہاتھ تھا۔ جہاز کے اغواء کے دوران ہائی جیکرز نے پاک فوج کے آفیسر کیپٹن طارق رحیم (شہید) جو اس وقت سفارتکار تھے کو گولی مار کر جہاز سے باہر پھینک دیا تھا۔ کہا جاتا ہے طارق رحیم کو گولی ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو نے ماری تھی۔ تین اغوا کاروں سلام اللہ ٹیپو، ناصر جمال اور ارشد علی نے پاکستان کی مختلف جیلوں میں نظربند 54 دہشت گردوں کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیاجو اس وقت پورا کرلیا گیا ۔ یہ تمام واقعات اس وقت کے اخبارات اور پی ٹی وی پر ڈائرکٹ ٹیلی کاسٹ بھی کیئے گئے تھے۔
اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کا نام مختلف کارروائیوں میں لیا جاتا رہا۔
بعدزاں پل چرخی جیل میں سلام اللہ ٹیپو کو بھی ثبوت مٹانے کی خاطر مرتضی بھٹو کے حکم پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ سلام اللہ ٹیپو جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک کارکن کو قتل کرنے کے الزام میں پولیس کو بھی مطلوب تھا

پی آئی طیارے کے اغوا کے اس پورے واقعے کی تفصیل پیپلز پارٹی کے جیالے راجہ انور نے اپنی کتاب " قبر کی اغوش " کے صفحہ 67 پر ان الفاظ میں ذکر کی ہے ۔
" میجر طارق رحیم(سابق ADC اف بھٹو اپنے والد جنرل رحیم کے جنازے میں شرکت کے لیے ایران سے کراچی پہنچا اور وہاں سے پشاور کی فلائیٹ پکڑی ۔ طارق رحیم کی بدبختی کہ سلام اللہ ٹیپو اسی طیارے کو اغوا کرکے کابل لے آیا ۔مطالبات کئی دن تک جاری رہے لیکن بے سود ۔ آخر مرتضی بھٹو نے بزن کا حکم دے دیا ۔چنانچہ ہائی جیکرز نے اسکے ایما پر طارق رحیم کو بے رحمی سے گولی کا نشانہ بنا ڈالا اور اسکی تڑپتی ہوئی نعش کاک پٹ سے نیچے رن وے پر پھینک دی ۔کابل ٹی وی یہ روح فرسا منظر بار بار دکھاتا رہا ۔یہ منظر آج تک میرے حافظے پر ایک رستے ہوئے زخم کی مانند تازہ ہے۔ اسکی لاش کو پاکستان لے جانے کے لیے لکڑی کا تابوت یہی پل چرخی جیل میں ہی میری انکھوج کے سامنے تیار ہوا ۔ اللہ کا انصاف جانئیے یا وقت کا انتقام لیکن طارق رحیم کے سفاکانہ قتل کے پورے تین سال بعد وقت نے اسی ٹیپو کو اسی پل چرخی میں عین اسی جگہ پر جہاں طارق رحیم کا تابوت تیار ہوا تھا ، دہائیاں دیتے اور اپنا ناک رگڑتے دیکھا ۔پھر ایک رات یہیں پر اسے گولی ماردی گئی ۔فرق صرف اتنا تھا کہ اسکا بے گور کفن لاشہ کسی تابوت کے بغیر پل گون کی کسی نادیدہ کھائی میں پھینک دیا گیا "

الزوالفقار کی ہی مدد سے پی پی پی نے  پاکستان میں لیبیا کے سفارت خانے سے ہتھوڑا گروپ تشکیل دے کر معصوم لوگوں کی جانیں سر کچل کچل کر لیں نتیجہ کیا ہوا دہرانے کی ضرورت نہیں ہے سب کو معلوم ہے (باقی رہے نام اللہ کا اس کا ہتھوڑا کتنا زبردست ہے یہ بھی سب جانتے ہیں

صھافی اثر چوہان صاحب نے ماضی میں اپنے ایک مضمون میں فیصل رضا عابدی کے متعلق لکھا ہے     کہ ” جب مرتضیٰ بھٹو نے الذوالفقار تنظیم بنائی تو فیصل رضا عابدی کی عمر اس وقت آٹھ ماہ بائیس دن تھی۔ اگر وہ ان دنوں جوان ہوتے تو کم از کم الذوالفقار میں خودکش حملہ آوروں کے کور کمانڈر ضرورت ہوتے“۔ آصف بٹ ایڈووکیٹ نے اپنی سوانح عمری ” کئی سُولیاں سرِرا ہ تھیں“ میں اعتراف کیا ہے کہ وہ مرتضیٰ بھٹو کے حکم پر جنرل ضیاءکو قتل کرنے کابل سے راولپنڈی آئے تھے۔وہ الذولفقار میں شامل تھے اور 28 افراد کے ہمراہ دمشق سے کابل پہنچے تھے،نیز مرتضیٰ بھٹو کا بھارت سے رابطہ تھا اور پی آئی اے کا طیارہ الذولفقار نے اغوا کیا تھا۔

میر مرتضیٰ بھٹو کے تشکیل کردہ دہشت گرد گروپ کا خاتمہ 1993میں ہوا جب انہوں نے خود الذوالفقار کو خیرباد کہہ دیا، پرتشدد سیاست سے رجوع کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) قائم کی۔ الذوالفقار حقیقت تھی یا داستان لیکن اس سے یقیناً سیاسی جدوجہد کو شدید نقصان پہنچا اور پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکن جیلوں میں ڈالے گئے۔

الذوالفقار کی داستان بھی سیاسی رومانس کا شکار ہونے والے نوجوان کارکنوں کے لئے چشم کشا ہے۔ ناصر اور ارشد خصوصاً گزشتہ 20 برسوں سے بڑی اذیت اور مشقت سے گزرے۔ وہ ایک سے دوسرے ملک منہ چھپاتے پھرتے رہے۔ جب مرتضیٰ بھٹو مسلح جدوجہد ترک کرکے پاکستان واپس چلے آئے۔تو وہ ہائی جیکرز کو معافی نہ دلاسکے۔انہوں نے دمشق چھوڑنے کے بعد الذوالفقار کے تمام یونٹس بند کردیئے۔ ابتداء میں ناصر اور ارشد سے بہتر سلوک ہوا، انہیں لیبیا میں ملازمتیں بھی ملیں لیکن بعد ازاں انہیں گرفتارکرکے چند برسوں کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا۔

الذوالفقار کے سیکڑوں عسکر یت پسند  مختلف صدمات سے گزرے۔ بعض دنیا سے چل بسے، کچھ قتل کردیئے گئے اورکم از کم 20ہنوز لاپتہ ہیں۔ جس میں گروپ کا سربراہ منظر عالم شامل ہے۔ ان میں الطاف عباسی کا نام بھی لیا جاتاہے، جس کا 1972 کے میونخ اولمپکس کے موقع پر فلسطینیوں کے ایک گروپ کی جانب سے اسرائیلی کھلاڑیوں کو یرغمال بنانے میں بھی کردار بتایا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے کچھ کارکنوں نے پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل او) بھی بنالی تھی۔ جس نے بھٹو کو جیل سے چھڑانے کی کوشش بھی کی لیکن انہوں نے سیاسی اور قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے انکار کردیا تھا ۔ آج خود ان کی پارٹی سمیت کوئی ایسا نہیں جو ان کی معذرت قبول کرے۔ حتیٰ کہ این آر او بھی انہیں نہیں چھڑ اسکا ۔ یہ ایسے ہزاروں نوجوان ذہنوں کی کہانی ہے جنہوں نے ہم جوئی اور انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا۔ اپنے لیڈر یا نظریہ کے نام پر ہتھیار اٹھائے لیکن ان کی زندگیوں کا خاتمہ عبرتناک رہا

بھٹو ،مجیب اور اندرا اپنے مکافات عمل کا شکار ہوئے ،
الذوالفقار کے شریک بانی شاہنواز بھٹو فرانس میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے
مرتضیٰ بھٹو پر خون ناحق بھی تھا ، میجر طارق اور سلام الله ٹیپو شائد اس کے لئے مکافات عمل تھے
مرتضیٰ بھٹو کو 1996 میں بے نظیر بھٹو کے اپنے ہی دور حکومت میں ایک متنازع پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ اور شنید ہے کہ اس میں بے نظیر کے شوہر اور کچھ کا کہنا تھا کہ بے نظیر کا بھی ہاتھ تھا ۔
     باقی رہے نام اللہ کا جو خوب بدلا لینے والا ہے ۔

فاعتبرو یا اولی الابصار
تو اے (بصیرت کی) آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو

No comments:

Post a Comment