Sunday 27 August 2017

یوم تاسیس اور جماعت اسلامی پاکستان

جماعت اسلامی پاکستان ملک کی سب بڑی اورپرانی اسلامی تحریک ہے۔جس کا آغازبیسویں صدی کے اسلامی مفکرسیدابوالاعلیٰ مودودی نے عصر حاضر میں اسلامی نظام کے احیا کے لیے کیاتھا۔قیام پاکستان سے قبل3شعبان1360ھ(بمطابق26اگست1941ء)کو جماعت اسلامی قیام پذیر ہوئی۔اور یکم جون 1957ءبمطابق2ذی القعدہ1376ھ کو اس کا دستورنافذ العمل ہوا۔
بنیادی عقیدہ
دستور جماعت کے مطابق جما عت اسلامی کا بنیادی عقیدہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ اس عقیدے کے پہلے جزو یعنی اللہ کے واحد الٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، سب کا خالق، پروردگار،مالک اور تکوینی و تشریعی حاکم صرف اللہ ہے، ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔
حکومت الہیہ یا اسلامی نظام زندگی کے قیام کے ذریعے رضائے الٰہی اورفلاح اخروی کا حصول اول روز سے جماعت کے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لئے ہم کام کر رہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیش نظر کبھی تھا نہ آج ہے، نہ ان شاءاللہ کبھی ہوگا۔آج تک جس کام سے بھی ہم نے دلچسپی لی ہے اسی مقصد کے لئے لی ہے،اور اسی حدتک لی ہے جس حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔جس چیزکو ہم قائم کرناچاہتے ہیں اس کاجامع نام قرآن کی اصطلاح میں”دین حق“ہے،یعنی وہ نظامِ زندگی (دین)جو حق (پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اللہ کی بندگی واطاعت پر مبنی ہو۔مگر اس کےلئے کبھی کبھی ہم نے ”حکومت الٰہیہ“ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے جس کا مفہوم دوسروں کے نزدیک چاہے جو کچھ بھی ہو، ہمارے نزدیک صرف یہ ہے کہ ”اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنا“۔ اس لحاظ سے یہ لفظ بالکل ”اسلام“ کا ہم معنی ہے۔ اسی بنا پر ہم ان تینوں اصطلاحوں(دین حق، حکومت الٰہیہ اور اسلام ) کو مترادف الفاظ کی طرح بولتے رہے ہیں۔ اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کانام ہم نے اقامتِ دین، شہادتِ حق اور تحریک اسلامی رکھا ہے ۔ جن میں سے پہلے دو لفظ قرآن سے ماخوز ہیں اور دوسرا لفظ عام فہم ہونے کی وجہ سے اختیار کیاگیا ہے۔ ان الفاظ میں سے کسی پر اگر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی ہے تو اس لئے کہ انہوں نے ہماری اصطلاح سے اپنا مفہوم مراد لے لیا،ہمارا مفہوم مراد لیتے تو امید نہ تھی کہ اس پر وہ ناراض ہوتے۔ (جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۱)
ہماری دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے
ہمارے نزدیک اسلام ان لوگوں کی جائیداد نہیں ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں بلکہ خدا نے یہ نعمت ان سب کے لئے بھیجی ہے جو انسان پید ا ہوئے ہیں خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطے میں بستے ہوں۔ اس بنا پر ہمارا مقصد محض مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کی زندگی کو دین حق پر قائم کرناہے۔ مقصد کی یہ وسعت آپ سے آپ تقاضا کرتی ہے۔ کہ ہماری اپیل عام رہے اور کسی مخصوص قوم کے مفاد کو مدِ نظر رکھ کر کوئی ایسا طرزِ عمل نہ اختیار کیاجائے جواسلام کی اس عام اپیل کو نقصان پہنچانے والا ہو یااس کی نقیض واقع ہوتا ہو۔ مسلمانوں سے ہم کودلچسپی اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم ان میں پید اہوئے ہیں اور وہ ہماری قوم ہیں بلکہ ان کے ساتھ ہماری دلچسپی کہ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کو مانتے ہیں، دنیا میں اس کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں،نوعِ انسانی تک اس کا پیغام پہنچانے کےلئے انہی کو ذریعہ بنایاجاسکتا ہے ،اور دوسروں کےلئے اس پیغام کو موثر بنانا اس کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے کہ جولوگ پہلے سے مسلمان ہیں وہ اپنی انفرادی اجتماعی زندگی میں پورے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کریں۔ اس بنا پر ہمارا راستہ ان لوگوں کے راستہ سے ہمیشہ الگ رہا ہے اور آج بھی الگ ہے جنہیں مسلمانوں سے اصل دلچسپی اس لئے ہے کہ وہ ان کی قوم ہیں اور اسلام سے یا تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے یا ہے تو اس وجہ سے ہے کہ وہ ان کی قوم و مذہب ہے۔ (جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۲
ہمارا تصور دین
”دین حق“ اور ”اقامت دین“ کے تصور میںبھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے ہم دین کومحض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد ورسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ طریقِ زندگی اور نظامِ حیات کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوؤں اورتمام شعبوں پرحاوی ہے۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ زندگی کوالگ لگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ اسکیموں کے تحت چلایا جاسکتاہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلو انسانی جسم کے اعضا کی طرح ایک دوسرے سے ممیز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ و ہ سب مل کر ایک کل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر ایک ہی روح جاری و ساری ہوتی ہے۔یہ روح اگر خدااور آخرت سے بے نیازی اورتعلیمِ انبیاءسے بے تعلقی کی روح ہوتو پوری زندگی کانظام ایک دین باطل بن کر رہتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر رکھا بھی جائے تو مجموعی نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخر کار بالکل محو کردیتی ہے۔ اور اگر یہ روح خدااور آخرت پر ایمان اورتعلیم ِانبیاءکے اتباع کی روح ہوتو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دین حق بن جاتا ہے۔ جس کے حدود عمل میں ناخدا شناسی کافتنہ اگر کہیں ر ہ بھی جائے تو زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔ اس لئے ہم جب اقامت دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا، یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا۔بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھراور مسجد ، کالج اور منڈی ، تھانے اورچھاؤنی ،ہائیکورٹ اور پارلیمنٹ، ایوان وزارت اور سفارت خانے، سب پر اس ہی ایک خدا کادین قائم کیاجائے جس کوہم نے اپنارب اور معبود تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اسی ایک رسو ل کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے جسے ہم اپنا ہادی برحق مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے ۔ اپنی زندگی کے کسی پہلوکو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے۔ شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
(جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۳)
مذہب اور سیاست
کوئی کہتا ہے کہ تم مذہب کی تبلیغ کرو۔ سیاست میں کیوں دخل دیتے ہو۔مگر ہم ا س بات کے قائل ہیں کہ ”جدا ہودین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ اب کیا یہ لوگ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست پر چنگیزی مسلط رہے اور ہم مسجد میں ”مذہب“ کی تبلیغ کرتے رہیں؟اور آخر وہ مذہب کون سا ہے جس کی تبلیغ کے لیے وہ ہم سے کہہ رہے ہیں؟اگر وہ پادریوں والا مذہب ہے جو سیاست میں دخل نہیں دیتا تو ہم اس پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ قرآن و حدیث کا مذہب ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ تو وہ سیاست میں محض دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس کو اپنا ایک جزو بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ تم پہلے مذہبی لوگ تھے، اب سیاسی گروہ بن گئے ہو۔ حالانکہ ہم پر کبھی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب ہم غیر سیاسی مذہب کے لحاظ سے ”مذہبی“ رہے ہوں ، اور آج خدا کی لعنت ہو ہم پر اگر ہم غیر مذہبی سیاست کے لحاظ سے سیاسی بن گئے ہوں۔ ہم توا سلام کے پیرو ہیں اور اسی کوقائم کرنا چاہتے ہیں۔ و ہ جتنا ”مذہبی “ ہے اتنے ہی ہم مذہبی ہیں اور ابتدا سے تھے۔ تم نے نہ کل ہمیں سمجھا تھا جب کہ ہم کو ”مذہبی“گروہ قراردیا۔اور نہ آج سمجھا ہے جب کہ ہمارا نام ”سیاسی جماعت“رکھا۔ سیاست اور مذہب میں تمہارا استاد یورپ ہے۔ اس لئے نہ تم نے اسلام کو سمجھا اور نہ ہمیں۔
کوئی کہتا ہے کہ الٰہ تو صرف معبود ہے تم نے یہ سیاسی حاکمیت اس کے لیے کہاں سے ثابت کردی ؟ اور اس پرغضب یہ ہے کہ تم اس حاکمیت کو اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہو اور انسانی حاکمیت کے منکر ہو۔ یہ تو خالص خارجیت ہے۔ کیونکہ تمہاری طرح خارجی بھی یہی کہتے تھے کہ انِ الحُکم اِلا للہ مگر ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رو سے خدا کا حق صرف عبادت و پرستش ہی نہیں بلکہ طاعت و عبدیت بھی ہے۔ ان میں سے جس حق میں بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیاجائے گا،شرک ہوگا، بندوں میںسے کسی کی اطاعت اگر کی جاسکتی ہے تو صرف خدا کے اذنِ شرعی کی بنا پر کی جاسکتی ہے اور وہ بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر۔ رہا خدا سے بے نیاز ہوکر مستقل بالذات مطاع ہوناتو وہ تو رسول کا حق بھی نہیں ہے کجا کہ کسی انسانی ریاست یا سیاسی و تمدنی ادارے کا حق ہو۔ جس قانون ، عدالت اور حکومت میں خدا کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت کو مسند نہ مانا جائے، جس کا بنیادی اصول یہ ہو کہ اجتماعی زندگی کے جملہ معاملات میں اصول اور فروع تجویز کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے اور جس میں قانون ساز مجلسیں خدائی احکام کی طرف رجوع کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہ تسلیم کرتی ہوں اور عملا ان کے خلاف قوانین بناتی ہوں اس کے اطاعت کے لزوم تو درکنار جواز تک کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اس بلا کو زیادہ سے زیادہ صرف برداشت کیاجاسکتا ہے جب کہ انسان اس کے پنجہ اقتداد میں گرفتار ہوجائے۔ مگر جوشخص ایسی حکومتوں کے حقِ فرمانروائی کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات کو ایک اصول برحق کی حیثیت سے مانتا ہے۔ کہ خدائی ہدایت کوچھوڑ کرانسان بطور خود اپنے تمدن،سیاست اورمعیشت کے اصول و قوانین وضع کرلینے کے مجاز ہیں۔ وہ اگر خدا کومانتا ہے تو شرک میں مبتلا ہے ورنہ زندقہ میں۔ ہمارے مسلک کو”خارجیت“ سے تعبیر کرنا مذہب اہل سنت اور مذہبِ خوارج ،دونوں سے ناواقفیت کاثبوت ہے۔ علماءاہل سنت کی لکھی ہوئی کتب اصو ل میں سے جس کو چاہے اٹھا کر دیکھ لیجئے۔
اس میں یہی لکھا ملے گا کہ حکم دینے کا حق اللہ کے لئے خاص ہے۔مثال کے طور پر علامہ آمدی اپنی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام میں لکھتے ہیں کہ اعلم انہ لا حاکم سوی اللہ ولاحکم الا ماحکم بہ ”جان لو کہ حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور حکم صرف وہ ہے جو اللہ نے دیا ہے“۔
اسلامی حکومت
کچھ اور لوگ ہیں جو چند راچندرا کر پوچھتے ہیں کہ حکومت الٰہیہ یا اسلامی حکومت کا قیام کس نبی کی دعوت کا مقصود رہا ہے؟مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ قرآن اور توراة میں عقائد و عبادات کے ساتھ دیوانی اور فوجداری قوانین اور صلح جنگ کے احکام، اور معیشت و معاشرت کے قواعد وضوابط، اور سیاسی تنظیم کے اصول بیان ہوئے ہیں۔ کیا یہ سب محض تفنن طبع کے لیے ہیں؟کیا یہ آپ کے اختیارتمیزی پر چھوڑا گیا ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات میں سے جس چیز کو چاہیں جزو دین مانیں اور جسے چاہیں غیر ضروری زوائد میں شمار کریں؟کیا انبیاءبنی اسرائیل علیھم السلام اور خاتم النبیین محمدﷺ نے جو سیاسی نظام قائم کیے وہ ان کی پیغمبرانہ دعوت کے مقاصد میں سے نہ تھے؟محض ملاقات سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اپنا شوق فرمانروائی پورا کیا تھا۔کیا دنیامیں کوئی قانون اس لئے بھی بنایا جاتا ہے کہ صرف اس کی تلاوت کرلی جائے، اس کا نفاذ سرے سے مقصود ہی نہ ہو؟کیاواقعی ایمان اسی چیز کا نام ہے کہ ہم روز اپنی نمازوں میں کتاب اللہ کی وہ آیات پڑھیں جن میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق اصول اور احکام بیان ہوئے ہیں اور رات دن ہماری زندگی کے اکثر و بیشتر معاملات ان کے خلاف چلتے رہیں۔
ہمارا مسلک
خدا کی بندگی جس پر ہم پورے نظام زندگی کوقائم کرناچاہتے ہیں،اس کے بارے میں بھی ہمارا ایک واضح مسلک ہے اور وہ مختلف گروہوں کو مختلف وجوہ سے پسند نہیں آتا۔ہمارے نزدیک ہر شخص اس کا مختار نہیں ہے کہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس طرح چاہے خدا کی بندگی کرے بلکہ اس کی ایک ہی صحیح صورت ہے اور وہ اس شریعت کی پابندی ہے جو محمد ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اس شریعت کے معاملے میں کسی مسلمان کے اس حق کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ اس کی جن باتوں کوچاہے قبول کرے اور جن باتوں کو چاہے رد کردے۔ بلکہ ہم اسلام کے معنی ہی اطاعت حکمِ خداوندی اوراتباع شریعتِ محمدی ﷺ کے سمجھتے ہیں۔ شریعت کے علم کا ذریعہ ہمارے نزدیک صرف قرآن پاک نہیں ہے بلکہ حدیث رسولﷺ بھی ہے اور قرآن و حدیث سے استدلال کا صحیح طریقہ ہمارے نزدیک یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے نظریات پر خداور رسول کی ہدایات کو ڈھالے بلکہ یہ ہے کہ آدمی اپنے نظریات کو خدا اور رسول کی ہدایات پر ڈھالے پھر ہم نہ تو تقلید جامد کے قائل ہیں جس میں اجتہاد کی جگہ نہ ہو اور نہ ایسے اجتہاد کے قائل ہیں کہ ہر بعد کی نسل اپنے سے پہلے کی نسلوں کے سارے کام پر پانی پھیر دے اور بالکل نئے سرے سے ساری عمارت اٹھانے کی کوشش کرے۔
اس مسلک کا ہر جزو ایسا ہے جس سے ہماری قوم کا کوئی نہ کوئی گروہ ہم سے ناراض ہے۔ کوئی سرے سے خدا کی بندگی کا قائل ہی نہیں ہے۔ کوئی شریعت سے بے نیاز ہو کر اپنی صواب دید کے مطابق خدا کی بندگی کرنا چاہتا ہے۔ کوئی شریعت میں اپنا اختیار چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جوکچھ اسے پسند ہے وہ اس شریت میں رہے اور جو اسے پسند نہیں ہے وہ شریعت سے خارج ہوجائے۔ کوئی قرآن و حدیث سے قطع نظر کر کے اپنے من گھڑت ا اصولوں کا نام اسلام رکھے ہوئے ہے کوئی حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن کو مانتا ہے ۔کوئی اصول اور نظریات کہیں باہر سے لے آیا ہے یا اپنے دل سے گھڑ لایا ہے اور پھر زبردستی قرآن و حدیث کے ارشادات کو ان پر ڈھالنے کی کوشش کررہا ہے۔ کسی کوتقلید جامد پر اصرار ہے اور کوئی تمام پچھلے آئمہ کے کارناموں کودریا برد کرکے نیا اجتہاد کرنا چاہتا ہے۔
اختلاف مسلک کا حق
ہماراراستہ ان سب گروہوں سے الگ ہے اور ہم مجبور ہیں کہ ان سے اختلاف بھی کریں اور ان کے علی الرغم اپنے مسلک کی تبلیغ بھی کریں اسی طرح دوسرے کے بھی اس حق کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جس معاملے میں بھی ہم کوغلطی پر سمجھتے ہیں اس میں ہم سے اختلاف کریں اور ہمارے علی الرغم اپنے مسلک کی تبلیغ کریں۔ اب ہر شخص جو ہندوستان و پاکستان میں رہتا ہے اور مختلف گروہوں کے لٹریچر پر نظر رکھتا ہے ۔ خود ہی یہ دیکھ سکتا ہے کہ اپنی تنقید و تبلیغ میں ہمارا رویہ کیارہا ہے اور ہمارے مخالفین نے جواب میں کس تہذیب و دیانت اور معقولیت کاثبوت دیا ہے۔
(جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۲۰

Tuesday 22 August 2017

فرقہ بنانا شرک سے بھی برتر ہے

فرقہ بنانا شرک اور نفاق سے بھی خراب ھے
*برطانیہ میں جعلی علماء کس طرح تیار کیے جاتے ہیں ؟*
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مسلمانوں کو بہت سے مسائل کے ساتھ جس ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ ہے باہمی اتحاد کی کمی،ایک خدا،ایک رسولؐ ،ایک کتاب،ایک امت ،لیکن پھر بھی امت اتنی پارہ پارہ کیوں ہے ۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے ساتھ اسلام کے دشمنوں کی بھی محنت شامل ہے۔ زیرِ نظر تحریر ایک ایسی ہی حقیقت ہے کہ کیوں ابھی تک ہم ایک چاند پر بھی متفق نہیں ہو پارہے ہیں؟۔یہ مضمون جولائی 2010 ءکے’اُردو ڈائجسٹ ‘میں شائع ہوا تھا۔
”نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940 ءکی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔نواب چھتاری اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا ۔ان کے ایک پکے انگریز دوست نے، جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا ،نواب صاحب سے کہا: ”آئیے ! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کرائوں، جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔“نواب صاحب خوش ہوگئے ۔انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔دو روز بعدکلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا: ”ہم کل صبح چلیں گے“ لیکن میری موٹر میں‘موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں۔
اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا ۔جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا ۔سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا، نہ کوئی پیدل مسافر۔ نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراُدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا ۔پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی،اس کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی، جسے عبور کرنا ناممکن تھا،عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔
اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے، اس میں سوار ہو جائیں،نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا،وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا :”بس منزل آنے والی ہے۔“آخر دورایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا: ”یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جا سکتے ہیں “۔راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا :”یاد رکھیں ‘کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں، بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں ۔“
عمارت کے شروع میں دالان تھا ،اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے ۔دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے ۔ پہلے نے عربی لہجے میں ”السلام علیکم“ کہا۔دوسرے نے ”وعلیکم السلام !کیا حال ہے ؟“نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے ،دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھاہے ،عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔طلباءعربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے ۔نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے ،کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا ۔ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی ۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے ۔مثلاً وضو،روزے،نماز اور سجدہ سہو کے مسائل ، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے ،لباس اور داڑھی کی وضع قطع،چاند کانظر آنا،غسل خانے کے آداب ،حج کے مناسک،بکرا ،دنبہ کیساہو،چھری کیسی ہو ،دنبہ حلال ہے یا حرام،حج بدل اور قضاءنمازوں کی بحث،عید کا دن کیسے طے کیاجائے اورحج کا کیسے؟پتلون پہنناجائزہے یا ناجائز ؟عورت کی پاکی کے جھگڑے ،امام کے پیچھے سورة الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں ؟تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟وغیرہ ۔ایک استاد نے سوال کیا،پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شستہ اردو میں!”جماعت اب یہ بتائے کہ جادو ،نظربد،تعویذ ،گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں ؟“پینتیس چالیس کی جماعت بہ یک آواز پہلے انگریزی میں بولیTRUE,TRUE پھر عربی میں یہی جواب دیا اور اردو میں!
ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر سوال کیا: ”الاستاد ،قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔“استاد بولے: ”قرآن کی بات مت کرو،روایات اور ورد میں مسلمان کا ایمان پکا کرو۔ستاروں ،ہاتھ کی لکیروں ،مقدراور نصیب میں انہیں اُلجھاو۔“
یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا: ”اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھا ہے؟“انگریز نے کہا: ”ارے بھئی ،ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں،تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوںخصوصاًمشرق وسطیٰ،ترکی،ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں ۔انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں ۔یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں،وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے ،صرف کھانا،سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔وہ مؤذن،پیش امام ،بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طورپراپنی خدمات پیش کرتے ہیں ،تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقررہوجاتے ہیں۔جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔“
نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ اِس’ عظیم مدرسے‘ کے بنیادی اہداف یہ ہیں:
(۱) مسلمانوں کو وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔
(۲) حضوراکرم ﷺ کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے ،گھٹایا جائے۔اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اسی طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا ۔اسکی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی۔ خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔[بشکریہ : ماہنامہ ’الحیاۃ‘ انڈیا۰۰۰۰فروری2016 ]

Friday 18 August 2017

کس منہ سے تم جمہوریت کی بات کرتے ہو

کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہو:
31جولائی کو سعد رفیق اور اگست 2 کو رضا ربانی نے و ہی رونا رویا جو اس ملک کے نالائق، موقع پرست، بدعنوان، خوشامدی، دھوکے باز، جھوٹے اور لٹیرے سیاست دان عرصہ دراز سے روتے آ رہے ہیں۔ کیا؟ یہی کہ حکمرانی صرف سیاست دانوں کا حق ہے جو انہیں عوام کی رائے سے ملتا ہے۔ فوج دیگر اداروں کی طرح سیاسی حکومت کے ماتحت ایک ادارہ ہے جس کا کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے۔ ملک کو چلانا، پالیسیاں بنانا اس کا کام نہیں۔ یہ سیاست دانوں کا کام ہے۔ فوج کا یہ آئینی فرض ہے کہ سیاست دانوں کی دی گئی حکمتِ عملی پر بلاچوں و چرا عمل کرے۔ سیاست میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔

بالکل درست فرمایا! جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اپنے پڑوسی بھارت کوہی دیکھ لیجیے۔ جرات نہیں کہ فوج مارشل لا لگا سکے حالاں کہ حالات کتنے موزوں ہیں! ربانی صاحب اتنا بتا دیں کہ کیوں انہوں نے فوجی عدالتوں کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کیا؟ اور یہ ’گناہ‘ کرنے کے بعد ٹسوے کیوں بہائے؟ مستعفی کیوں نہ ہوئے؟ دوسری بار پھران کی جماعت نے فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت کی۔ کیوں ابھی تک اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں؟ حمایت فوجی عدالتوں کی اور بھاشن جمہوریت کے!

ان کی جماعتیں اپنے اندرونی نظام میں کس حد تک جمہوری ہیں؟ بلاول کل کا بچہ ہے۔ اور ربانی صاحب اس کے سامنے مؤدب کھڑے ہوتے ہیں۔ فوج میں کوئی افسر رنگروٹ کے سامنے سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑا دیکھا ہے؟ کیا ان کی جماعت میں ایک بھی ایسا قابل شخص نہیں جو قیادت کے لائق ہو؟ دراصل یہ لوگ ازل سے غلام ابن غلام ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ بھٹو صاحب کے بعد کئی سینئر، قابل اور ایمان دار سیاست دان جماعت میں تھے۔ لیکن کم و بیش سب ہی بے نظیر کو سجدہ کرنے لگے۔ اس کے بعد زرداری کی غلامی میں جت گئے۔ اب نیا آقا بلاول ہے۔ اس کے بعد آصفہ یا بختاور۔ اس کے بعد ان کے بچے۔ یہ اور ان کی آنے والی نسلیں ہمیشہ غلام رہیں گے۔ کیا آرمی چیف اپنے بعد یا اپنی زندگی میں اپنے بچے کو اپنی گدی پر بٹھا سکتا ہے؟

رفیق صاحب بتائیں کہ ان کی جماعت میں کتنی جمہوریت ہے؟ آپ لوگوں نے نواز شریف کی بیٹی کو مستقبل کا وزیرِ اعظم متعارف کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ یہ سیاسی جماعت ہے یا خاندانی جاگیر جو باپ کے بعد اولاد میں شریعت کے اصولوں کی روشنی میں منتقل ہو جایا کرتی ہے۔ ان کی جماعت کی کیا خدمات ہیں جمہوریت کے لیے؟ اگر آرمی کی نظر عنایت نہ ہوتی تو کون جانتا تھا نواز شریف کو؟ پھر جب مشرف نے ان کا بھاری بھر کم مینڈیٹ ہوا میں اڑا دیا تو کتنے لوگ سڑک پر نکلے؟ چند ایک کو چھوڑ کر جماعت کے سارے رہنما مشرف صاحب کی گود میں جا بیٹھے۔ مشرف کے بعد دوبارہ نواز شریف کی گود میں بیٹھ گئے۔ مشرف سے خفیہ معاہدہ کر کے جماعت کا رہنما مع اہل و عیال سعودی عرب چلا گیا۔ بیچارے جاوید ہاشمی نے جنگ کی آمر سے اور کیا صلہ دیا اس کی قربانیوں کا؟ اسے ہی اٹھا کر پٹخ دیا! پوری جماعت میں کوئی ایک ایسا نہیں ملا جس کا دامن الزامات سے پاک ہو۔ کیسے دنیا یا فوج ایسے وزیر اعظم کی عزت کرے گی جو محض ایک کٹھ پتلی ہو اور جس پر بدعنوانی کے الزامات بھی ہوں؟ چالیس دن یہ ’نظام سقہ‘ چلتا کر دیا جائے گا اور شہباز شریف کو تخت پر بٹھایا جائے گا۔ کیا ایسا مسخرہ پن دوسرے جمہوری ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے؟

چار سال سے ن لیگ نے وزیر خارجہ مقرر کرنے کی زحمت نہیں کی۔ سال سال وزیرِ اعظم ایوان میں نہیں گئے۔ چار سال میں ایک بھی بار ان کا وزیر دفاع خواجہ آصف اپنی وزارت (دفاع) کے دفتر جو پنڈی میں ہے نہیں گئے۔ کیا فوج نے منع کیا ہوا تھا ان سب کو ایسا کرنے سے؟ کس منہ سے جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں یہ لوگ!

فوج پہ غلبہ پانا ن لیگ کا دیرینہ خواب ہے لیکن اس کے حصول کا طریقہ ہمیشہ احمقانہ رہا۔ کبھی آرمی چیف سے استعفا لے لیا۔ کبھی اسے اس کی غیر موجودگی میں برخاست کر دیا۔ کبھی فوج کے خلاف خبریں لگوا دیں۔ کبھی ڈان لیکس کا شوشہ چھوڑ دیا۔ زرداری صاحب نے اپنے دورِ سلطنت میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا اور منہ کی کھائی۔ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے فوج کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اپنے پیروں پر کلہاڑی ضرور ماری جا سکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ جسے شہہ سواری نہیں آتی وہ گھوڑے کے نزدیک نہیں پھٹک سکتا۔ یہ تو گھوڑے کی مہربانی ہے اگر ایسوں کو اپنی پیٹھ پر بیٹھنے دے۔ زیادہ اترانے والوں کی گھوڑے نے ہمیشہ اگاڑی یا پچھاڑی سے ہی عزت افزائی کی ہے۔

اگر عوام کی خدمت نصب العین ہو تو موجودہ طاقت بھی ضرورت سے زیادہ ہے۔ لیکن انہیں طاقت چاہیے اپنی مطلق العنانی قائم کرنے کے لیے۔ ایسا فوج کو نتھ ڈالے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے گاہے گاہے یہ رونا رویا جاتا ہے۔ جمہوریت کی دہائی دی جاتی ہے۔ یہ اتنا بتا دیں کہ جو ادارے کلی طور پر ان کے رحم و کرم پر ہیں انہیں کتنا مضبوط انہوں نے پچھلے 35 برسوں میں۔ 97 میں بہت طاقت ور تھے نواز شریف۔ عدلیہ سے پنگا لیا۔ عدلیہ نے آرمی چیف کو خط لکھ کر تحفظ کی درخواست کی جو قبول نہ کی گئی۔ اور ن لیگ کے غنڈوں نے عدالت عظمیٰ پر حملہ کر دیا۔ اب کی بار بھی ایسا کرنے کی کوشش کی تھی۔ نہال ہاشمی کو استعمال کیا گیا۔ سنگین نتائج کی دھمکی دلوائی ان کے ذریعے عدلیہ اور جے آئی ٹی کے ارکان کو۔ ان کی آنے والی نسلوں پر زمین تنگ کر دینے کا عندیہ دیا گیا۔ یہ فرعونیت تھی یا جمہوریت؟ اگر فوج ان کے ماتحت ہو گئی تو پھر اس کا بھی وہی حال ہو گا جو پولیس کا ہے۔ کور کمانڈر اور تھانیدار میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ جیالے، متوالے، پٹواری،  آرمی چیف لگیں گے۔

فوج کو سیاسی حکومت کے طابع وہی قیادت کر سکتی ہے جو اپنے ڈھانچے اور سسٹم میں فوج ہی کی طرح منظم اور مضبوط ہو۔ جمہوریت اس کے خون میں رچی بسی ہو۔ سیاسی جماعت کو باپ دادا کی جاگیر نہ سمجھے۔ دامن بدعنوانی سے پاک ہو۔ سویلین اداروں کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہو۔ مقصد لوگوں کی خدمت ہو نہ کہ موٹر وے اور میٹرو بسیں بنا کر عوام کا پیسہ لوٹنا۔ عوام کے دلوں پر ایسے راج کرتی ہو کہ اگر مارشل لا لگ جائے تو فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے نہ کہ فوجیوں کے بوٹ پالش کرنا شروع ہو جائے۔

ایسی بے باک اور دیانت دار قیادت کا تو فی الحال خواب میں ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ سیاست دانوں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اپنی شہرت اور کام کو بہتر بنائیں۔ فوج کو کنٹرول کرنے کا خواب فی الحال دیکھنا بند کر دیں۔ لوگوں کے روز مرہ کے مسائل میں آسانی پیدا کردیں۔ ان کے لیے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس اور جائداد کی رجسٹری وغیرہ جیسے معاملات آسان کر دیں۔ لوگوں کی گندی نالیاں صاف کر دیں۔ پولیس کو اپنی حفاظت کے بجائے عوام کی رکھوالی پر لگا دیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت میں کمیشن رکوا دیں۔ عوام کو ملاوٹ سے پاک اشیاء دلوا دیں۔ عدالتوں سے فوری انصاف دلوا دیں۔ یہ کام کر دیں پھر دیکھیے فوج خود بخود آپ کے ماتحت ہو جائے گی۔

چارلی چپلن کا جملہ یاد آ رہا ہے۔ طاقت کی ضرورت صرف انہیں ہوتی ہے جو فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کے لیے تو محبت ہی کافی ہے!
قلم کمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسرار احمد