Monday 4 February 2019

پاکستان میں 2 کروڑ 25 لاکھ بچے نظام تعلیم سے محروم ہیں۔۔رپورٹ

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 25 لاکھ بچے اسکولوں سے محروم ہیں۔ ڈٓان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایچ آر ڈبلیو کی ’ میں اپنی بیٹی کو کھانا کھلاؤں یا تعلیم دوں، پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹوں‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ اخذ کیا گیا ہے کہ بہت سی لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی ہی نہیں جس کی ایک وجہ لڑکیوں کے لیے سرکاری اسکولوں کی کمی ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ لڑکوں کے 21 فیصد کے مقابلے میں ملک میں 32 فیصد پرائمری اسکول کی عمر کی لڑکیاں اسکولوں سے محروم ہیں جبکہ نویں جماعت تک کی صرف 13 فیصد لڑکیاں اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2017 کے مقابلے میں پاکستان تعلیم پر تجویز کردہ 4 سے 6 فیصد کے مقابلے میں ملکی مجموعی پیداوار کا 2.8 فیصد سے کم خرچ کرتا ہے۔
اس حوالے سے ایچ آر ڈبلیو وومن رائٹس ڈائریکٹر لیسل گرنتھولٹز نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ ’ حکومت پاکستان کی جانب سے بچوں کو تعلیم دینے میں ناکامی سے لاکھوں لڑکیوں پر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے تعلیم کی خواہشمند بہت سی لڑکیوں کا انٹرویو کیا جو بغیر تعلیم کے ہی بڑی ہوئیں ورنہ ان کے پاس بھی اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کے بہت سے مواقع ہوتے‘ ایچ آر ڈبلیو نے اس رپورٹ کے لیے چاروں صوبوں سے انٹرویو کیے، جس میں زیادہ تر لڑکیاں ایسی تھی جو کبھی اسکول نہیں گئی تھیں یا اپنی تعلیم مکمل کرنے سے قاصر رہی تھیں۔

دوسری جانب پاکستان میں ایچ آر ڈبلیو کے وکیل ساروپ اعجاز کا کہنا تھا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت مفت اور لازمی تعلیم دینے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی، تاہم حکومت کو آئے ہوئے ابھی صرف 90 دن ہوئے ہیں اور یہ امید ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات کے ساتھ کام کرے گی‘۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی مہم کے دوران تعلیم ایک بڑا پوائنٹ تھا اور اہمیں امید ہے کہ وہ اس پر جلد از جلد کام کرے گی کیونکہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے‘ ایچ آر ڈبلیو کے ساتھ بچوں کے حقوق کی محقق الین مارٹینز کا کہنا تھا کہ ’ حکومت کی جانب سے مفت اور لازمی تعلیم کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں کمی ہے، جس کی وجہ سے وہ والدین جو اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں لیکن وہ ناکام ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ بھاری فیسوں کو بوجھ برداشت نہیں کرپاتے‘۔ رپورٹ میں لڑکیوں کو اسکول سے باہر رکھنے کی جو اہم وجوہات پر نظر ڈالی گئی ان میں حکومت کی جانب سے اسکولوں میں کم سرمایہ کاری، اسکولوں کی کمی، فیسوں اور دیگر اخراجات کا معاملہ، جسمانی سزا اور لازمی تعلیم کے نفاذ میں ناکامی شامل ہیں۔

بشکریہ ڈان نیوز اردو

Saturday 26 January 2019

طلاق اوراسلام

طلاق کی آڑ میں پوری شریعت اور بالخصوص، شریعت کے عائلی احکام کو نشانہ بناکر، یہ مذموم کوشش کی جارہی ہے کہ دوسروں کی نظر میں اسلام کو بدنام کرنے کے ساتھ خود مسلمانوں کے دلوں میں بھی شکوک وشبہات کے بیج بودئے جائیں، اس لیے ان مسائل پر شریعت کے روشن رُخ کو واضح کرنا علماء کی ذمہ داری ہے۔”نکاح“ ایک پائدار معاہدہ نکاح انسانیت کی بقا اور فطری نظامِ زندگی کے لیے ایک عظیم نعمت ہے، اس کے ذریعہ جہاں ایک طرف انسان کی فطری ضرورت کی تکمیل ہوتی ہے اور دنیا میں توالد وتناسل کا پاکیزہ نظام قائم ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف ایک عبادت اور تمام انبیاء علیہم السلام کی مشترکہ سنت ہے۔اسلام نے اس عبادت سے متعلق جو تعلیمات اور ہدایات دی ہیں، اُن کی رو سے ایک مرد پر عورت کے لیے حقِ مہر، نان ونفقہ اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا، نیز حسنِ معاشرت ضروری ہے؛ جب کہ عورت کی طرف سے عفت و پاک دامنی، نیک چلنی اور شوہر کی اطاعت وفرماں برداری شرط قرار دی گئی ہے؛ اس لیے کہ اسلام کی نظر میں نکاح کوئی وقتی اور محدود معاہدے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ایسا مضبوط شرعی عہد اور بندھن ہے، جس کا ہمیشہ باقی رکھنا مطلوب اور پسندیدہ ہے۔لہٰذا جو چیز بھی اس معاہدے کے دوام اور بقا میں رکاوٹ بن سکتی ہے، شریعت نے اُس پر متنبہ کرکے میاں بیوی کو خاص احکامات دیے ہیں؛ چنانچہ دونوں کو ایک دوسرے کے شرعی حقوق ادا کرنے کی سخت تاکید کی ہے، مردوں کو مخاطب بناکر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَعَاشِرُوہُنَّ بِالمَعرُوف، فَان کَرِہتُمُوہُنَّ، فَعَسیٰ أن تَکرَہُوا شیئًا، وَہُو خَیْرٌ لَّکُم (نساء، رکوع: ۱۳) ترجمہ: ”اُن عورتوں کے ساتھ اچھی گذر بسر کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں، تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور خدا اُس کے اندر کوئی بڑا فائدہ رکھ دے“۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: استَوصُوا بالنِّسَاء خَیْرًا، فانَّہُنَّ خُلِقنَ مِن ضلع، وان أعوجَ شَيء في الضّلع أعلاہ، فان ذَہَبتَ تُقِیمُہ، کسرتَہ، وان تَرکتَہ، لم یزل أعوج، فاستوصُوا بالنِّساء (متفق علیہ) ”عورتوں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو؛اس لیے کہ اُن کی پیدائش مرد کی پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی میں اوپر کا حصہ سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے اور اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو، تو ٹوٹ جائے گی اوراگر چھوڑ دوگے، تو ٹیڑھی ہی رہ جائے گی؛ اس لیے عورتوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ“۔
مذکورہ آیت وحدیث میں مردوں پر عورتوں کے حقوق، اُن کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کا تاکیدی حکم واضح ہے۔دوسری طرف عورتوں کو بھی مردوں کے حقوق ادا کرنے، خاص طور پر شوہر کی اطاعت و فرماں برداری اور عفت و پاک دامنی کے بارے میں سخت تاکید کی گئی ہے اور جو عورت ان صفات کے ساتھ متصف ہو، اُس کے فضائل بھی بیان کیے گئے ہیں، مثلاً: ایک حدیث میں ہے:”مومن بندہ خدا کے ڈر اور پرہیزگاری کے بعد جو سب سے بہتر چیز حاصل کرتا ہے، وہ نیک خصلت بیوی ہے کہ اگر وہ اسے حکم دیتا ہے، تو مانتی اور فرماں برداری کرتی ہے، اُس کو دیکھتا ہے، تو اسے خوشی اور مسرت ہوتی ہے، اگر اُس پر کوئی قسم کھاتا ہے، تو اسے پورا کرتی ہے اوراگر شوہر کہیں چلاجاتا ہے، تو اُس کے غیاب میں اپنی جان، عزت اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہے“۔ (مشکاة)طلاق سے متعلق شریعت کی اصل منشاءمذکورہ تفصیلات سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ نکاح ایک شرعی پائیدار معاہدہ ہے؛ لہٰذا سخت ضرورت کے بغیر اُس کو ختم کرنا یا ختم کرنے کا مطالبہ کرنا اسلام میں ناجائز وممنوع اور نکاح کے بنیادی مقصد اور اسلامی منشا کے خلاف ہے، اسی معاہدے کو ختم کرنے کا نام دوسرے لفظوں میں ”طلاق“ ہے۔ احادیث میں بلاضرورت اس کا اقدام کرنے پر ناپسندیدگی ظاہر کی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے:”اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے“حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اس حدیث کے ضمن میں فرمایا:
”مطلب یہ ہے کہ طلاق ضرورت کے تحت جائز رکھی گئی ہے، بغیر ضرورت طلاق دینا بہت بری بات ہے؛ اس لیے کہ نکاح تو آپس میں الفت ومحبت اور میاں بیوی کی راحت کے لیے ہوتا ہے اور طلاق سے ان نیک مقاصد کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری ہوتی ہے، دونوں کو پریشانی ہوتی ہے، آپس میں دشمنی ہوتی ہے، نیز اس کی وجہ سے بیوی کے رشتہ داروں سے بھی دشمنی پیدا ہوجاتی ہے، جہاں تک ہوسکے ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے، میاں بیوی کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہیے اور پیار ومحبت سے رہنا چاہیے“ (بہشتی زیور)ایک روایت میں ہے:”أیما امرأة سألت زوجہا طلاقًا في غیر ما بأس، فحرام علیہا رائحة الجنة“ (أبوداوٴد)
”جو عورت سخت مجبوری کے بغیر خود طلاق طلب کرے، اُس پر جنت کی خوشبو حرام ہے“اسی طرح ایک لمبی حدیث میں ارشاد ہے:”شیطان اپنے تخت کو پانی پر بچھاتا ہے، پھر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے، اُن لشکروالوں میں سے رتبہ کے اعتبار سے شیطان کے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوتا ہے، جو اُن میں سب سے زیادہ فتنہ باز ہو، یعنی: سب سے زیادہ پسندیدہ وہ چیلا ہوتا ہے، جو سب سے بڑا فتنہ برپا کرے، اُن میں سے ایک آکر کہتا ہے: میں نے یہ فتنہ برپاکیا اور یہ فتنہ برپا کیا، شیطان کہتا ہے: تونے کوئی بڑا کام نہیں کیا، ایک آکر کہتا ہے: میں نے فلاں شخص کو اُس وقت تک نہیں چھوڑا یہاں تک کہ میں نے اُس کے اور اُس کی بیوی کے درمیان جدائی کرادی، تو شیطان اُس کو اپنے قریب کرلیتا ہے اور اپنے گلے سے لگا کر کہتا ہے ”ہاں تونے بہت بڑا کام کیا“خلاصہ یہ ہے کہ طلاق اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ عمل ہے، بلاضرورت اس کا ارتکاب کرنا عرشِ الٰہی کو ہلانا اور شیطان کو خوش کرنا اور عورت کا بلا ضرورت طلاق کا مطالبہ جنت کی خوشبو سے محرومی کا سبب ہے۔میاں بیوی کے نا خوش گوار حالات میں اسلام کی تعلیمات و ہدایاتماقبل میں یہ بات وضاحت کے ساتھ آچکی ہے کہ نکاح ایک دائمی رشتہ کا نام ہے، اسلام کا اصل منشأ اس رشتہ کو باقی اور قائم رکھنا ہے؛ اسی لیے بلاضرورت اس رشتہ کو توڑنے کی سخت مذمت بیان کی جاچکی ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بسا اوقات میاں بیوی کے درمیان حالات خوش گوار نہیں رہتے، آپسی نا اتفاقیاں پیدا ہوجاتی ہیں، دونوں میں نبھاوٴ مشکل ہوتا ہے، ایسی صورت میں بھی اِسلام نے جذبات سے مغلوب ہوکر جلد بازی میں فوراً ہی اس پاکیزہ رشتہ کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ میاں بیوی دونوں کو مکلف بنایاکہ وہ حتیٰ الامکان اس بندھن کو ٹوٹنے سے بچائیں؛ چنانچہ عورت کی طرف سے نافرمانی کی صورت میں مردوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے:”والّٰتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْہِنَّ سَبِیلًا“ (النساء)
اس آیت کے ذریعے قرآن نے آپسی خلفشار اور انتشار کو ختم کرنے کے تین طریقے بیان کیے ہیں: (۱) اگر عورت کی نافرمانی کا خطرہ ہو، تو حکمت اور نرمی کے ساتھ پہلے اُس کو سمجھانے کی کوشش کی جائے۔(۲) اگر سمجھانا موثر نہ ہو، تو عارضی طور پر اُس کا بستر الگ کر دیا جائے۔(۳) اگر دوسری صورت بھی مفید ثابت نہ ہو اور عورت اپنی عادت پر قائم رہے، تو کچھ زجر و توبیخ اور ہلکے درجہ کی سرزنش سے کام لیا جائے۔اور مردوں کی طرف سے کسی قسم کی بد سلوکی کے وقت عورتوں کو یہ ہدایت ہے: ”وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا أَنْ یُصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا“۔ (النساء)
” کسی عورت کو اگر اپنے شوہر کی بد سلوکی سے ڈر یا اُس کی بے اعتنائی سے شکایت ہو، تو میاں بیوی کے لیے اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں ایک خاص طور پر صلح کر لیں“حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں یعنی عورت اگر ایسے شوہر کے پاس رہنا چاہے جو پورے حقوق ادا کرنا نہیں چاہتا اور اس لیے اس کو چھوڑنا چاہتا ہے تو عورت کو جائز ہے کہ اپنے کچھ حقوق چھوڑدے، مثلاً نان ونفقہ معاف کردے یا مقدار کم کردے؛ تاکہ وہ چھوڑے نہیں اور شوہر کو بھی جائز ہے کہ اس معافی کو قبول کرلے۔اگر اس سے بھی معاملہ حل نہ ہو اور خدانخواستہ آپس کے تعلقات بہت ہی خراب ہوجائیں، پھر بھی شریعت نے رشتہٴ نکاح کو توڑنے کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ یہ حکم دیا کہ میاں بیوی دونوں اپنی طرف سے ایک ایک ایسا حَکَم ( پنچ ) اور ثالث مقرر کر لیں،جو مخلص اور خیر خواہ ہوں، جن کا مقصد اختلاف کو ختم کرانا ہو؛اس لیے دونوں حَکَم پوری ایمان داری اور انصاف کے ساتھ اختلاف کا جائزہ لیں اور دونوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں۔ ارشاد باری ہے: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوا حَکَمًا مِنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِنْ أَہْلِہَا۔ (النساء)
مذکورہ تفصیل سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میاں بیوی کے درمیان نا اتفاقی اور نا خوش گوار حالات کے مسئلہ کا ابتدائی حل طلاق دینا نہیں ہے؛ بلکہ اختلاف کے اسباب کو تلاش کر کے اُس پر روک لگانا ہے۔طلاق: ناموافق حالات میں غلط اقدام سے بچنے کا واحد حلصلح و صفائی کی مذکورہ تمام صورتوں کو اختیار کرنے کے بعد بھی ممکن ہے کہ حالات قابو میں نہ آئیں اور دونوں میں موافقت اور نبھاوٴ کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے، زوجین میں باہم اعتماد ختم ہوجائے اور اللہ تعالی کے قائم کردہ حدود و احکام کو پورا کرنا مشکل ہوجائے، تو ایسی آخری حالت میں بھی معاہدئہ نکاح کے برقرار رکھنے پر مجبور کرنا دونوں پر ظلم ہے، ایسی صورت میں اُن کی زندگی تنگی و پریشانی کا بد ترین نمونہ بن جائے گی، جس کے نتیجے میں قابلِ نفرت گھناوٴنی اور ناپسندیدہ حرکتوں کے صادر ہونے کا امکان ہے، نیز اس میں خاندانی فوائد کے بجائے سیکڑوں مصیبتیں اور مضرتیں ہیں۔ اسلام کی نظر میں طلاق اگرچہ ایک ناگوار اور ناپسندیدہ عمل ہے؛ لیکن ایسے حالات میں بھی اگر طلاق کی بالکل ممانعت کر دی جائے، تو یہ نکاح دونوں کے لیے سخت فتنہ اور پریشانی کا سبب بن جائے گا،لہٰذا ایسی مجبوری میں شریعتِ اسلامی نے طلاق کی گنجائش دی ہے؛کیونکہ نکاح کے بعد پیدا ہونے والی مشکلات اور سخت ضیق و تنگی کی حالت سے نکلنے کا پر امن اور پر سکون راستہ صرف طلاق ہے،اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، شریعت کی طرف سے ایسے حالات میں طلاق رحمت پر مبنی ایک قانون ہے، جس میں مرد کو اجازت ہے کہ وہ بیوی کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کر لے، اسی طرح عورت بھی نکاح سے آزاد ہوکر چاہے تو دوسری جگہ اپنا نکاح کر لے۔طلاق دینے کا صحیح اور بہتر طریقہجب حالات یہاں تک پہنچ جائیں کہ طلاق دینے ہی میں شوہر اور بیوی دونوں کے لیے راحت ہو، اس کے بغیر دونوں کے لیے خوشگوار زندگی گذارنا ممکن نہ ہو، تو ایسی حالت میں بھی شریعت نے مرد کو آزاد نہیں چھوڑا کہ جس طرح چاہے اور جتنی چاہے طلاق دیدے؛ بلکہ اس کے حدود اور ضابطے طے کیے،جن سے اسلام کے قوانین کی جامعیت اور اُن کا فطرت کے عین مطابق ہونا خوب واضح ہوتا ہے۔چنانچہ طلاق دینے کا صحیح اوربہتر طریقہ یہ ہے کہ(۱) بیوی کو صاف لفظوں میں صرف ایک طلاق دی جائے، شوہر بیوی سے کہے ” میں نے تجھے طلاق دی “۔(۲) طلاق اس وقت دی جائے، جب عورت پاک ہو یعنی: اُس کو ماہواری نہ آرہی ہو اور اُس پاکی کے زمانے میں صحبت نہ کی گئی ہو،؛ کیونکہ ماہواری کے دوران طلاق دینا گناہ ہے اور اگر صحبت کرنے کے بعد طلاق دی جائے گی، تو ممکن ہے کہ حمل ٹھہرجانے کی وجہ سے اُس کی عدت لمبی ہوجائے، جو عورت کے لیے مشقت اور پریشانی کا سبب ہے۔ طلاق دینے کا سب سے بہترطریقہ یہی ہے، اگر لوگ طلاق دینے کے اسی طریقہ کو اختیار کریں، تو طلاق کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل پیدا نہ ہوں؛ اس لیے کہ عام طور پر وقتی تکلیف اور عارضی اختلاف کی وجہ سے غصے میں آدمی طلاق دے ڈالتا ہے؛ لیکن بعد میں دونوں کو اس کا شدید احساس ہوتا ہے اور طلاق کے باوجود ایک دوسرے کی محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی؛ بلکہ کبھی پہلے سے زیادہ اس میں اضافہ ہوجاتا ہے؛ پھر دونوں پریشان ہوتے ہیں اور دوبارہ ازدواجی زندگی قائم کرنا چاہتے ہیں،دونوں کے خاندان والوں کی بھی یہی خواہش رہتی ہے اور اگر سوچ سمجھ کر طلاق دی گئی ہو، تو بھی مذکورہ طریقہ کے خلاف اختیار کرنے میں مختلف قسم کی پریشانیاں پیش آتی ہیں۔ان دشواریوں کا حل یہی ہے کہ بدرجہٴ مجبوری صرف ایک طلاق دی جائے؛ اس لیے کہ ایک طلاق دینے کی صورت میں شوہر کے لیے عدت کے اندر اندر ہی رجوع (یعنی: دوبارہ نکاح کے بغیر بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لینے ) کا اختیار رہتا ہے۔اور اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہیں کیا، تو عدت گذرنے کے بعد بیوی اگرچہ اُس کے نکاح سے نکل جاتی ہے؛ لیکن دونوں کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ نئے سرے سے دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش رہتی ہے، اس صورت میں حلالہٴ شرعی شرط نہیں ہے۔اسلام میں تین طلاق کیوں اور کیسے؟ماقبل میں طلاق دینے کا سب سے بہتر اور افضل طریقہ بیان کیا جاچکا ہے کہ مجبوری اور سخت ضرورت کے وقت بیوی کی پاکی کی حالت میں جس میں اُس کے ساتھ صحبت نہ کی ہو، صریح لفظوں میں ایک طلاق دینی چاہیے۔ لیکن بسا اوقات آدمی تین طلاق دے کر رشتہٴ نکاح اس طرح ختم کرنا چاہتا ہے کہ اس کے لیے رجوع اور تجدید نکاح کا موقع آیندہ باقی نہ رہے۔ ایسی صورت میں بھی شریعتِ اسلامی کی تعلیم یہ ہے یکبارگی تین طلاق نہ دی جائے؛بلکہ پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر غور و فکر کیا جائے۔اگر حالات صحیح نہ ہوسکیں تو ایک ماہواری گذرنے کے بعد دوسری پاکی کی حالت میں دوسری طلاق دیدی جائے۔ پھر غور کیا جائے: اگر اب بھی حالات قابو میں نہ آسکیں اور تیسری طلاق دے کر رشتہٴ نکاح کو بالکلیہ ختم کرنے ہی میں دنیا اور آخرت کی بھلائی نظر آئے، تو دوسری ماہواری گذرنے کے بعد تیسری پاکی کی حالت میں تیسری طلاق دیدی جائے۔ اس کے بعد رشتہٴ نکاح بالکلیہ ختم ہو جائے گا، اب مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے حرام ہوجائیں گے اور دونوں کے لیے آپس میں دوبارہ نکاح کرنا اسی صورت میں ممکن ہوسکے گا؛ جب کہ مطلقہ بیوی عدت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لے اور دوسرا مر د صحبت بھی کر لے، پھر یا تو بقضائے الٰہی انتقال کر جائے یا طلاق دیدے، ایسی صورت میں دوبارہ عدت گذارنے کے بعد ہی نکاح کی گنجائش نکل سکے گی، اس کے بغیر ازدواجی تعلق قائم کرنے کی کوئی شکل نہ ہوگی۔شریعت اسلامی نے تین طلاق کے بعد ازدواجی تعلق بالکلیہ ختم کردیا اور رجعت کا حق نہیں دیا کہ اگر تین طلاق کے بعد بھی رجعت کا حق دیدیا جائے، تو طلاق کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا اور اسلام کا نظام ِطلاق میاں بیوی کی عافیت کے بجائے وبالِ جان اور مصیبت بن جائے گا۔ چنانچہ اسلام سے پہلے اور اسلام کے شروع زمانے میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دسیوں طلاق دیدیتا، تو بھی عدت کے اندر اندر بہرحال اسے رجعت کا حق حاصل رہتا، جس کی وجہ سے عورت کی زندگی اجیرن بن جاتی تھی۔ اسی طرح دورِ نبوی میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے ناراض ہوگیا اور اُس سے یہ کہدیا کہ نہ تو میں تجھے رکھوں گا اور نہ ہی تجھے الگ ہونے دوں گا، بیوی نے پوچھا کہ وہ کس طرح؟ تو اُس نے کہا کہ تجھے طلاق دیتا رہوں گااور عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرتا رہوں گا، تو اُس عورت نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا، جس پر یہ آیت کریمہ ”الطلاق مرتان․․․ الآیة“ نازل ہوئی، جس کے ذریعہ عورت کے استحصال اور اُس پر ہونے والے ظلم کا دروازہ بند کردیا گیا اور شوہر کو تاکید کر دی گئی کہ یا تواچھی طرح بیوی کو رکھے یا پھر اچھے انداز سے اسے چھوڑ دے؛ البتہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجعت کا حق دیا گیا؛ تاکہ آدمی اگر چاہے، تو اپنے نقصان کی تلافی کر سکے اور تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رشتہٴ زوجیت قائم کرنا ممنوع قرار دیا گیا؛ تاکہ لوگ طلاق کو مذاق نہ بنالیں۔ 
اسلام میں تین طلاق دینے کا یہ اصل اور بہتر طریقہ ہے، اس طریقہ میں اگر غور کیا جائے، تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اسلام کا نظامِ طلاق کتنی گہرائی اور مصالح پر مبنی ہے، رشتہٴ نکاح کو بالکلیہ ختم کرنے کے لیے اسلام نے کم وبیش تین مہینے کی لمبی مدت غور و فکر کرنے کی تعلیم دی ہے؛ تاکہ مکمل انشراح اور بصیرت کے ساتھ فیصلہ لیا جاسکے، اتنے بڑے اور آخری فیصلے کے لیے ظاہر ہے کہ ایسا وقفہ ہونا چاہیے جس میں آدمی کی زندگی معمول پر آجائے، وقتی حالات اور مسائل کا تاثر ختم ہوجائے اور مخلصین اور بڑوں سے مشورہ اور مذاکرہ کے بعد کوئی قدم اٹھایا جاسکے۔ایک ساتھ تین طلاق دینا ایک بڑا گناہاگر کوئی شخص طلاق سے متعلق ماقبل میں بیان کی ہوئی اسلام کی مستحکم تعلیمات کو نظر انداز کر کے یکبارگی تین طلاق کا اقدام کرے ( جیساکہ آج کل بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے ) تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ شریعت اسلامی کی نگا ہ میں یہ بہت بڑا جرم اور گناہ ہے، ایسا شخص سخت گنہگار ہوتا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے متعلق اطلاع ملی کہ اُس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدی ہیں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جائے گا؟ (نسائی)اسی طرح ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے والد نے میری والدہ کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں، اب کوئی راستہ ہے یا نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارا والد خدا سے ڈرتا، تو اللہ اُس کے لیے راستہ نکالتا، اب تو بیوی تین طلاقوں سے جدا ہوگئی۔ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کرکے گناہ کا کام کیا اور شیطان کی پیروی کی۔ ( طحاوی )مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا شیطانی عمل اور گناہ کا کام ہے، اس لیے ایک مسلمان کو تین طلاق ہر گز نہیں دینی چاہیے؛ لیکن اگر کسی نے شریعت کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مجلس میں تین طلاق دیدیں، تو تین طلاق بلا شبہہ واقع ہوجائے گی،یہ بھی شریعت کا ایک متفق علیہ حکم ہے، ”جمہور علماء خلف و سلف، تابعین، تبع تابعین، امام ابوحنیفہ اور اُن کے اصحاب، امام مالک اور اُن کے اصحاب، امام شافعی اور اُن کے اصحاب، امام احمد اور اُن کے اصحاب، جمہور فقہائے کرام، محدثین عظام وغیرہ کا یہی مسلک ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے، تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی؛ البتہ اس کی وجہ سے وہ گنہگار بھی ہوگا“۔
طلاق کا حق صرف شوہر کو کیوں؟طلاق کے بارے میں شریعت کا مزاج معلوم ہوچکا ہے کہ طلاق کسی وقتی منافرت اور عارضی اختلاف کی وجہ سے نہیں دینی چاہیے؛ بلکہ طلاق سے پہلے شریعت کی بتلائی ہوئی تدابیر اور ہدایات پر عمل کرنے کے بعد بھی اگرمسئلہ حل نہ ہو اور میاں بیوی دونوں کو اس کا یقین ہو کہ ہمارے لیے عافیت اور سلامتی جدائیگی ہی میں ہے، تو ایسی صورت میں سوجھ بوجھ اور باقاعدہ ہوش وحواس کے ساتھ طلاق دینی چاہیے، ظاہر ہے کہ طلاق سے متعلق اسلام کے ِاس معتدل اور عدل و انصاف پر مبنی فطری نظام میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ طلاق کا حق صرف شوہر کو کیوں دیا گیا، عورت کو کیوں نہیں دیا گیا؛ اس لیے کہ اس سوال کا منشا یہ ہے کہ نعوذ باللہ اسلام نے طلاق کا حق صرف مردوں کو دے کر عورت کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ کیا ہے؛ حالانکہ ماقبل کی تفصیل سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسلام میں طلاق کا نظام عین عدل اور انصاف کے مطابق ہے، اُس نظام کو اگر اسی طرح برتا جائے، جیسا شریعت کا منشاء ہے، تو یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوگا۔تاہم اُن لوگوں کے لیے جو احکامِ اسلام کے مصالح اور حکمتوں کو ناقص عقل انسانی کے زاویہ سے دیکھنا چاہتے ہیں، نیز بعض اُن لوگوں کے لیے بھی، جن کو شریعت کے ہر حکم پر مکمل بصیرت اور انشراح ہے؛ لیکن وہ مزید اطمینان حاصل کرناچاہتے ہیں؛ ہم اس کی ایک اہم حکمت پیش کرتے ہیں۔ طلاق کا حق مرد کو دیا جانا مرد کے مزاج و طبیعت کے موافق ہے،اس کے برخلاف عورت کو یہ حق ملنا خود اُس کی فطری شرم و حیا اور مزاج و طبیعت کے خلاف ہے؛ اس لیے کہ اس حق کا صحیح استعمال کرنے کے لیے بہت سی اُن صفات کا ہونا ضروری ہے، جن صفات میں اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں ایک گونہ فوقیت عطا فرمائی ہے، مثلاً: طاقت و قوت، جر أ ت وہمت، خود اعتمادی، دوسروں سے متا ثر نہ ہونا، زبان پرقابو رکھنا، دور اندیشی، جلد بازی اور جذباتیت سے بچنا؛ یہ اور ان کے علاوہ بہت سی صفات ہیں، جن میں اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں عام طور پر فوقیت عطا فرمائی ہے،دوسری طرف اللہ تعالی نے عورتوں کو بھی مردوں پر بہت سی صفات اور خوبیوں میں فوقیت عطا فرمائی ہے،مثلاً: الفت و محبت،رحم دلی اور نرمی، تحمل و برداشت۔مرد اور عورت کے اِس طبعی فرق کو ساری دنیا کے سمجھدار لوگ تسلیم کرتے ہیں؛ اس لیے کہ نظامِ عالم کے متوازن طریقہ پر چلنے کے لیے مرد اور عورت کے درمیان اس فطری فرق کا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ حقِ طلاق بھی اسی لیے مردوں کو دیا گیا کہ اُن کے اندر اللہ کی طرف سے ودیعت کی جانے والی مذکورہ بعض خصوصی صفات کی بنا پر عورتوں کی بہ نسبت اس حق کو صحیح استعمال کرنے کی صلاحیت اور اہلیت زیادہ ہے؛ اسی لیے اگر کوئی مرد اس حق کا غلط استعمال کرتا ہے، تو شریعتِ اسلامی کی نگاہ میں وہ سخت مجرم اور نافرمان سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ اُس نے صلاحیت اور اہلیت کے باوجود جان بوجھ کر اپنے حق سے غلط فائدہ اٹھایا۔یہ حکمت ہم نے مثال کے طور پر پیش کر دی ہے، علمائے کرام نے اس کی اور بھی حکمتیں بیان کی ہیں، جن کا ذکر ہم یہاں ضروری نہیں سمجھتے؛ بلکہ یہاں پر ہم خاص طور پر اپنے مسلمان بھائیوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت اسلامی اللہ کا وہ پسندیدہ مذہب ہے، جو ہر اعتبار سے کامل و مکمل کر دیا گیا ہے اور اس مذہب کا ہر حکم اپنے اندر ہزار ہا ہزار حکمتوں اور مصلحتوں کو لیے ہوئے ہے، ایک مسلمان کی بندگی اور عبدیت کی اصل شان یہ ہے کہ وہ ہر حکم الٰہی کو فکری اور عملی طور پرمحض اس بنیاد پر تسلیم کرے کہ یہ ساری دنیا کے مالک و خالق، بندوں کے مشفق ومحسن، بندوں کی مصلحتوں اور فائدوں کو اُن سے زیادہ جاننے والے، غیب کے بھیدوں سے واقف اور کائنات کے نظام کو چلانے والے ایک معبود حقیقی کا حکم ہے۔حکم ِالٰہی کی گہرائیوں اور اُس کی حقیقی حکمتوں کا انسان کی ناقص عقل کے ذریعہ پورے طور پر ادراک نہیں کیا جاسکتا۔ بندگی کی یہ شان ایک مسلمان کے ایمان کا اعلی مقام ہے۔طلاق کی بے اعتدالیاں اور اُن کا حلہم نے گزشتہ صفحات میں طلاق سے متعلق جو تفصیلات بیان کی ہیں، اگر اُن کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے اور پھر طلاق کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات اور مسائل پر نظر ڈالی جائے، تو معلوم ہوگا کہ اس وقت جوکچھ بے اعتدالیاں سامنے آرہی ہیں، اُن کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں طلاق جیسے اہم اور نازک معاملہ کے بنیادی مسائل سے واقفیت نہیں ہے اور طلاق کے سلسلے میں خاص طور پر ایک ایسی غلط فہمی عام ہوچکی ہے، جو سارے فساد اور خرابیوں کی جڑ ہے، وہ یہ ہے کہ عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ِاسلام میں طلاق صرف تین بار کہنے ہی سے واقع ہوتی ہے، اس کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی؛اسی لیے عام طور پر ایک عامی شخص جب بھی طلاق دیتا ہے، تو وہ تین سے کم پر نہیں رکتا، طلاق کی اگر کوئی تحریر تیار کی جاتی ہے چاہے تو وہ بھی تین ہی طلاق کی ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ غلط فہمی ایسی ہے، جس کا حل اس کے سوا کچھ نہیں کہ معاشرے میں نکاح کے رشتہ کی اہمیت، بلاوجہ اس رشتہ کو توڑنے کی شرعی اور عقلی قباحت و مذمت،نکاح کے بعد میاں بیوی اوراُن کے خاندان کے درمیان پیش آنے والے مسائل کا شرعی حل، طلاق سے متعلق اسلام کی تعلیمات اور ساتھ میں طلاق دینے کے صحیح اور بہتر طریقے کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔طلاق کی کثرت کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہمعاشرے کا دینی بگاڑ، اللہ کے حکموں کو توڑنا، نافرمانیوں کی کثرت، فحاشی کے پھیلاوٴ اور اس کی وجہ سے طبعی سکون و اطمینان کا حاصل نہ ہونا، نشہ آور اشیاء کی لت، خاندانی عصبیت کی بنا پر ہونے والے جھگڑے اور ان کے علاوہ بہت سی خرابیاں معاشرے میں عام ہوگئی ہیں، جن کے دنیوی نقصانات میں سے ایک اہم نقصان طلاق کے بے جا استعمال کی کثرت کی صورت میں بھی ظاہر ہورہا ہے۔اس کا حل یہ ہے مسلمانوں کو دین پر چلنے، اللہ کے احکام کو پورا کرنے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانے، گناہ اور معصیت کے کاموں سے بچنے کی طرف متوجہ کیا جائے؛ اس لیے کہ دینی احکام کی صحیح واقفیت حاصل کرنا اور دین پر چلنا ہی سارے مسائل کا حل ہے اور احکام سے ناواقفیت اور عملی طور پر دین سے دوری ہی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔کس کی طلاق واقع ہوگی،کس کی نہیں؟مسئلہ (۱): نابالغ اور پاگل کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔مسئلہ (۲): سوئے ہوئے آدمی کے منہ سے نکلا کہ تجھ کو طلاق ہے یا یوں کہہ دیا: ”میری بیوی کو طلاق “تو اس سے طلاق نہیں ہوتی۔مسئلہ(۳): کسی نے زبر دستی کسی سے زبانی طلاق دلوادی، جیسے: مار ا، ڈرایا، دھمکایا کہ طلاق دے دو، ورنہ تجھے مار ڈالوں گا، اس مجبوری سے اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے، تو بھی طلاق ہوجائے گی۔ اگر صرف تحر یر کیا او رزبان سے نہ کہا، تو طلاق نہ ہوگی۔مسئلہ (۴): کسی نے شراب وغیرہ کے نشہ میں اپنی بیوی کوطلاق دے دی، تو بھی طلاق ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر غصے میں طلاق دی، تو بھی طلاق ہوجائے گی۔مسئلہ (۵): شوہر کے علاوہ کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار نہیں؛ البتہ اگر شوہر نے کسی کواختیار دیا کہ میری بیوی کو طلاق دے دے، تو وہ بھی دے سکتا ہے۔( اگر بیوی کواختیار دیااور اس نے اپنے اوپر طلاق واقع کرلی، تو بھی ہو جائے گی۔)مسئلہ (۶): طلا ق دینے کا اختیار صرف مردکوہے، جب مرد نے طلاق دے دی توطلاق ہو گئی، عورت کو اس میں کوئی اختیار نہیں، وہ چاہے یا نہ چاہے، ہر صورت میں طلاق ہوگئی۔ عورت اپنے شوہر کو طلاق نہیں دے سکتی۔مسئلہ (۷): مردکو صرف تین طلاقیں دینے کا اختیار ہے، اس سے زیادہ کا اختیار نہیں، اگرچار پانچ طلاقیں دے دیں،تب بھی تین ہی ہوئیں۔مسئلہ (۸): جب مرد نے زبان سے کہہ دیا: میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اتنے زور سے کہا کہ خود ان الفاظ کو سن لیا، تو بس اتنا کہتے ہی طلاق ہو جائے گی، چاہے کسی کے سامنے کہے، یا تنہائی میں اورچاہے بیوی سنے یا نہ سنے،ہر حال میں طلاق ہو جائے گی۔طلاق کی قسمیںپہلی تقسیم باعتبارِ حکمحکم کے اعتبارسے طلاق کی تین قسمیں ہیں:(۱)            طلاقِ رجعیوہ طلاق جس میں نکاح نہیں ٹوٹتا، صاف لفظوں میں ایک یا دو طلا ق دینے کے بعد اگر شوہر پشیمان ہو ا، تو نئے سرے سے نکاح کرنا ضروری نہیں، نکاح کیے بغیر بھی میاں بیوی کی طرح رہنا،تو درست ہے؛ البتہ اگر شوہر طلاق دے کر اسی پر قائم رہا او راس سے رجوع نہیں کیا، توجب طلاق کی عدت گزر جائے تب نکاح ٹوٹ جائے گا اورعورت جدا ہو جائے گی؛جب تک عدت نہ گزر ے تب تک رکھنے نہ رکھنے دونوں باتوں کا اختیار ہے۔(۲)           طلاقِ بائنایسی طلاق ہے جس میں نکاح با لکل ٹوٹ جاتا ہے اور نیا نکاح کیے بغیر اس مردکے پاس رہنا جائزنہیں ہوتا، اگر آئندہ میاں بیوی آپس میں رہنا چاہیں اور دونوں اس پر راضی بھی ہوں تو نئے سرے سے نکاح کرنا پڑے گا۔(۳)           طلاقِ مغلظہوہ طلاق جس میں نکاح ایسا ٹوٹتا ہے کہ دوبارہ نکاح کرنابھی چاہیں تو حلالہ کے بغیر نہیں کرسکتے۔حلالہ یہ ہے کہ طلاق یا فتہ عورت کا عدت گزا رکر کسی دوسرے مر دسے نکاح ہو جائے اور صحبت بھی ہو جائے، پھر وہ شوہراپنی مرضی سے اس کو طلاق دے یا مر جائے اور عدت گزر جائے توپہلے شوہر کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔دوسری تقسیم باعتبارِ الفاظالفاظ کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں:(۱) صریح(۲) کنایہصریحصاف صاف لفظوں میں کہہ دیا: ” میں نے تجھ کو طلاق دے دی “ یا یو ں کہا:”میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی،“ غرض یہ کہ صاف الفاظ کہہ دیے جس میں طلاق دینے کے سوا کوئی اور معنی نہیں نکل سکتے، تو ایسی طلاق کو ” طلاقِ صریح “ کہتے ہیں۔کنایہصاف صاف الفاظ نہیں کہے؛ بلکہ ایسے الفاظ کہے جن سے طلاق بھی مراد لی جاسکتی ہے اور طلاق کے سوا دوسرے معنی بھی نکل سکتے ہیں، جیسے کوئی کہے:” میں نے تجھ کو دور کر دیا،“ اس کاایک مطلب یہ ہے کہ میں نے تجھ کو طلاق دے دی۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ طلاق تو نہیں دی؛ لیکن اب تجھ کو اپنے پاس نہیں رکھوں گا،ہمیشہ اپنے میکے میں رہ، تیری خبر نہیں رکھوں گا، یا یوں کہے:” مجھے تجھ سے کوئی واسطہ نہیں “، ” مجھے تجھ سے کچھ مطلب نہیں “، ” تو مجھ سے جدا ہو گئی “، ”میں نے تجھ کوالگ کردیا “، ”جدا کر دیا “ میرے گھر سے چلی جا “، ” ہٹ دور ہو “،” اپنے ماں باپ کے ہا ں جا کے بیٹھ“، ” اپنے گھر جا “ اسی طرح کے دوسرے الفاظ جن میں دونوں مطلب نکل سکتے ہیں اِن کو”کنایہ “ کہتے ہیں۔مسئلہ (۹): اگر صاف صاف لفظوں میں طلاق دی توزبان سے نکلتے ہی طلاق پڑ جائے گی، چاہے طلاق دینے کی نیت ہویا نہ ہو، بلکہ ہنسی دل لگی میں کہا ہو، بہر صورت طلاق ہو گئی اور صاف لفظوں میں طلاق دینے سے طلاقِ رجعی پڑتی ہے اور ایک مرتبہ کہنے سے ایک ہی طلاق پڑے گی؛ البتہ اگر تین دفعہ کہے یا یوں کہے: ” تجھ کو تین طلاق دیں “ تو تین طلاقیں پڑیں۔مسئلہ (۱۰): کسی نے ایک طلاق دی تو جب تک عورت عدت میں رہے تب تک دوسری طلاق اور تیسری طلاق دینے کااختیار رہتا ہے، اگر دے گا تو پڑ جائے گی۔مسئلہ (۱۱): کسی نے یوں کہا: ”تجھ کو طلاق دے دوں گا “ تو اس سے طلاق نہیں ہوئی۔ اسی طرح اگرکسی بات پر یوں کہا: ”اگر فلاں کام کرے گی توطلاق ہے تو وہ کام کرنے سے طلاق ہو جائے گی۔مسئلہ (۱۲): کسی نے طلاق دے کر اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دیا توطلاق نہیں پڑی۔ اسی طرح اگر یوں کہا: ” اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تجھ کو طلاق “، اس سے بھی کسی قسم کی طلاق نہیں پڑتی، البتہ اگر طلاق دے کر ذرا ٹھہر گیا، پھر ان شاء اللہ کہا تو طلاق ہو گئی۔مسئلہ (۱۳): کسی نے اپنی بیوی کو طلاقن کہہ کر پکارا تب بھی طلاق پڑ گئی، اگر چہ مذاق میں کہا ہو۔مسئلہ (۱۴): کسی نے کہا:” جب تو فلاں شہر جائے تو تجھ کو طلاق ہے “ تو جب تک وہاں نہیں جائے گی طلاق نہیں پڑے گی۔مسئلہ (۱۵): اگر صاف صاف طلاق نہیں دی؛ بلکہ گول مول الفاظ کہے اور اشارہ کنایہ سے طلاق دی تو یہ مبہم الفاظ کہتے وقت اگر طلاق دینے کی نیت تھی تو طلاقِ بائن ہو گی، نکاح کیے بغیر عورت کو نہیں رکھ سکتا اور اگر طلاق کی نیت نہیں تھی؛ بلکہ دوسرے معنی کے اعتبار سے کہا تھا تو طلاق نہیں ہوئی، البتہ اگر قرینے سے معلوم ہو جائے کہ طلاق دینے کی ہی نیت تھی، اب وہ جھوٹ بول رہا ہے تو عورت اس کے پا س نہ رہے اور یہی سمجھے کہ طلاق ہو گئی، جیسے بیوی نے غصہ میں آکر کہا: ”میرا تیرا نباہ نہیں ہوگا،مجھ کوطلاق دے دے “،اس نے کہا ”اچھا میں نے چھوڑدیاتویہاں عورت یہی سمجھے کہ شوہر نے طلاق دے دی “۔مسئلہ (۱۶): کسی نے تین دفعہ کہا: ”تجھ کو طلاق، طلاق، طلاق “ تو تینوں پڑ گئیں یا گول مول الفاظ میں تین مرتبہ کہا تب بھی تین طلاقیں ہو گئیں؛ لیکن اگر نیت ایک ہی طلاق کی ہے، صرف اور صرف تاکید کے لیے تین دفعہ کہا تھا کہ بات خوب پکی ہوجائے تو ایک ہی طلاق ہوئی؛ لیکن عورت کو اس کے دل کا حال چونکہ معلوم نہیں؛ اس لیے وہ یہی سمجھے کہ تین طلاقیں ہو گئیں۔رخصتی سے پہلے طلاقمسئلہ (۱۷): عورت شوہر کے پاس نہ جانے پائی تھی کہ اس نے طلاق دے دی یا رخصتی تو ہو گئی؛ لیکن میاں بیوی کی آپس میں بغیر کسی شرعی یا طبعی رکاوٹ کے تنہائی نہیں ہونے پائی تھی کہ شوہرنے طلاق دے دی تو طلاقِ بائن ہو گئی، چاہے صاف لفظوں سے دی ہو یا ٍگول مول لفظوں میں۔ایسی عورت کو جب طلاق دی جائے تو دوسری ہی قسم یعنی بائن طلاق ہوتی ہے۔اور ایسی عورت کے لیے طلاق کی عدت بھی کوئی نہیں، طلاق کے بعد فوراًدوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے اورایسی عورت کو ایک طلاق دینے کے بعد دوسری تیسری طلاق دینے کا اختیار نہیں، اگر دے گا تو نہیں پڑے گی؛ البتہ اگر پہلی ہی دفعہ یوں کہہ دے: ”تجھ کودو طلاق یا تین طلاق “ توجتنی دی ہیں سب پڑ گئیں اور اگر یوں کہا: ”تجھ کو طلاق ہے،طلاق ہے، طلاق ہے“،تب بھی ایسی عورت کو ایک ہی طلاق پڑے گی۔رخصتی کے بعد طلاقمسئلہ (۱۸): رخصتی اور میاں بیوی کی تنہائی کے ساتھ اگر صحبت بھی ہوگئی، اس کے بعد اگر ایک یا دو طلاقیں صاف لفظوں میں دے دیں تو طلاق رجعی ہوگی اور گول مول لفظوں میں دی تو طلاقِ بائن ہوگی۔ رجعی میں رجوع کا حق ہوگااور بائن میں رجوع کا حق نہیں ہوگا؛ البتہ اگر تین طلاقیں نہیں دیں تو اسی شوہر سے نیا نکاح (جب کہ میاں بیوی دونوں راضی ہوں) عدت کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور عدت کے بعد بھی، اور دوسرے شخص سے عدت کے بعد ہی نکاح ہو سکتا ہے اور عدت ہر صورت میں لازم ہوگی اور جب تک عدت ختم نہ ہو دوسری اور تیسری طلاق بھی دی جاسکتی ہے؛ اور اگر تنہائی تو ایسی ہو گئی کہ صحبت کرنے سے کوئی مانع شرعی یا طبعی موجود نہیں تھا؛ مگر صحبت نہیں ہوئی تو اس صورت میں اگر صاف لفظوں میں طلاق دی جائے یا گول مول لفظوں میں، دونوں صورتوں میں طلاق بائن ہی پڑے گی اور عدت بھی واجب ہوگی اور رجوع کا حق نہیں ہوگا اور عدت پوری کیے بغیر کسی دوسرے سے نکاح بھی نہیں کر سکتی؛ البتہ اس شخص سے جس نے طلاق دی ہے عدت کے اندر اور عدت ختم ہونے کے بعد ہر حال میں دوبارہ نکاح کر سکتی ہے، شرط یہ ہے کہ تین طلاقیں نہ دی ہوں۔تین طلاقوں کا حکممسئلہ (۱۹): اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو وہ عورت اس مرد کے لیے حرام ہو گئی، اب اگر دوبارہ نکاح کرے تب بھی عورت کے لیے اس مرد کے پاس رہنا حرام ہے اور یہ نکاح نہیں ہوا، چاہے صاف لفظوں میں تین طلاقیں دی ہوں یا گول مول لفظوں میں، سب کا ایک ہی حکم ہے۔مسئلہ (۲۰): کسی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دی پھر رجوع کیا پھر دوچار سال میں کسی بات پر غصہ آیا تو ایک طلاق رجعی اور دے دی، پھر جب غصہ اُترا تو رجوع کیا، یہ دو طلاقیں ہو گئیں، اب اس کے بعد اگر کبھی ایک طلاق اور دے دے گا تو تین پوری ہو جائیں گی اور اس کا حکم یہ ہوگا کہ عدت کے بعد کسی اور سے نکاح اور اس کی موت یا طلاق کی صورت میں عدت گزارے بغیر اس مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر کسی نے طلاق بائن دی جس میں رجوع کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، پھر پشیمان ہوا اور میاں بیوی نے راضی ہوکر دوبارہ نکاح کر لیا، کچھ زمانہ کے بعد غصہ آیا اور ایک طلاق بائن دے دی اور غصہ اتر نے کے بعد پھر نکاح کر لیا، یہ دوطلاقیں ہوئیں۔ اب تیسری دفعہ اگر طلاق دے گا تو پھر وہی حکم ہے کہ دوسرا خاوند کیے بغیر اس سے نکاح نہیں کر سکتی۔مسئلہ (۲۱): تین طلاقیں ایک دم سے دیدیں، جیسے: یوں کہہ دیا: تجھ کو تین طلاق یا یوں کہا: تجھ کو طلاق ہے،طلاق ہے، طلاق ہے یا الگ کر کے تین طلاقیں دیں، جیسے: ایک آج دی، ایک کل، ایک پرسوں یا ایک اِس مہینے میں، ایک دوسرے مہینے میں، ایک تیسرے میں، یعنی: عدت کے اندر اندر تینوں طلاقیں دیدیں، سب کا ایک حکم ہے اور صاف لفظوں میں طلاق دے کر پھر روکے رکھنے کا اختیاراس وقت ہوتا ہے، جب تین طلاقیں نہ دے، فقط ایک یا دو دے، جب تین طلاقیں دیدیں، تو اب کچھ نہیں ہوسکتا۔مسئلہ (۲۲): اگر دوسرے مرد سے اس شرط پر نکاح ہوا کہ صحبت کرکے عورت کو چھوڑدے گا تو اس اقرار لینے کا اعتبار نہیں، اس کو اختیار ہے، چاہے چھوڑے یا نہ چھوڑے اور جب جی چاہے چھوڑے اور اس طرح طے کرکے نکاح کرنا بہت بڑا گناہ اور حرام ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگوں پر لعنت ہوتی ہے؛ لیکن نکاح ہو جاتا ہے، لہٰذا اگر اس نکاح کے بعد دوسرے خاوند نے صحبت کرکے چھوڑ دیا یا مر گیا تو عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی۔کسی شرط پر طلاق دینامسئلہ (۲۳): نکاح کرنے سے پہلے کسی عورت کو کہا: ”اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھے طلاق ہے“ تو جب اس عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی طلاق بائن پڑ جائے گی اور اگر یوں کہا: ”اگر تجھ سے نکاح کروں تو تجھے دو طلاق“ تو دو بائن طلاقیں ہو گئیں اور اگر تین طلاقوں کا کہا تھا تو تینوں ہو گئیں اور عورت مغلظہ ہو گئی۔مسئلہ (۲۴): نکاح ہوتے ہی جب اس پر طلاق پڑگئی تو اس نے اسی عورت سے پھر نکاح کر لیا تو اب یہ دوسرا نکاح کرنے سے طلاق نہیں پڑے گی، ہاں اگر یوں کہا ہو: جے دفعہ تجھ سے نکاح کروں، ہر دفعہ تجھ کو طلاق ہے، تو جب نکاح کرے گا، ہر دفعہ طلاق پڑجایا کرے گی، اب اس عورت کو رکھنے کی کوئی صورت نہیں، اگر دوسرا خاوند کرکے اس مرد سے نکاح کرے گی تو بھی طلاق پڑ جائے گی۔مسئلہ (۲۵): کسی نے کہا: ”جس عورت سے نکاح کروں اس کو طلاق“ تو جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گی؛ البتہ طلاق پڑنے کے بعد اگر پھر اسی عورت سے نکاح کر لیا تو طلاق نہیں پڑے گی۔مسئلہ (۲۶): جس عورت سے ابھی نکاح نہیں کیا، اس کو اس طرح کہا: ”اگر تو فلاں کام کرے تو تجھے طلاق“ تو اس کا اعتبار نہیں، اگر اس سے نکاح کر لیا اور نکاح کے بعد اس نے وہی کام کیا تب بھی طلاق نہیں پڑی؛ کیونکہ غیر منکوحہ کو طلاق دینے کی یہی صورت ہے کہ یوں کہے: ”اگر تجھ سے نکاح کروں تو طلاق“ اس کے علاوہ کسی اور طریقہ سے اجنبی عورت پر طلاق نہیں پڑ سکتی۔مسئلہ (۲۷): اگر اپنی بیوی سے کہا: ”اگر تو فلاں کام کرے تو تجھے طلاق“، ”اگر میرے پاس سے جائے تو تجھے طلاق“، ”اگر تو اس گھر میں جائے تو تجھے طلاق“ یا اور کسی کام پر طلاق معلق کر دی تو جب وہ کام کرے گی تب طلاق پڑ جائے گی، اگر نہیں کرے گی تو نہیں پڑے گی اور طلاق رجعی پڑے گی؛ البتہ اگر کوئی کنائی لفظ کہے کہ اگر تو فلاں کام کرے تو مجھے تجھ سے کوئی واسطہ نہیں تو جب وہ کام کرے گی تب طلاق بائن پڑے گی؛ بشر طے کہ مرد نے یہ الفاظ کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو۔مسئلہ (۲۸): اگر یوں کہا: ”اگر فلاں کام کرے تو تجھے دو طلاق یا تین طلاق“ تو جتنی طلاقوں کا کہا اتنی پڑیں گی۔مسئلہ (۲۹): اپنی بیوی سے کہا: ”اگر تو اس گھر میں جائے۔ تو تجھے طلاق“ اور وہ چلی گئی اور طلاق پڑ گئی پھر عدت کے اندر اندر اس نے رجوع کر لیا یا دو بارہ نکاح کر لیا تو اب دوبارہ گھر میں جانے سے طلاق نہیں پڑے گی؛ البتہ اگر یوں کہا ہو: ”جتنی مرتبہ اس گھر میں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق“ یا یوں کہا ہو: ”جب کبھی تو گھر میں جائے ہر مرتبہ طلاق“ تو اس صورت میں عدت کے اندر یا پھر نکاح کر لینے کے بعد دوسری مرتبہ گھر میں جانے سے دوسری طلاق ہو گئی، پھر عدت کے اندر یا تیسرے نکاح کے بعد اگر تیسری دفعہ گھر میں جائے گی تو تیسری طلاق ہو جائے گی، اب تین طلاقوں کے بعد اس سے نکاح درست نہیں؛ البتہ اگر دوسرے مرد سے نکاح ہو جانے کے بعد جدائی ہو جائے پھر اس مرد سے نکاح کرے تو اب اس گھر میں جانے سے طلاق نہیں ہوگی۔مسئلہ (۳۰): کسی نے اپنی بیوی سے کہا: ”اگر تو فلاں کام کرے تو تجھے طلاق۔ ”ابھی اس نے وہ کام نہیں کیا تھا کہ اس نے ایک فوری طلاق دے دی اور کچھ مدت بعدپھر اس عورت سے نکاح کیا اور اس نکاح کے بعد اس نے وہی کام کیا توطلاق واقع ہوگئی اوراگر طلاق پانے کے بعدعدت کے اندر اس نے وہی کام کیاتب بھی دوسری طلاق ہوگئی؛ البتہ اگر طلاق پانے اور عدت گزر جانے کے بعد اس نکاح سے پہلے اس نے وہی کام کرلیا اور پھر دونوں کانکاح ہوگیا تو اس نکاح کے بعد اب وہ کام کرنے سے طلاق نہیں ہوگی۔مسئلہ (۳۱): کسی نے اپنی بیوی سے کہا: ”اگرتجھے حیض آئے تو تجھے طلاق۔ “ اس کے بعد اس نے خون دیکھا توابھی سے طلاق واقع نہ ہوگی؛ بلکہ جب پورے تین دن تین رات خون آتا رہے تواس کے بعدیہ حکم لگایا جائے گا کہ جس وقت سے خون آیا تھا اسی وقت طلاق ہوگئی تھی اوراگر یوں کہا: ”جب تجھے ایک حیض آئے یا پورا حیض تو تجھے طلاق“ توحیض کے ختم ہونے پر طلاق واقع ہوگی۔مسئلہ (۳۲): اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا: ”اگر تو روزہ رکھے تو تجھے طلاق، “ تو روزہ رکھتے ہی فوراً طلاق ہو جائے گی؛ البتہ اگر یوں کہا: ”اگر تو ایک روزہ رکھے یا پورا دن روزہ رکھے تو تجھے طلاق“ تو روزہ کے مکمل ہونے پر طلاق واقع ہوگی، اگر روزہ توڑدے تو طلاق نہ ہوگی۔مسئلہ (۳۳): بیوی نے گھر سے باہر جانے کاارادہ کیا، شوہر نے کہا: ابھی مت جاوٴ“ بیوی نہ مانی، اس پر شوہر نے کہا: ”اگر تو باہر جائے تو تجھے طلاق“ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر فوراً باہر جائے گی تو طلاق ہوجائے گی اوراگر فوراً نہ گئی، کچھ دیر بعد گئی تو طلاق نہیں ہوگی؛ کیوں کہ اس کا مطلب یہی تھا کہ ابھی مت جاوٴ، بعد میں جانا، یہ مطلب نہیں تھا کہ عمر بھر کبھی نہیں جانا۔مسئلہ (۳۴): کسی نے یوں کہا: جس دن تجھ سے نکاح کروں، تجھ کوطلاق“ پھر رات کے وقت نکاح کیا تب بھی طلاق پڑ گئی؛ کیوں کہ بول چال میں اس کامطلب یہ ہے کہ جس وقت تجھ سے نکاح کروں تجھے طلاق ہے۔بیمار کی طلاقمسئلہ (۳۵): بیماری کی حالت میں کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر عورت کی عدت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اسی بیماری میں مر گیا تو شوہر کے مال میں سے بیوی کاجتناحصہ ہوتاہے اتنا اس عورت کوبھی ملے گا، چاہے ایک طلاق دی ہو یا دو تین اور چاہے طلاقِ رجعی دی ہو یا بائن، سب کاایک ہی حکم ہے۔ اگر عدت ختم ہونے کے بعد مرا توعورت میراث میں حصہ دار نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر مرداسی بیماری میں نہیں مرا؛ بلکہ تندرست ہوگیا، پھر بیمار ہوگیاتب بھی عورت حصہ نہیں پائے گی، چاہے عدت ختم ہوچکی ہو یانہ ختم ہوئی ہو۔مسئلہ (۳۶): عورت نے طلاق مانگی تھی؛ اس لیے مرد نے طلاق دے دی، تب بھی عورت میراث کی مستحق نہیں، چاہے شوہر عدت کے اندر انتقال کرے یا عدت کے بعد، دونوں کاایک ہی حکم ہے؛ البتہ اگر طلاقِ رجعی ہو اورعدت کے ا ندر انتقال کر جائے تو میراث پائے گی۔مسئلہ (۳۷): بیماری کی حالت میں عورت سے کہا: ”اگر تو گھر سے باہر جائے تو تجھے بائن طلاق ہے،“ پھر عورت باہر گئی اور طلاقِ بائن پڑ گئی تو اس صورت میں حصہ نہیں پائے گی؛ کیوں کہ اس نے خود ایسا کام کیا جس سے طلاق پڑی اور اگر یوں کہا: ”اگر تو کھانا کھائے تو تجھ کوطلاق بائن ہے“ یا یوں کہا: اگر تو نماز پڑھے تو تجھے طلاقِ بائن ہے،“ ایسی صورت میں اگر وہ عدت کے اندر مر جائے گا توعورت کو حصہ ملے گا؛ کیوں کہ عورت کے اختیار سے طلاق نہیں پڑی، کھانا کھانا اور نماز پڑھنا تو ضروری ہے، اس کو چھوڑ نہیں سکتی تھی اوراگر طلاقِ رجعی دی ہو تو پہلی صورت میں بھی (یعنی جب غیر ضروری کام کیا) عدت کے اندر اندر مرنے سے حصہ پائے گی۔ غرض یہ کہ طلاقِ رجعی میں بہر حال حصہ ملتاہے، بشرطے کہ عدت کے اندر فوت ہواہو۔مسئلہ (۳۸): کسی تندرست آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: جب تو گھر سے باہر نکلے تو تجھے طلاقِ بائن“ پھر جس وقت وہ گھر سے باہر نکلی، اس وقت وہ بیمار تھا اوراسی بیماری میں عدت کے اندر مر گیا تب بھی عورت حصہ نہیں پائے گی، (کیوں کہ عورت کے ایسے فعل سے طلاق پڑی جو ضروری نہ تھا؛ اس لیے کہ یہاں وہ صورت مرادہے جس میں عورت گھر سے نکلنے پر مجبور نہیں تھی گویا عورت نے خود طلاق کو اختیار کیا)مسئلہ (۳۹): تندرستی کے زمانہ میں کہا: ” جب تیرا باپ آئے تو تجھے بائن طلاق“ جب وہ آیا تواس وقت وہ مرد بیمار تھا اوراسی بیماری میں مر گیا توحصہ نہیں پائے گی اور اگر بیماری کی حالت میں یہ کہا ہو اوراسی بیماری میں عدت کے اندر مر گیا ہو تو حصہ پائے گی۔ ( کیوں کہ پہلی صورت میں شوہر کی طرف سے بیوی کو میراث سے محروم کرنے کاقصدنہیں پایا گیا؛ اس لیے کہ حالت ِ صحت میں شوہر کے مال میں بیوی کاحق متعلق نہیں ہوتا، دوسری صورت میں بیوی کاحق متعلق ہوگیا،شوہر نے اس کو محروم کرنے کی کوشش کی لہٰذا عورت محروم نہیں ہوگی۔)طلاق رجعی کے بعد رجوعمسئلہ (۴۰): جب کسی نے ایک یا دو رجعی طلاقیں دیں توعدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مردکواختیار ہے کہ اس سے رجوع کرے، اس صورت میں دو بارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں، عورت چاہے راضی ہو یا راضی نہ ہو، اس کو اختیار نہیں اور اگر تین طلاقیں دے دیں تو اس کاحکم پہلے بیان ہوچکاہے، اس میں رجوع کا اختیار نہیں۔مسئلہ (۴۱): رجوع کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ یا تو صاف صاف زبان سے کہہ دے کہ میں تجھ سے رجوع کرتاہوں یا عورت سے نہیں کہا کسی اور سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا، بس اتناکہہ دینے سے وہ دوبارہ اس کی بیوی ہوگئی۔مسئلہ (۴۲): رجوع کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ زبان سے تو کچھ نہیں کہا؛ لیکن عورت سے صحبت کرلی یااس کا بوسہ لیا، پیار کیا یا شہوت کے ساتھ اس کو ہاتھ لگایا توان سب صورتوں میں پھر وہ اس کی بیوی بن گئی، دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں۔مسئلہ (۴۳): جب طلاق سے رجوع کرنے کاارادہ ہو تو بہتر ہے کہ دوچار لوگوں کو گواہ بنالے؛ کیوں کہ شاید کبھی کوئی اختلاف سامنے آئے تو کوئی انکار نہ کرسکے۔ اگر کسی کو گواہ نہ بنایا، تب بھی رجوع صحیح ہے۔مسئلہ (۴۴): اگر عورت کی عدت گذر گئی تو اس کے بعد رجوع نہیں کرسکتا، اب اگر عورت راضی ہو تو دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، نکاح کیے بغیر عورت کونہیں رکھ سکتا۔ اگر شوہر رکھے بھی توعورت کے لیے اس کے پاس رہنا درست نہیں۔مسئلہ (۴۵): جس عورت کوحیض آتا ہواس کے لیے طلاق کی عدت تین حیض ہیں۔ جب تین حیض پورے ہوجائیں تو عدت گزر جائے گی، پھر اگر تیسرا حیض پورے دس دن آیا ہے تب تو جس وقت خون بند ہوا اور دس دن پورے ہوئے اس وقت عدت ختم ہوگئی اور رجوع کرنے کاجو اختیار شوہرکوتھا وہ ختم ہوگیا، چاہے عورت نہا چکی ہو یا ابھی تک نہ نہائی ہو اور اگر تیسرا حیض دس دن سے کم آیااور خون بند ہوگیا؛ لیکن ابھی عورت نے غسل نہیں کیا اور نہ کوئی نماز اس کے اوپر واجب ہوئی تواب بھی شوہرکا اختیار باقی ہے؛ البتہ اگر خون بند ہونے پر اس نے غسل کرلیا یا غسل تو نہیں کیا؛ لیکن ایک نماز کا وقت گزر گیا، یعنی ایک نماز کی قضا اس کے ذمہ واجب ہوگئی، ان دونوں صورتوں میں شوہر کااختیار ختم ہوگیا۔ اب نکاح کیے بغیر عور ت کو نہیں رکھ سکتا۔مسئلہ (۴۶): جس عورت سے ابھی صحبت نہ کی ہو، اگر چہ تنہائی ہوچکی ہو، اس کو ایک طلاق دینے سے رجوع کا اختیار نہیں رہتا؛ کیوں کہ اس کوجوطلاق دی جائے گی وہ طلاقِ بائن ہوگی۔مسئلہ (۴۷): اگر دونوں ایک جگہ تنہائی میں تو رہے لیکن شوہر کہتاہے کہ میں نے صحبت نہیں کی، پھر اس اقرار کے بعد طلاق دے دی تو رجوع کا اختیار نہیں رہا۔مسئلہ (۴۸): جس عورت کو ایک یا دو رجعی طلاق ملی ہوں، جس میں شوہر کو طلاق سے رجوع کا اختیار ہوتاہے، ایسی عورت کے لیے مناسب ہے کہ خوب بناوٴ سنگار کرکے رہا کرے، شاید شوہر کا دل اس کی طرف راغب ہو اور رجوع کرلے۔ اگر شوہر کا ارادہ رجوع کرنے کا نہ ہو تواس کے لیے مناسب ہے کہ جب گھر میں آئے تو کھانس کھنکار کر آئے؛ تاکہ وہ اپنابدن اگر کچھ کھلا ہوا ہو توچھپالے اور کسی بے موقع جگہ نگاہ نہ پڑے اور جب عدت پوری ہوجائے تو عورت کہیں اور جاکر رہے۔مسئلہ (۴۹): جس عورت کوایک یا دو بائن طلاقیں دے دیں تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی اور مردسے نکاح کرنا چاہے تو عدت کے بعد نکاح کرے، عدت کے اندر نکاح درست نہیں اور خود اسی شوہر سے نکاح کرنا ہو تو عدت کے اندر بھی ہوسکتاہے۔تحریری طلاقطلاق لکھ کر دینے سے بھی ہو جاتی ہے، اسی طرح طلاق نامہ پر دستخط کردینے اور انگوٹھا لگانے سے بھی واقع ہو جاتی ہے ۔غصہ میں طلاقغصہ کے تین درجات ہیں:(۱) ابتدائی درجہ یہ ہے کہ اس میں عقل کے اندر کوئی تغیر اور فتور نہیں آتا، جو کچھ کہتا ہے اپنے ارادہ سے کہتا ہے اور اس کو سمجھتا ہے، اس صورت میں اس کی باتیں عام لوگوں کی باتوں کی طرح شرعاً معتبر ہیں اور اس کی طلاق واقع اور نافذ ہوگی۔(۲) اعلیٰ اور انتہائی درجہ یہ ہے کہ غصہ اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے اپنے اقوال وافعال کی کوئی خبر نہ رہے۔ یہ صورت بے ہوشی اور جنون کی طرح ہے۔ ایسے شخص کے اقوال وافعال معتبر نہیں اور اس کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔(۳) درمیانی درجہ یہ ہے کہ مجنون کی طرح تو نہیں ہوا؛ مگر پہلے درجہ سے بڑھ گیا اور حالت یہ ہو گئی کہ بغیر ارادہ منھ سے الٹی سیدھی باتیں نکلتی ہیں؛ لیکن جو کچھ بولتا ہے اس کا اسے علم و شعور ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے اقوال وافعال پہلی صورت کی طرح نافذ ومعتبر ہیں اور اس کی طلاق بھی واقع اور نافذ ہے۔جبراً طلاق لکھواناجبراً طلاق لکھوانے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، اسی طرح جبراً طلاق نامہ پر دستخط کروانے یا انگوٹھا لگوانے سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔خلعمسئلہ (۱): اگر میاں بیوی میں کسی طرح نباہ نہ ہوسکے اور شوہر طلاق بھی نہ دیتا ہو توعورت کے لیے جائز ہے کہ کچھ مال دے کر یا اپنا مہر دے کر شوہر سے کہے: ” اتنا روپیہ لے کر میری جان چھوڑ دو“ یا یوں کہے: ”جو میرا مہر تیرے ذمہ ہے اس کے عوض میری جان چھوڑ دو، “ اس کے جواب میں شوہر کہے ”میں نے چھوڑ دیا،“ تو اس سے بیوی پر ایک طلاقِ بائن پڑ گئی۔ شوہر کواس میں رجوع کا اختیار نہیں؛ البتہ اگر شوہر نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے جواب نہیں دیا؛ بلکہ اس جگہ سے اٹھ گیا یا شوہر تو نہیں اٹھا، بیوی اٹھ گئی، پھر شوہر نے کہا اچھا میں نے چھوڑ دیا تو اس سے کچھ نہیں ہوا، جواب اور سوال دونوں ایک ہی جگہ ہونے چاہئیں، اس طرح نکاح ختم کرکے جان چھڑانے کو ”خلع “کہتے ہیں۔مسئلہ (۲): مرد نے کہا: ”میں نے تجھ سے خلع کیا“ عورت نے کہا: ”میں نے قبول کیا“ تو خلع ہوگیا؛ البتہ اگر عورت نے اسی جگہ جواب نہ دیا اور وہاں سے اٹھ گئی یا عورت نے قبول ہی نہ کیا تو خلع نہیں ہوا؛ لیکن بیوی اگر اپنی جگہ بیٹھی رہی اور شوہر یہ کہہ کر اٹھ گیا اوربیوی نے اس کے اٹھنے کے بعد قبول کیا تو خلع ہوگیا۔مسئلہ (۳): مرد نے صرف اتنا کہا کہ میں نے تجھ سے خلع کیا اور عورت نے قبول کرلیا، روپئے پیسے کا ذکر نہ مرد نے کیا نہ عورت نے، تب بھی جو حق مرد کاعورت پر اور جو حق عورت کامردپر ہے، سب معاف ہوگیا، اگر مرد کے ذمے مہر باقی ہو تو وہ بھی معاف ہوگیا اور عورت مہر حاصل کرچکی ہے تو اس کا واپس کرنا واجب نہیں؛ البتہ عدت کے ختم ہونے تک روٹی، کپڑا اور رہنے کا گھر دینا پڑے گا؛ لیکن اگر عورت نے کہہ دیاکہ عدت کا روٹی، کپڑا اور رہنے کا گھر بھی تجھ سے نہیں لوں گی تو وہ بھی معاف ہوگیا۔مسئلہ (۴): اگر اس کے ساتھ کچھ مال کا ذکر بھی کردیا، جیسے یوں کہا: ”سو روپئے کے عوض میں نے تجھ سے خلع کیا “، پھر عورت نے قبو ل کرلیا تو خلع ہوگیا، اب عورت کے ذمے سو روپئے دینے واجب ہوگئے۔ اپنا مہر لے چکی تب بھی سو روپئے دینے پڑیں گے اوراگر مہر ابھی تک نہ لیا ہو تب بھی دینے پڑیں گے، اور مہر بھی نہیں ملے گا؛ کیوں کہ وہ خلع کی وجہ سے معاف ہوگیا۔مسئلہ (۵): خلع میں اگر مردکا قصورہو تو مردکے لیے روپیہ اور مال لینا یا جو مہر مرد کے ذمے ہے اس کے عوض میں خلع کرنا بڑا گناہ اور حرام ہے، اگر کچھ مال لے لیا تو اس کواپنے خرچ میں لانا بھی حرام ہے اور اگر عورت ہی کا قصور ہو تو جتنا مہر دیا ہے اس سے زیادہ مال نہیں لینا چاہیے، مہر ہی کے عوض میں خلع کرلے۔ اگر مہر سے زیادہ لے لیا تو بھی نامناسب تو ہوا؛ لیکن گناہ نہیں۔مسئلہ (۶): عورت خلع کرنے پر راضی نہیں تھی مرد نے اس پر زبردستی کی اور خلع کرنے پر مجبور کیا یعنی مار پیٹ کر، دھمکا کر خلع کیا تو طلاق ہوگئی؛ لیکن مال عورت پر واجب نہیں ہوا اور اگر مرد کے ذمے مہر باقی ہو تو وہ بھی معاف نہیں ہوا۔مسئلہ (۷): یہ سب باتیں اس وقت ہیں جب خلع کا لفظ کہا ہو یا یوں کہا: ” سو روپئے پر یا ہزار روپئے کے عوض میری جان چھوڑ دے “ یا یوں کہا:” میرے مہرکے عوض مجھے چھوڑ دے“ اوراگر اس طرح نہیں کہا؛ بلکہ طلاق کا لفظ کہا، جیسے یوں کہے: سو روپئے کے عوض مجھے طلاق دے دے تو اس کو خلع نہیں کہیں گے۔ اگر مردنے اس مال کے عوض طلاق دے دی تو ایک طلاقِ بائن پڑ گئی اور اس میں کوئی حق معاف نہیں ہوا، نہ وہ حق معاف ہوئے جو مرد کے اوپر ہیں اور نہ وہ جو عورت کے اوپر ہیں۔ مرد نے اگر مہر نہ دیا ہو تووہ بھی معاف نہیں ہوا، عورت اس کی دعویدار ہوسکتی ہے اور مرد یہ سوروپئے عورت سے لے لے گا۔مسئلہ (۸): مردنے کہا میں نے سو روپئے کے بدلے طلاق دی تو عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے، اگر قبول نہ کرے تو نہیں پڑ ے گی اور اگر قبول کر لے تو ایک طلاقِ بائن پڑے گی؛ لیکن جس جگہ مرد کی یہ پیش کش سنی تھی اگروہ جگہ بدل جانے کے بعد قبول کیا تو طلاق نہیں پڑی۔مسئلہ (۹): عورت نے کہا مجھے طلاق دے دو، مرد نے کہا تو اپنا مہر وغیرہ، اپنے سب حق معاف کردے تو طلاق دے دوں گا۔ اس پر عورت نے کہا: ” اچھا میں نے معاف کیا“، اس کے بعد مرد نے طلاق نہیں دی تو کچھ معاف نہیں ہوا اور اگر اسی مجلس میں طلاق دے دی تو معاف ہوگیا۔مسئلہ (۱۰): عورت نے کہا: ”تین سوروپئے کے بدلے مجھے تین طلاقیں دے دو“، اس پر مردنے ایک ہی طلاق دی توصرف ایک سو روپئے مردکوملیں گے اوراگر دوطلاقیں دیں تو دوسو روپئے اور اگرتین دے دیں تو پورے تین سو روپئے عورت سے دلائے جائیں گے اور سب صورتوں میں طلاقِ بائن ہوجائے گی؛ کیوں کہ طلاق مال کے بدلے میں ہے۔مسئلہ (۱۱): نابالغ لڑکا اور پاگل آدمی اپنی بیوی سے خلع نہیں کر سکتا۔عدت کا بیانمسئلہ (۱): جب کسی عورت کا شوہر طلاق دیدے یا خلع وغیرہ سے نکاح ختم ہو جائے یا شوہر مرجائے تو ان سب صورتوں میں کچھ مدت تک (تین حیض) عورت کو ایک ہی گھر میں رہنا پڑتا ہے؛ جب تک یہ مدت ختم نہ ہو جائے اس وقت تک کہیں اور نہیں جا سکتی اور نہ ہی کسی اور مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ جب وہ مدت پوری ہو جائے تو جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ اس طرح یہ مدت گزارنے کو ”عدت،، کہتے ہیں۔مسئلہ (۲): اگر شوہر نے طلاق دے دی تو تین حیض آنے تک شوہر ہی کے گھر جس میں طلاق دی ہے بیٹھی رہے۔ اس گھر سے باہر نہ نکلے، نہ دن کو نہ رات کو، نہ کسی دوسرے سے نکاح کرے۔ جب پورے تین حیض ختم ہو گئے تو عدت پوری ہو گئی اور گھر سے نکلنے اور نکاح کرنے کی پابندی ختم ہو گئی۔ مرد نے چاہے ایک طلاق دی ہو یا دو تین طلاقیں دی ہوں اور طلاق بائن دی ہو یا رجعی، سب کا ایک ہی حکم ہے۔مسئلہ (۳): اگر چھوٹی لڑکی کو طلاق ہو گئی جس کو ابھی حیض نہیں آتا یا اتنی بڑھیا ہے کہ اب حیض آنا بند ہو گیا ہے، ان دونوں کی عدت تین مہینے ہیں۔مسئلہ (۴): کسی لڑکی کو طلاق ہو گئی اور اس نے مہینوں کے حساب سے عدت شروع کی، پھر عدت کے اندر ہی ایک یادو مہینہ کے بعد حیض آگیا تو اب پورے تین حیض آنے تک عدت گزارے؛ جب تک تین حیض پورے نہ ہوں عدت ختم نہیں ہوگی۔مسئلہ (۵): اگر کسی کو حمل ہے اور اسی زمانہ میں طلاق ہو گئی تو بچہ پیدا ہونے تک بیٹھی رہے، یہی اس کی عدت ہے۔ جب بچہ پیدا ہوگا تو عدت ختم ہوگی۔ طلاق کے بعد تھوڑی ہی دیر میں اگر بچہ پیدا ہوگیا تب بھی عدت ختم ہوگئی۔مسئلہ (۶): اگر کسی نے حیض کے زمانہ میں طلاق دے دی تو جس حیض میں طلاق دی ہے وہ شمار نہیں ہوگا، اس کے علاوہ تین حیض پورے کرے۔مسئلہ (۷): طلاق کی عدت اسی عورت پر ہے جس کو صحبت کے بعد طلاق ہوئی ہو یا صحبت تو ابھی نہیں ہوئی؛ مگر میاں بیوی میں تنہائی ہو چکی ہے تب طلاق ہوئی، چاہے ایسی تنہائی ہوئی ہو جس سے پورا مہر دلایاجاتا ہے یا ایسی تنہائی ہو جس سے پورا مہر واجب نہیں ہوتا، بہر حال عدت گزار نا واجب ہے اور اگر ابھی بالکل کسی قسم کی تنہائی نہیں ہونے پائی تھی کہ طلاق ہو گئی تو ایسی عورت پر عدت نہیں۔مسئلہ (۸): کسی عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر غلطی سے صحبت کرلی، پھر معلوم ہوا کہ وہ اس کی بیوی نہیں تھی تو اس عورت پر بھی عدت لازم ہو گی؛ جب تک عدت ختم نہ ہو اس وقت تک اپنے شوہر کو بھی صحبت نہ کرنے دے، ورنہ دونوں پر گناہ ہوگا۔ اس کی عدت بھی وہی ہے جو ابھی بیان ہوئی، اگر اسی دن حمل ہو گیا تو بچہ ہونے تک انتظار کرے اور عدت گزارے، یہ بچہ ناجائز نہیں، اس کا نسب ٹھیک ہے، جس نے غلطی سے صحبت کی ہے اسی کا بچہ ہے۔مسئلہ (۹): کسی نے نکاح فاسد کیا، مثلا: کسی عورت سے نکاح کیا، پھر معلوم ہوا کہ اس کا شوہر ابھی زندہ ہے اور اس نے طلاق نہیں دی یا معلوم ہوا کہ اس مرد و عورت نے بچپن میں ایک عورت کا دودھ پیا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر مرد نے اس سے صحبت کر لی، پھر صورت حال معلوم ہونے کے بعدجدائی ہو گئی تو بھی عدت گزارنا ہوگی۔ جس وقت مرد نے توبہ کرکے جدائی اختیار کی اسی وقت سے عدت شروع ہو گئی اور اگر ابھی صحبت نہیں ہوئی تھی تو عدت واجب نہیں؛ بلکہ ایسی عورت سے اگر تنہائی بھی ہو چکی ہو تب بھی عدت واجب نہیں، عدت اسی وقت واجب ہوتی ہے جب صحبت ہوچکی ہو۔مسئلہ (۱۰): عدت کے اندر کھانا پینا، کپڑا اسی مرد کے ذمہ واجب ہے جس نے طلاق دی۔مسئلہ (۱۱): کسی نے اپنی بیوی کو طلاق بائن دی یا تین طلاقیں دے دیں، پھر عدت کے اندر غلطی سے اس سے صحبت کر لی تو اس صحبت کی وجہ سے ایک اور عدت واجب ہو گئی، اب تین حیض اور پورے کرے، جب تین حیض گزر جائیں گے تو دونوں عدتیں ختم ہو جائیں گی۔مسئلہ (۱۲): مرد نے طلاق بائن دی ہے اور جس گھر میں عورت عدت گزار رہی ہے مرد بھی اسی میں رہتا ہے تو خوب اچھی طرح پردے کا اہتمام کرے۔موت کی عدتمسئلہ (۱۳): کسی کا شوہر مر گیا تو وہ چار مہینے اور دس دن تک عدت گزارے، شوہر کے مرتے وقت جس گھر میں رہتی تھی اسی گھر میں رہنا چاہیے، باہر نکلنا درست نہیں؛ البتہ اگر کوئی غریب عورت ہے جس کے پاس گزارے کے جتنا بھی خرچ نہیں اس نے کھانا پکانے وغیرہ کی نوکری کرلی تو اس کے لیے گھر سے باہر نکلنا درست ہے؛ لیکن رات کو اپنے گھر ہی میں رہا کرے، چاہے صحبت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو اور چاہے کسی قسم کی تنہائی ہوئی ہو یا نہ اور چاہے حیض آتا ہو یا نہ، سب کا ایک ہی حکم ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گذارنا چاہیے؛ البتہ اگر وہ عورت حاملہ تھی، اس حالت میں شوہر کی وفات ہوئی تو بچہ پیدا ہونے تک عدت گزارے، اب مہینوں کا اعتبار نہیں، اگر شوہر کے مرنے سے کچھ ہی دیر بعد بچہ پیدا ہو گیا تو بھی عدت ختم ہو گئی۔مسئلہ (۱۴): پورے گھر میں جہاں جی چاہے رہے۔ یہ جو رواج ہے کہ ایک خاص جگہ مقرر کر کے رہتی ہیں کہ غمزدہ کی چار پائی اور خود غمزدہ وہاں سے ہل نہیں پاتی، یہ بالکل مہمل اور فضول بات ہے، اس کو چھوڑ دینا چاہیے۔مسئلہ (۱۵): اگر کسی کا شوہر چاند کی پہلی تاریخ کو فوت ہوا اور عورت کو حمل نہیں تو چاند کے حساب سے چار مہینے دس دن پورے کرے اور اگر پہلی تاریخ کو فوت نہیں ہوا تو ہر مہینہ تیس تیس دن کا شمار کرکے چار مہینے دس دن (ایک سو تیس دن) پورے کرنے چاہئیں اورطلاق کی عدت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر حیض نہیں آتا، نہ حمل ہے اور چاند کی پہلی تاریخ کو طلاق ہو گئی تو چاند کے حساب سے تین مہینے پورے کرلے، چاہے انتیس کا چاند ہو یا تیس کا اور اگر پہلی تاریخ کوطلاق نہیں ہوئی تو ہر مہینہ تیس تیس دن کا لگا کر تین مہینے پورے کرے۔مسئلہ (۱۶): کسی نے نکاح فاسد کیا تھا، مثلا بغیر گواہوں کے نکاح کر لیا، یا بیوی نکاح میں تھی اور اس کی بہن سے نکاح کر لیا، پھر وہ شوہر مر گیا تو ایسی عورت جس کا نکاح صحیح نہیں ہوا، مرد کے مرنے پر چار مہینے دس دن عدت نہ گزارے؛ بلکہ تین حیض تک عدت گزارے، حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے گزارے اور حمل سے ہو تو بچہ پیدا ہونے تک عدت گزارے۔مسئلہ (۱۷): کسی نے اپنی بیماری میں طلاقِ بائن دے دی اور طلاق کی عدت ابھی پوری نہیں ہونے پائی تھی کہ وہ مرگیا تو دیکھا جائے کہ طلاق کی عدت گزارنے میں زیادہ دن لگیں گے یا موت کی عدت پوری کرنے میں؟ جس عد ت میں زیادہ دن لگیں گے وہ عدت پوری کرے اور اگر بیماری میں طلاق رجعی دی ہے اور ابھی طلاق کی عدت نہیں گزری تھی کہ شوہر مر گیا تو اس عورت پر وفات کی عدت لازم ہے۔مسئلہ (۱۸): کسی کا شوہر مر گیا مگر اس کو خبر نہیں ملی، چار مہینے دس دن گزر جانے کے بعد خبر آئی تو اس کی عدت پوری ہوچکی، جب سے خبر ملی ہے تب سے عدت گزارنا ضروری نہیں، اسی طرح اگر شوہر نے طلاق دے دی مگر عورت کو پتہ نہیں چلا، کچھ دنوں کے بعد خبر ملی اور جتنی عدت اس کے ذمہ تھی وہ خبر ملنے سے پہلے ہی گزر چکی تھی تو اس کی بھی عدت پوری ہو گئی، خبر ملنے کے بعد عدت گزارنا واجب نہیں۔مسئلہ (۱۹): کسی کام کے لیے گھر سے باہر گئی تھی کہ اچانک اس کا شوہر مر گیا تو فوراً وہاں سے چلی آئے اور جس گھر میں رہتی تھی وہیں رہے۔مسئلہ (۲۰): وفات کی عدت میں عورت کو روٹی، کپڑا نہیں دلایا جائے گا؛ البتہ شوہر کے مال میں سے اس کو ترکہ ملے گا، بہتر یہ ہے کہ تقسیم ترکہ کے بعد اس کا حصہ اس کے حوالے کردیا جائے؛ تاکہ عدت کے دوران اخراجات میں سہولت ہو۔مسئلہ (۲۱): بعض جگہ دستور ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد سال بھر تک عدت کے طور پر بیٹھی رہتی ہے، یہ بالکل حرام ہے۔عدت کے دوران سوگمسئلہ (۲۲): جس عورت کو طلاق رجعی ملی ہے اس کی عدت تو صرف یہی ہے کہ اتنی مدت تک گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ اس کے لیے بناوٴ سنگار وغیرہ درست ہے اور جس کو تین طلاقیں مل گئیں یا ایک طلاق بائن ملی یا اور کسی طرح سے نکاح ٹوٹ گیا یا شوہر فوت ہو گیا، ان سب صورتوں کا حکم یہ ہے کہ جب تک عدت میں رہے تب تک نہ تو گھر سے باہر نکلے، نہ دوسرا نکاح کرے، نہ بناوٴ سنگار کرے، یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں۔ اس سنگار نہ کرنے کو ”سوگ،، (عدت گذارنا) کہتے ہیں۔مسئلہ (۲۳): جب تک عدت ختم نہ ہو تب تک خوشبو لگانا، زیور پہننا، پھول پہننا، سرمہ لگانا، پان کھا کر منھ لال کرنا، مسی ملنا، سر میں تیل ڈالنا، کنگھی کرنا، مہندی لگانا، اچھے کپڑے پہننا، ریشمی اور رنگے ہوئے بھڑ کیلے کپڑے پہننا، یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں؛ البتہ اگر بھڑ کیلے نہ ہوں تو درست ہے، چاہے جیسا رنگ ہو، مطلب یہ ہے کہ زیب وزینت کا کپڑا نہ ہو، بعض علاقوں میں سفید کپڑے کا اہتمام کرتی ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں۔مسئلہ (۲۴): سر میں درد ہونے کی وجہ سے تیل ڈالنے کی ضرورت پڑے تو جس تیل میں خوشبو نہ ہو وہ ڈالنا درست ہے۔ اسی طرح ضرورت کے وقت بہ طور دوا کے سرمہ لگانا بھی درست ہے؛ لیکن رات کو لگا کر دن کو صاف کرلے۔ سر دھونا اور نہانا بھی درست ہے، ضرورت کے وقت کنگھی کرنا بھی درست ہے؛ لیکن باریک کنگھی سے کنگھی نہ کرے جس میں بال چکنے ہو جاتے ہیں؛ بلکہ موٹے دندانے والی کنگھی کرے؛ تاکہ خوبصورتی نہ آنے پائے۔مسئلہ (۲۵): سوگ کرنا اس عورت پر واجب ہے جو بالغ ہو، نا بالغ لڑکی پرواجب نہیں، اس کے لیے یہ سب باتیں درست ہیں؛ البتہ گھر سے نکلنا اور دوسرا نکاح کرنا اس کے لیے بھی درست نہیں۔مسئلہ (۲۶): جس کا نکاح صحیح نہیں ہوا تھا وہ توڑ دیا گیا یا مرد مرگیا تو ایسی عورت پر بھی سوگ کرنا واجب نہیں۔مسئلہ (۲۷): شوہر کے علاوہ کسی اور کے مرنے پر سوگ کرنا درست نہیں؛ البتہ اگر شوہر منع نہ کرے تو اپنے عزیز اور رشتہ دار کے مرنے پر بھی تین دن تک بناوٴ سنگار چھوڑ دینا درست ہے، اس سے زیادہ بالکل حرام ہے اور اگر شوہر منع کرے تو تین دن بھی نہ چھوڑے۔سفر میں عدت شروع ہو جانااگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ شوہر کے آبائی شہر کے علاوہ کسی دوسری جگہ مقیم ہو اور شوہر کا وہیں انتقال ہو جائے تو اگر شوہر کا آبائی شہر جائے اقامت سے مسافتِ سفر سے کم ہو تو بیوی وہاں آکر عدت گزارے اور اگر مسافت سفر سے زیادہ ہو تو (اگر کوئی قانونی مجبوری نہ ہو تو) جائے اقامت ہی میں عدت پوری کرے۔عدت کے دوران سفر کرناشوہر کی وفات کے وقت عورت جس گھر میں رہائش پذیر ہو، شدید مجبوری کے بغیر اس گھر سے نکلنا جائز نہیں؛ البتہ اپنے معاشی انتظام کے لیے عورت دن میں یا رات کے کچھ حصہ میں اپنے گھر سے نکل سکتی ہے؛ مگر اس کے لیے سفر شرعی کی مقدار (سوا ستتر کلو میٹر) تک دور جانا جائز نہیں۔عدت میں سفرِ حجعدت کے اندر سفر کرنا جائز نہیں، چاہے حج کا سفر ہو یا کسی اور مقصد کے لیے۔عدت میں علاج کے لیے نکلناعلاج معالجہ کے لیے نکلنا جائز ہے؛ کیونکہ یہ ضرورت میں داخل ہے۔پرورش کا حقمسئلہ (۱): میاں بیوی میں جدائی ہوگئی اور عورت کی گود میں بچہ ہے تو اس کی پرورش کا حق ماں کو ہے، باپ اس کو نہیں چھین سکتا؛ لیکن بچہ کا سارا خرچ باپ ہی کو دینا پڑے گا۔ اگر ماں خود پرورش نہ کرے، باپ کے حوالے کردے تو باپ کو لینا پڑے گا، عورت کو زبردستی نہیں دے سکتا۔مسئلہ (۲): اگر ماں نہ ہو یا ہو لیکن اس نے بچہ کو لینے سے انکار کر دیا تو پرورش کا حق نانی اور پرنانی کو ہے، ان کے بعد دادی اور پردادی۔ یہ بھی نہ ہوں تو سگی بہنوں کا حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کی پرورش کریں، سگی بہنیں نہ ہوں تو سوتیلی بہنیں۔ ماں شریک بہنوں کا حق باپ شریک بہنوں سے پہلے ہے، پھر خالہ، پھر پھوپی کا۔مسئلہ (۳): اگر ماں نے کسی ایسے مرد سے نکاح کر لیا جو بچہ کا محرم رشتہ دار نہیں تو اب اس کو بچہ کی پرورش کا حق نہیں رہا؛ البتہ اگر بچہ کے محرم رشتہ دار سے نکاح کیا، جیسے: اس کے چچا سے نکاح کر لیا یا ایسا ہی کوئی اور رشتہ ہو تو ماں کا حق باقی ہے، ماں کے سوا کوئی اور عورت جیسے بہن، خالہ وغیرہ کسی غیر محرم مرد سے نکاح کرلے تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اب اس کو بچہ کی پرورش کا حق نہیں رہا۔مسئلہ (۴): عورت کا حق بچہ کے غیر محرم سے نکاح کی وجہ سے ختم ہو گیا تھا؛ لیکن پھر اس مرد نے طلاق دی یا انتقال کر گیا تو اب پھر اس کا حق لوٹ آئے گا اور بچہ اس کے حوالہ کر دیا جائے گا۔مسئلہ (۵): بچہ کے رشتہ داروں میں سے اگر کوئی عورت بچہ کی پرورش کے لیے نہ ملے تو پھر باپ زیاد ہ مستحق ہے، پھر دادا وغیرہ، اسی ترتیب سے جو نکاح کے ولی کے بیان میں ہے؛ لیکن اگر نامحرم رشتہ دار ہو اور بچہ اسے دینے میں آئندہ چل کر کسی خرابی کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں ایسے شخص کے سپرد کریں گے جس پر ہر طرح سے اطمینان ہو۔پرورش کی مدتمسئلہ (۶): لڑکا جب تک سات سال کا نہ ہو تب تک اس کی پرورش کا حق رہتا ہے، جب سات سال کا ہو گیا تو اب باپ اس کو زبردستی لے سکتا ہے اور لڑکی کی پرورش کا حق نو سال تک رہتا ہے۔ جب نو سال کی ہو گئی تو باپ لے سکتاہے۔نفقہ کا بیان(خوراک، پوشاک، رہائش)مسئلہ (۱): بیوی کا نان نفقہ (روٹی، کپڑا) شوہر کے ذمہ واجب ہے، عورت چاہے کتنی مال دار ہو؛ مگر خرچ مردہی کے ذمہ ہے اور رہنے کے لیے گھر دینا بھی مرد کے ذمہ ہے۔مسئلہ (۲): نکاح ہو گیا؛ لیکن رخصتی نہیں ہوئی، تب بھی عورت نفقہ کی حق دار ہے؛ البتہ اگر مرد نے رخصتی کرانا چاہا پھر بھی رخصتی نہیں ہوئی تو نفقہ کی حق دار نہیں۔مسئلہ (۳): جتنا مہر (رخصتی سے) پہلے دینے کا رواج ہے وہ مرد نے نہیں دیا؛ اس لیے وہ مرد کے گھر نہیں جاتی، تو اس کو نان نفقہ دلایا جائے گا اور اگر بلا وجہ مرد کے گھر نہ جاتی ہو تو نفقہ کی حق دار نہیں، جس وقت جائے گی تب سے دلایا جائے گا۔مسئلہ (۴): جتنی مدت تک شوہر کی اجازت سے اپنے ماں باپ کے گھر رہے اتنی مدت کا نفقہ بھی مرد سے لے سکتی ہے۔مسئلہ (۵): عورت بیمار ہو گئی تو بیماری کے زمانہ کے نفقہ کی حق دار ہے، چاہے مرد کے گھر میں بیمار ہو یا اپنے میکے میں؛ لیکن اگر بیماری کی حالت میں مرد نے بلایا، پھر بھی نہیں آئی تو اب نفقہ کی حق دار نہیں رہی اور بیماری کی حالت میں صرف نفقہ کا خرچ ملے گا۔ دو ااور علاج کا خرچہ مرد کے ذمہ واجب نہیں، اگر دیدے تو اس کا حسنِ اخلاق ہے۔مسئلہ (۶): عورت حج کرنے گئی تو اتنے زمانہ کا نان نفقہ مرد کے ذمہ نہیں؛ البتہ اگر شوہر بھی ساتھ ہو تو اس زمانہ کا خرچ بھی ملے گا؛ لیکن روٹی کپڑے کا جتنا خرچ گھر میں ملتا تھا اتنے ہی کی مستحق ہے۔ جو کچھ زیادہ لگے وہ اپنے پاس سے خرچ کرے اور ریل، جہاز وغیرہ کا کرایہ بھی مرد کے ذمہ نہیں۔مسئلہ (۷): روٹی کپڑے میں دونوں کی رعایت کی جائے گی۔ اگر دونوں مال دار ہوں تو مال داروں والا ملے گا اور اگر دونوں غریب ہوں تو غریبوں کی طرح اور مرد غریب ہو اور عورت مال دار یا عورت غریب ہو، مرد مال دار تو ایسا خرچہ دے کہ مال داروں سے کم ہو اور غریبوں سے زیادہ ہو۔مسئلہ (۸): عورت اگر بیمار ہے اور گھریلو کام نہیں کر سکتی یا ایسے بڑے گھرانے کی ہے کہ اپنے ہاتھ سے پیسنے، کوٹنے، کھانا پکانے کا کام نہیں کرتی؛ بلکہ اس کو عیب سمجھتی ہے تو پکا پکا یا کھانا دیا جائے گا اور اگر دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہ ہو تو گھر کا سب کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا واجب ہے۔ یہ سب کام خود کرے، مرد کے ذمہ صرف اتنا ہے کہ کھانے پینے کا تمام ضروری سامان اور برتن وغیرہ لادے، وہ اپنے ہاتھ سے پکائے اور کھائے۔مسئلہ (۹): دائی، نرس یا لیڈی ڈاکٹر کی اجرت اس پر ہے جس نے اسے بلایا مرد نے بلایا ہو تو مرد پر عورت نے بلایا ہو تو عورت پر اور اگر بن بلائے آگئی تو مرد پر۔مسئلہ (۱۰): روٹی کپڑے کا خرچ ایک سال کا یا اس سے کچھ کم زیادہ پیشگی دے دیا تو اب اس میں سے کچھ لوٹایا نہیں جا سکتا۔مسئلہ (۱۱): بیوی اتنی کم عمر ہے کہ صحبت کے قابل نہیں تو اگر مرد نے کام کاج کے لیے یادل بہلانے کے لیے اس کو اپنے گھر میں رکھ لیا تو اس کا روٹی کپڑا مرد کے ذمہ واجب ہے اور اگر اپنے پاس نہیں رکھا؛ بلکہ میکے بھیج دیا تو واجب نہیں اور اگر شوہر نابالغ ہو؛ لیکن عورت بڑی ہے تو اسے نان نفقہ ملے گا۔بیوی کی رہائشمسئلہ (۱): مرد کے ذمہ یہ بھی واجب ہے کہ بیوی کے رہنے کے لیے کوئی ایسی جگہ دے جس میں شوہر کا کوئی رشتہ دار نہ رہتا ہو؛ بلکہ خالی ہو؛تاکہ میاں بیوی بالکل بے تکلفی سے رہ سکیں؛ البتہ اگر عورت خود سب کے ساتھ رہنا گوارا کرے تو دوسروں کے ساتھ ایک گھر میں بھی رہنا درست ہے۔مسئلہ (۲): گھر میں سے ایک کمرہ عورت کے لیے الگ کردے تا کہ وہ اپنا گھریلو سامان اس میں حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے اور اس کا تالا چابی اپنے پاس رکھے، کسی اور کا اس میں دخل نہ ہو، صرف عورت ہی کے قبضے میں رہے تو بس حق ادا ہو گیا، عورت کو اس سے زیادہ کا حق نہیں، یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کرو۔مسئلہ (۳): جس طرح عورت کو اختیار ہے کہ اپنے لیے کوئی الگ گھر مانگے جس میں مرد کا کوئی رشتہ دار نہ رہے صرف عورت ہی کے قبضے میں رہے،اسی طرح مرد کو اختیار ہے کہ جس گھر میں عورت رہتی ہے وہاں اس کے رشتہ داروں کو نہ آنے دے، نہ ماں کو، نہ باپ کو، نہ بھائی کو، نہ کسی اور رشتہ دار کو۔مسئلہ (۴): عورت اپنے ماں باپ کو دیکھنے کے لیے ہفتے میں ایک دفعہ جا سکتی ہے اور ماں باپ کے سوا دوسرے رشتہ داروں کے لیے سال بھر میں ایک دفعہ سے زیادہ کا اختیار نہیں۔ اسی طرح اس کے ماں باپ بھی ہفتہ میں صرف ایک مرتبہ اس کے پاس آسکتے ہیں۔ مرد کو اختیار ہے کہ اس سے زیادہ جلدی جلدی نہ آنے دے اور ماں باپ کے سوا دیگر رشتہ دار سال بھر میں صرف ایک دفعہ آسکتے ہیں، اس سے زیادہ آنے کا اختیار نہیں؛ لیکن مرد کو اختیار ہے کہ زیادہ دیر نہ ٹھہرنے دے، نہ ماں باپ کو نہ کسی اور کو۔ ہاں ! وہ اجازت دے اور راضی ہو تو کوئی حد مقرر نہیں۔ جب چاہیں آجا سکتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ رشتہ داروں سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے نکاح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے اور جو ایسے نہ ہوں وہ اجنبی ہیں۔مسئلہ (۵): اگر باپ بہت زیادہ بیمار ہے اور اس کی کوئی خبر لینے والا نہیں تو ضرورت کے مطابق وہاں روز جایا کرے۔ اگر باپ بے دین یا کافر ہو تب بھی یہی حکم ہے؛ بلکہ اگر شوہر منع بھی کرے تب بھی جانا چاہیے؛ لیکن شوہر کے منع کرنے پر جانے سے نان نفقہ کا حق نہیں رہے گا۔مسئلہ (۶): غیر لوگوں کے گھر نہیں جانا چاہیے، اگر شادی بیاہ وغیرہ کی کوئی مروّجہ محفل ہو (جس میں گناہ کے کام ہوتے ہیں) اور شوہر اجازت بھی دے دے تو بھی جانا درست نہیں۔ شوہر اجازت دے گا تو وہ بھی گنہگار ہوگا؛ بلکہ (غیر شرعی امور پر مشتمل) تقریبات کے دوران اپنے محرم رشتہ دار کے یہاں جانا بھی درست نہیں۔مسئلہ (۷): جس عورت کو طلاق مل گئی وہ بھی عدت پوری ہونے تک روٹی کپڑے اور رہنے کے گھر کی مستحق ہے؛ البتہ جس کا خاوند مر گیا اس کو روٹی کپڑا اور گھر ملنے کا حق نہیں؛ مگر اس کو میراث سے حصہ ملے گا۔مسئلہ (۸): اگر نکاح عورت ہی کی وجہ سے ٹوٹا جیسے: خدا نخواستہ مرتد ہو کر اسلام سے پھر گئی؛ اس لیے نکاح ٹوٹ گیا تو اس صورت میں عدت کے اندر اس کو روٹی کپڑا نہیں ملے گا؛ البتہ رہنے کا گھر ملے گا، اگر وہ خود ہی چلی جائے تو اور بات ہے، پھر نہیں دیا جائے گا۔


عورتوں کے حقوق سیرتِ نبوی کی روشنی میں  

   تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔

                 اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا؛ لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔(۱)

                لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔

                مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے؛ مگر عورت کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کابوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے؛ مگر نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کالایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جو خودفطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔(۲)

                عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت وکوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ موجودہ دور نے اپنی بحث وتمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اوریہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہ احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیے جس سے وہ مدتِ دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت اس کامطالبہ کررہی تھی؛ بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسے ملنا ہی چاہیے تھا ۔ اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید وقدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کوگناہ کا پُتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔(۳)

                یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دیے؛ بلکہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔

عورتوں کو زندہ رکھنے کاحق

                عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا؛ عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کاجواب دینا ہوگا۔ فرمایا:

                وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)

                اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔

                ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کادامن اس ظلم سے پاک ہو او رلڑکیوں کے ساتھ وہی برتاوٴ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا(۴)۔

عورت بحیثیتِ انسان

                اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے :

                خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)

                اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔

                اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ قرآن میں ا شاد ہے کہ:

                وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُم مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً(سورہ بنی اسرائیل: ۷۰)

                ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انھیں خشکی اور تری کے لیے سواری دی۔ انھیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر انھیں فضیلت دی۔

                اورسورہ التین میں فرمایا:

                لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: ۴)

                ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔

                چنانچہ آدم کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو سرفرازی عطا کی گئی اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔(۵)

عورتوں کی تعلیم کا حق

                انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی کی تگ ودو میں پیچھے رہ جاتاہے۔ اور اپنی کُند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر آتاہے؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیاگیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔

                لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب علم فریضة اور دوسری جگہ ابوسعید خدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

                مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ الجنة(۶)

                جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔

                اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے؛ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔

                جیسا کہ گزشتہ دور میں جس طرح علم مردوں میں پھیلا، اسی طرح عورتوں میں بھی عام ہوا۔ صحابہ کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی مقدار میں ملتی ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتویٰ دینا بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے؛ لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں تھیں؛ بلکہ صحابہٴ کرام کے مدِمقابل تھیں، جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً:

                حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت ام عطیہ، حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابوبکر، ام شریک، فاطمہ بنت قیس، وغیرہ نمایاں تھیں۔(۷)

معاشرتی میدان

                جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے اس مظلوم طبقہ کو یہ مژدہ جانفزا سنایا:

                حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ(۸)

                مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔

                اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی نظامت اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، اس سلسلے میں آپ کا ارشاد ہے:

                النکاحُ من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی(۹)

                نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(۱۰)

                چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے بچوں کی معلم ومربی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :

                ہن لباس لکم وانتم لباس لہن (البقرہ: ۱۸۷)

                عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا ۔

                یعنی کہ تم دونوں کی شخصیت ایک دوسرے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔ تم ان کے لیے باعثِ حسن وآرائش ہو تو وہ تمہارے لیے زینت وزیبائش غرض دونوں کی زندگی میں بہت سے تشنہ پہلو ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے بغیر پایہٴ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔(۱۱)

معاشی حقوق

                معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کامالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسے دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔

                (۱) عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ:

                عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ: ۲۳۶)

                خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔

                (۲) مہر: عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:

                وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴)

                عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاوٴ۔

                (۳) وراثت: بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ ارشاد ہوا ہے یعنی مرد کو  عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔ (النساء: ۱۱) یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔

                (۴) مال وجائیداد کا حق: اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے؛ کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے؛ بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے؛ اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے؛ مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔

                (۵) پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے؛ لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے؛ جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔

تمدنی حقوق

                 شوہر کاانتخاب : شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

                لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن(۱۲)

                شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔(۱۳)

                اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔

                ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء ضرور دخل انداز ی کریں گے۔

خلع کا حق

                 اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔

حسن معاشرت کا حق

                قرآن میں حکم دیا گیا: وعاشروہن بالمعروف عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ (النساء: ۱۹) چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خیرُکم خیرُکم لاہلہ۔ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی  بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔(۱۴)

بیویوں کے حقوق

                اسلام کے آنے کے بعد لوگوں نے عورتوں کو بے قدری کی نگاہوں سے دیکھا، اس بے قدری کی ایک شکل یہ تھی کہ لوگ عبادت میں اتنے محو رہتے تھے کہ بیوی کی کوئی خبر نہیں۔ حضرت عمرو بن العاس اور حضرت ابودرداء کا واقعہ کابڑی تفصیل سے حدیث میں مذکور ہے کہ کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کی بیوی کو ان سے شکایت ہوئی، نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر سمجھایا اور فرمایا کہ تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے، لہٰذا تم عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں کا بھی خیال رکھو۔

                بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع کے موقع پر فرمایا:

                ”لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(۱۵)

                آپ نے ایک جگہ اور فرمایا:

                خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي(۱۶)

                تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔

                انَّ أکْمَلَ الموٴمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ(۱۷)

                کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔

                نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبروتحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔(۱۸)

عورتوں کا معاشرتی مقام اسلام کی نظر میں

                اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ”معروف“ کاخیال کیا جائے؛ تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ:

                وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً(النساء: ۱۹)

                اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔

                 معاشرت کے معنی ہیں، مل جل کر زندگی گزارنا، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک تو مردوں کو عورتوں سے مل جل کر زندگی گزارنے کا حکم دیاہے۔ دوسرے یہ کہ ”معروف“ کے ساتھ اسے مقید کردیا ہے، لہٰذا امام ابوبکر جصاص رازی(المتوفی ۷۰ھ) معروف کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں عورتوں کا نفقہ، مہر، عدل کا شمار کرسکتے ہیں۔

                اور معروف زندگی گزارنے سے مطلب یہ ہے کہ گفتگو میں نہایت شائستگی اور شیفتگی سے کام لیا جائے باتوں میں حلاوت ومحبت ہو حاکمانہ انداز نہ ہو اور ایک بات کو توجہ کے ساتھ سنیں اور بے رخی بے اعتنائی نہ برتیں اور نہ ہی کوئی بدمزاحی کی جھلک ظاہر ہو۔(۱۹)

                قرآن میں صرف معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر خدا نے فرض کیاہے؛ بلکہ اسی کے ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جیسے مطلقہ عورت کے باری میں صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ:

                وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لَّتَعْتَدُواْ (البقرہ: ۲۳۱)

                ایذا دِہی کے خیال سے ان کو نہ روک رکھو؛ تاکہ تم زیادتی کرو۔

 آزادیِ رائے کا حق

                اسلام میں عورتوں کی آزادی کا حق اتنا ہی ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے خواہ وہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی۔ اس کو پورا حق ہے کہ وہ دینی حدود میں رہ کر ایک مرد کی طرح اپنی رائے آزادانہ استعمال کرے۔

                ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ :”تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کی مہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)

                حضرت عمر کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں  کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً (النساء: ۲۰)

                اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو۔

                جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ أعْلَمُ مِنْ عُمَر تم سب تم سے زیادہ علم والے ہو۔اس عورت کی آزادیِ رائے کو مجروح قرار نہیں دیا کہ حضرت عمر کو کیوں ٹوکا گیا اور ان پر کیوں اعتراض کیا گیا؛ کیوں کہ حضرت عمر کی گفتگو اولیت اور افضیلت میں تھی۔ نفس جواز میں نہ تھی۔

                اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو اپنی آزادیِ رائے کا پورا حق ہے؛ حتی کہ اسلام نے لونڈیوں کو بھی اپنی آزادانہ رائے رکھنے کاحق دیا۔ اور یہ اتنی عام ہوچکی تھی کہ عرب کی لونڈی اس پر بے جھجھک بناتردد کے عمل کرتی تھیں حتی کہ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رائے سے جو بحیثیت نبوت ورسالت کے نہیں ہوتی تھی، اس پر بھی بے خوف وخطر کے اپنی رائے پیش کرتی تھیں اور انھیں کسی چیز کاخطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی نافرمانی کا۔(۲۰)

                اس آزادیِ رائے کا سرچشمہ خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت نے ازواجِ مطہرات میں آزادیِ ضمیر کی روح پھونک دی تھی، جس کااثر تمام عورتوں پر پڑتا تھا۔

--------------------

حواشی:

(۱)           مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، سید جلال الدین عمری، مطبع ادارہٴ تحقیق وتصنیفِ ا سلامی، مارچ۱۹۸۶ء،ص:۱۵

(۲)           اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۱۵

(۳)          اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۲۹۔۳۰

(۴)          ابوداوٴد، باب فضل من عال یتامی، ابوداوٴد سلیمان بن الاشعث السجستانی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ص:۹۳۰

(۵)          اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ، ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۳۱

(۶)           ابوداوٴد، باب فضل من عال فی یتامی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ص:۹۳۱

(۷)          مسلمان عورتوں کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ: سید جلال الدین عمری، ادارہٴ تحقیق وتصنیفِ اسلامی، مارچ ۱۹۸۶ء، ص: ۲۹

(۸)          نسائی ، ابی عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الشہیر (النسائی)، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ۱۳۰۳ھ ص: ۶۰۹

(۹)           بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ص: ۷۵۷۔۷۵۸

(۱۰)         بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ص: ۷۵۷۔۷۵۸

(۱۱)          اسلام میں عورت کا مقاموم ومرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۳۵

(۱۲)         مشکوٰة کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰

(۱۳)         مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱

(۱۴)         مشکوٰة، کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰

(۱۵)         مشکوٰة بروایت صحیح مسلم ، فی قصة حجة الوداع، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۲۵

(۱۶)         مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱

(۱۷)         مشکوٰة، عن ترمذی، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص:

(۱۸)         اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۶۰۔۶۱

(۱۹)         اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد رحمانی، دینی بک ڈڈپو اردوبازار، دہلی، ص: ۱۷

(۲۰)         اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد، رحمانی،دینی بک ڈپو، اردوبازار دہلی، ص: ۲۲۔۲۳