Wednesday 26 December 2018

قادیانی فتنہ کیوں ایجاد کیا گیا

1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزی استعمار اپنے تمام مظالم، جبر و استبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے جذبہ جہاد کے سامنے سپر انداز ہو گیا تھا۔ انگریزوں کی پریشانی کا اندازہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر (W.W.Hunter) کی کتاب ’’ہندوستانی مسلمان‘‘ (THE INDIAN MUSALMANS) سے لگایا جا سکتا ہے۔

30 مئی 1871ء کو وائسرائے لارڈ میو نے جو کہ ڈزرائیلی حکومت کا آئرش سیکرٹری تھا، ایک مقامی سول ملازم ڈبلیو۔ ڈبلیو۔ ہنٹر کو اس سلگتے مسئلہ پر ایک رپورٹ تیار کرنے کو کہا:  ’’کیا مسلمان برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اپنے ایمان کی وجہ سے مجبور ہیں؟‘‘ ہنٹر کو حقیقت حال تک رسائی کے لیے تمام خفیہ سرکاری دستاویزات کی جانچ پڑتال کی اجازت دے دی گئی۔ ہنٹر نے 1871ء میں ’’ہندوستانی مسلمان۔ کیا وہ اپنے ایمان کی وجہ سے شعوری طور پر ملکہ کے خلاف بغاوت کے لیے مجبور ہیں؟‘‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ شائع کی۔ اس نے اسلامی تعلیمات خصوصاً جہادی تصور، نزول مسیح و مہدی کے نظریات وغیرہ پر بحث کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا:

’’مسلمانوں کی موجودہ نسل اپنے معتقدات کی رو سے موجودہ صورتحال (جیسی کہ ہے) کو قبول کرنے کی پابند ہے، مگر قانون (قرآن) اور پیغمبروں (کے تصورات) کو دونوں طریقوں سے یعنی وفاداری اور بغاوت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے پہلے بھی خطرہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں اور اس دعویٰ کی کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ یہ باغی اڈہ (شمال مغربی سرحد) جس کی پشت پناہی مغربی اطراف کے مسلمانوں کے جتھے کر رہے ہیں، کسی کی رہنمائی میں وہ قوت حاصل کرے گا جو ایشیائی قوموں کو اکٹھا اور قابو کر کے ایک وسیع محاربہ Crescentado کی شکل دے دے۔‘‘                                   (The Indian Musalmans by W.W.Hunter)

اس کے علاوہ وہ مزید لکھتا ہے:

’’ہماری مسلمان رعایا سے کسی بھی پرُجوش وفاداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تمام قرآن مسلمانوں کے بطور فاتح نہ کہ مفتوح کے طور پر تصورات سے لبریز ہے۔ مسلمانانِ ہند ہندوستان میں برطانوی راج کے لیے ہمیشہ کا خطرہ ہو سکتے ہیں۔‘‘                                                                                                      (The Indian Musalmans by W.W.Hunter)

سابق برطانوی وزیر اعظم ولیم ایورٹ گلیڈ سٹون (William Ewart Gladstone) نے اپنے ہاتھ میں قرآن مجید لہرا کر برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’جب تک یہ قرآن مسلمانوں کے ہاتھوں یا ان کے قلوب و اذہان میں موجود رہے گا، اس کے تصور جہاد کی وجہ سے یورپ، اسلامی مشرق پر اولاً تو اپنا غلبہ و تسلط قائم نہیں کرسکتا اور اگر قائم کر لے تو وہ اسے برقرار رکھنے میں زیادہ دیر تک کامیاب نہیں رہ سکتا۔ حتیٰ کہ خود یورپ کا اپنا وجود بھی اسلام کی جانب سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔‘‘                      (اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یورپی سازشیں از علامہ جلال العالم)

اس سے پہلے انگلستان گورنمنٹ نے 1869ء کے اوائل میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، برطانوی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سرولیم کی زیر قیادت ہندوستان میں بھیجا تاکہ اس بات کا کھوج لگایا جا سکے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو کس طرح رام کیا جا سکتا ہے؟ ہندوستانی عوام اور بالخصوص مسلمانوں میں، وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے؟ برطانوی وفد ایک سال ہندوستان میں رہا اور حالات کا جائزہ لیا۔ اسی سال وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا، جس میں ہندوستانی مشنریز کے اہم پادری بھی تھے۔ کمیشن کے سربراہ سرولیم نے بتایا:

            ’’مذہبی نقطہ نظر سے مسلمان کسی دوسری قوم کی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے۔ ایسے حالات میں وہ جہاد کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ جوش کسی وقت بھی انھیں ہمارے خلاف ابھار سکتا ہے۔‘‘

اس وفد نے "The Arrival of British Empire in India" (ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد) کے عنوان سے دو رپورٹیں لکھیں، جس میں انھوں نے لکھا: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو الہامی سند پیش کرے تو ایسے شخص کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘

انگلستانی وفد کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:

REPORT OF MISSIONARY FATHERS

"Majority of the population of the country blindly follow their "Peers" their spiritual leaders. If at this stage, we succeed in finding out some who would be ready to declare himself a Zilli Nabi (apostolic prophet) then the large number of people shall rally round him. But for this purpose, it is very difficult to persuade some one from the Muslim masses. If this problem is solved, the prophethood of such a person can flourish under the patronage of the Government. We have already overpowered the native governments mainly pursuing a policy of seeking help from the traitors. That was a different stage, for at that time, the traitors were from the military point of view. But now when we have sway over every nook of the country and there is peace and order every where we ought to undertake measures which might create internal unrest among the country."

(Extract from the Printed Report. India Office Library, London)

ترجمہ: ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے پیروں اور روحانی رہنمائوں کی اندھی تقلید کرتی ہے۔ اگر اس موقع پر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے، جو ظلی نبوت (حواری نبی) کا اعلان کر کے، اپنے گرد پیروکاروں کو اکٹھا کرے لیکن اس مقصد کے لیے اس کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی حکومت کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ ہم نے مقامی حکومتوں کو پہلے ہی ایسی ہدایات دی ہوئی ہیں کہ غداروں سے معاونت حاصل کی جائے، اس وقت مسلح غداری ہوئی تھی اور صورت حال اور تھی، لیکن اب ہم نے ہندوستان کے طول و عرض میں ایسے انتظامات کر لیے ہیں، ملک میں ہر طرف امن و امان ہے۔ ملک کی اندرونی بدامنی سے نمٹنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جا چکے ہیں جو ملک میں اندرونی بدامنی پیدا کریں گے۔‘‘  

(مطبوعہ رپورٹ سے ایک اقتباس: انڈیا آفس لائبریری، لندن)

رپورٹ کو مدنظر رکھ کر تاج برطانیہ کے حکم پر ایسے موزوں اور باعتبار شخص کی تلاش شروع ہوئی، جو برطانوی حکومت کے استحکام اور عملداری کے تحفظات میں الہامات کا ڈھونگ رچا سکے، جس کے نزدیک تاج برطانیہ کے مراسلات، وحی کا درجہ رکھتے ہوں، جو ملکہ معظمہ کے لیے رطب اللسان ہو، برطانوی حکومت کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی جس کی نبوت کا دیباچہ ہو۔ برطانوی شہ دماغوں نے ہندوستان میں ایسے شخص کے انتخاب کے لیے ہدایات جاری کیں۔ پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے ذمہ لگائی۔ چنانچہ ’’برطانوی معیار‘‘ کے مطابق نبی کی تلاش کا کام شروع ہوا۔ آخرکار قرعہ فال قادیان ضلع گورداسپور کے رہائشی مرزا غلام احمد قادیانی کے نام نکلا۔

            ’’برطانوی ہند کی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا۔ ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی نبوت کے لیے نامزد کیا گیا۔‘‘

(تحریک ختم نبوت از آغا شورش کاشمیریؒ)

مرزا قادیانی، منیمی سے نبوت تک کیسے پہنچا؟ اس مختصر مگر دلچسپ کہانی کو جناب ابومدثرہ اپنے الفاظ میں یوں لکھتے ہیں:

’’مرزا غلام احمد کی ابتدائی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے معمولی سی دینی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے والد نے سکھوں کے عہد میں چھن جانے والی جاگیروں کی بازیابی کے لیے مقدمات قائم کر رکھے تھے اور انگریز کے تعاون سے ان پر دوبارہ قابض ہونے کی فکر میں 1864ء میں آپ نے انگریز سے مل ملا کر آپ کو سیالکوٹ کی کچہری میں اہلمد (منشی) کی ملازمت دلوا دی۔ اس دوران آپ نے یورپی مشنریوں اور بعض انگریز افسران سے تعلقات پیدا کیے اور مذہبی مباحث کی آڑ میں باہمی میل جول کو بڑھایا۔

1868ء کے لگ بھگ سیالکوٹ میں ایک عرب محمد صالح وارد ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس حرمین شریفین کے بعض مفتیان کرام کا ایک فتویٰ تھا، جس میں ہندوستان کو دارالحرب ثابت کیا گیا تھا۔ انگریز کے مخبروں نے آپ کو اعتماد میں لے کر گرفتار کرا دیا۔ آپ پر دوالزامات عائد کیے گئے۔ ایک امیگریشن ایکٹ کی خلاف ورزی اور دوسرے برطانوی حکومت کے خلاف جاسوسی کرنا تھا۔ سیالکوٹ کچہری کے یہودی ڈپٹی کمشنر پارکنسن (Parkinson) نے تفتیش کا آغاز کیا۔ وہ ان تمام لوگوں کو گرفتار کرنا چاہتا تھا، جن سے نووارد عرب کا رابطہ تھا۔ دوران تفتیش ایک ایسے آدمی کی ضرورت پڑی، جو عربی کے مترجم کے طور پر کام کر سکے۔ (مجدد اعظم صفحہ 42 از ڈاکٹر بشارت احمد لاہوری قادیانی) یہ خدمت مرزا غلام احمد قادیانی نے ادا کی اور عرب دشمن اور برطانیہ نوازی کی وہ مثال پیش کی کہ پارکنسن آپ کا گرویدہ ہو گیا۔

ایک اور واقعہ جسے مرزا قادیانی کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، وہ پادری بٹلر ایم۔ اے کی لندن واپسی ہے۔ یہ پادری برطانوی انٹیلی جنس کا ایک اہم رکن تھا اور مبلغ کے روپ میں کام کررہا تھا۔ مرزا صاحب نے مذہبی بحث کی آڑ میں ان سے طویل ملاقاتیں کیں اور برطانوی راج کے قیام کے لیے اپنی ہر قسم کی خدمات پیش کیں۔ 1868ء میں بٹلر ولایت جانے سے پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خفیہ بات چیت ہوئی اور معاملات کو حتمی صورت دی گئی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے مرزا محمود اپنی تصنیف ’’سیرت مسیح موعود‘‘ میں لکھتے ہیں:

            ’’ریورنڈ بٹلر ایم۔ اے، جو سیالکوٹ مشن میں کام کرتے تھے اور جن سے حضرت مرزا صاحب کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے، جب ولایت واپس جانے لگے تو خود کچہری میں آپ کے پاس ملنے کے لیے چلے آئے اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھا، کس طرح تشریف لائے تو ریورنڈ مذکور نے کہا، صرف مرزا صاحب کی ملاقات

کے لیے! اور جہاں آپ بیٹھے تھے، وہیں سیدھے چلے گئے اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔‘‘

(سیرت مسیح موعود از مرزا بشیر الدین محمود صفحہ 12)

ایک خطبے میں مرزا محمود نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

            ’’اس وقت پادریوں کا بہت رعب تھا لیکن جب سیالکوٹ کا انچارج مشنری ولایت جانے لگا تو حضرت صاحب کو ملنے کے لیے خود کچہری آیا۔ ڈپٹی کمشنر اسے دیکھ کر اس کے استقبال کے لیے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے۔ کوئی کام ہو تو ارشاد فرمائیں مگر اس نے کہا، میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں۔ یہ ثبوت

ہے اس امر کا کہ آپ کے مخالف بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا جوہر ہے جو قابل قدر ہے۔‘‘

(روزنامہ ’’الفضل‘‘ قادیان، 24 اپریل 1934ء)

اسی سال 1868ء میں مرزا قادیانی بغیر کسی معقول ظاہری وجہ کے اہلمد کی نوکری سے استعفیٰ دے کر قادیان چلا گیا اور تصنیف و تالیف کے کام میں لگ گیا۔‘‘                                                                                                      (قادیان سے اسرائیل تک از ابو مدثرہ)

عالمی تحریک صیہونیت، برطانوی سیاست میں یہودیوں کا دخل، خصوصاً ان کا وزرائے اعظم کے عہدے تک پہنچنا، اسلامیان عالم کی سیاسی و معاشی زبوں حالی، ہندوستانی مسلمانوں کی حصول آزادی کے لیے جدوجہد اور انگریز کے سیاسی اور مذہبی تخریب کاری کے لیے خطرناک عزائم، جو علی الترتیب ہنٹر رپورٹ اور مشنری فادرز رپورٹ سے عیاں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک غدار خاندان کے فرد مرزا غلام احمد قادیانی کا یہودی افسروں اور جاسوس مشنری اداروں کے سربراہوں سے روابط اور ان کا پارکنسن کی شہ اور بٹلر کی اشیرباد پر نوکری چھوڑ کر نام نہاد اصلاحی تحریک کا آغاز کرنا… یہ سب واقعات اس عظیم سیاسی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو مذہبی روپ دھار کر ’’احمدیت‘‘ کی صورت میں منظر عام پر آئی۔

Monday 24 December 2018

تاریخِ افغانستان پر ایک نظر

افغانستان ایک قدیم تاریخی مملکت ہے۔ قدیم وسط ایشیا سے ہندوستان آنے کا صرف ایک ہی زمینی راستہ تھاجو افغانستان کی شمال مغربی سرحدوں سے گزرتا ہے۔ تاہم عظیم ہمالیائی سلسلے کو پارکرکے چین کی حملہ آور فوجیں ضرور ہندوستان آئیں۔ کبھی کبھی ان غیر متعین اور دشوار گزار راہوں سے منگول اور تاتار نسلوں کے لوٹ مار کرنے والے گروہ بھی ہندوستان کے علاقوں میں گھس آتے تھے۔ اس کے باوجود یہ پہاڑی علاقے تاریخ میں کسی بھی مرحلے پر باہر سے آنے والوں کے لیے باقاعدہ اور مستقل گزرگاہ نہیں بن سکے۔ عظیم ہمالیہ کے ان سلسلوں نے بہرحال مشرق کی طرف سے آنے والے تاتاری قبائل اور ان جیسے حملہ آوروں کو ہمیشہ ہندوستان میں آنے سے روکے رکھا۔ عربوں کو چھوڑ کر جو سمندری راستوں سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ آریا ، ترک، تاتار ، منگول، افغان، ستھین (Scythian )ان سے ملتے جلتے گروہ اور ایران اور توران کے حکمران ،خراسان ، ہرات قندھار، بلخ، دریائے کابل کے ذریعے اور ان علاقوں سے جنہیں برطانوی بلوچستا ن کہا جاتا تھا، ہندوستان آئے تھے۔ قدیم آریائی دور کا ایک اہم شہر بلخ جو ہزاروں سال قبل آریائی بادشاہوں کا مرکز تھا، افغانستان میں واقع ہے۔ یہ وہی بلخ ہے جس میں علامہ اقبالؒ کے مرشد جلال الدین بلخی رومی پیدا ہوئے۔ بلخ پر کشتاسب کے حامیوں کے قبضے سے افغانستان میں زرتشت دور کا آغاز ہوتا ہے۔ پانچ سو قبل از مسیح کی اس مذہبی تحریک نے عوام کے ذہنوں سے پرانے خیالات کا صفایا کیا۔ اس تبدیلی نے ان لوگوں کو نئی فکر ی روش سے آشنا کردیا۔ آریانا (قدیم افغانستان کا نام)میں تہذیب اقوام کے آریائی وزرتشتی دور کے بعد آسوریوں اور ہخامنشیوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ سیر وس کبیر (549 - 529 ق م) اور داریوش (522- 485ق م) نے آریانا کی سرزمین کو دو حصوں قندھار اور باختر میں تقسیم کیا۔ اس کے بعد یہ علاقہ سکندر اعظم کی یلغار کا شکار ہوا۔ یہ سرزمین یونانی تہذیب و زبان سے بھی آشنا ہوئی ہے۔ اشوکا مذہب بدھ مت اکثر مشرقی علاقوں میں ترقی کرتا ہے۔ 120قبل از مسیح میں کوشانیوں کے دوسرے دور کا عروج ہوتا ہے۔کاپیسا یا موجودہ بگرام اس دور کے اہم تجارتی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ جو چین اور ہندوستان کے سنگم پر واقع ہے۔بدھ مت مذہب کو ترقی ملتی ہے اور اس دور کے یادگار طویل القامت بدھا کے مجسمے تعمیر ہوتے ہیں۔ جو تقریباً دو ہزار سال بعد 2001ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے ہاتھوں مسمار ہوئے۔ بدھائی دور کے بعد افغانستان میں اسلامی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ روم و فارس کی فوجیں اسلامی جہادی لشکروں سے شکست کھاتی ہیں۔ نویں صدی عیسوی میں جنوبی ہندوکش کے راستے اسلام بڑی کامرانی سے افغانستان میں داخل ہوتا ہے اور افغانستان سے ہوتا ہوا ہندوستان کا رخ کرتا ہے۔ طاہر ہراتی اور یعقوب لیث صفاری زابلی کے ذریعے 871ء میں کابل اسلامی سلطنت کے زیرِ نگین آتا ہے۔ طاہرہراتی بغداد اور دیگر عربی خطوں کا رخ کرتا ہے اور خراسان اسلامی سلطنت کا مرکز بن جاتا ہے۔ عباسی دور میں افغانستان میں زبردست ترقی ہوتی ہے۔اقتصادیات ، زراعت، صنعت ، تجارت ، مسکوکات، انتظامی امور ، جدید انتظامی ڈھانچہ وجود پاتا ہے۔ جبکہ مساجد کی تعمیر علم و ادب ، فکر و فرہنگ میں بھی اضافے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد افغانستان میں غزنویوں کے درخشان اسلامی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ آریانا کی سرحدیں اصفہان و ہمدان کے علاوہ ہندوستان تک پھیلیں۔ محمود نے اسلام کی احیا و سربلندی کے لئے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔ اس کے بعد آریانا میں غوریوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ 1233ء میں افغانستان میں آخری غوری سلطان کی ہلاکت مغلوں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ تیموریوں کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ دسویں صدی ہجری کے اوائل میں کابل میں بابر کی حکومت ہوئی ہے۔ بابر ہندوستان کا رخ کرتا ہے۔ وہاں لودھی افغانوں کی سلطنت کو تاراج کرکے اپنی حکمرانی کا اعلان کرتا ہے۔ اس سلسلے کی کڑی شیرشاہ سوری کی سخت کوششوں اور کٹھن جدوجہد کے بعد دوبارہ ہندوستان میں افغان حکمرانی تک پہنچتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ افغان کمزور ہوتے رہے اور صفویوں نے آریانا پر قبضہ جمایا۔ صفویوں کے مقابلے میں ایک مدبر افغان شخصیت میرویس خان نیکہ نبردآزما ہوتا ہے۔ صفویوں کو شکست دے کر افغانستان میں ہوتکیوں کے حکومت کادور شروع ہوتا ہے۔ نادرشاہ افشار کی ہلاکت کے بعد میں احمد شاہ درانی افغانستان کا بادشاہ بن جاتا ہے۔ احمد شاہ درانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے درخواست پر اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کے تعاون کے سلسلے میں ہندوستان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ قندھار سے ہوتے ہوئے لاہور تا دہلی افغان حکومت کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اس نکتے کی طرف حضرت علامہ اقبالؒ نے یوں اشارہ کیا ہے۔ جس کے دم سے دلی و لاہور ہم پہلو ہوئے آہ ! اے اقبال وہ بلبل بھی آج خاموش ہے احمد شاہ ابدالی نے 25 سال تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد زمامِ حکومت اپنے بیٹے تیمور شاہ درانی کے حوالے کردی۔ احمد شاہ درانی کے گھرانے کے پاس تقریباً سو سال تک افغانستان کے تخت و تاج کا اختیار رہا۔ اس کے بعد محمد زئی خاندان کی حکمرانی شروع ہوئی۔ امیر دوست محمد خان ، امیر شیرعلی خان، امیر عبدالرحمن خان ، امیر حبیب اللہ خان ، امیر امان اللہ خان ، اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شہید اور محمد ظاہر شاہ افغانستان کے سربراہانِ حکومت رہے۔

برطانیہ اور افغانستان کے درمیان پہلی جنگ  1842-1839 میں لڑی گئی۔
تاریخ سے معلوم چلا ہے کہ اس وقت دنیا کی طاقتور ترین فوج کو ان قبائلی جنگجووں کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی جن کے پاس باقاعدہ ہتھیار بھی نہیں تھے۔
چھ جنوری 1842 میں جب 18500 برطانوی فوجی کابل سے نکلے ہیں تو صرف ایک برھانوی شہری اسسٹنٹ سرجن ڈاکٹر برائڈن جلال آباد کے راستے چھ روز بعد زندہ نکل پائے۔
امریکی جنگ اور 1840 کی جنگ کے درمیان مماثلت یہ ہے کہ دونوں جنگوں میں جن شہروں میں فوجی اڈے قائم کیے گئے وہ ایک ہی ہیں، اس وقت اور آج کے فوجی ایک ہی زبان بولتے ہیں اور ان پر انہی پہاڑوں اور دروں سے حملہ کیا جا رہا ہے۔
چھ جنوری 1842 میں جب 18500 برطانوی فوجی کابل سے نکلے ہیں تو صرف ایک برھانوی شہری اسسٹنٹ سرجن ڈاکٹر برائڈن جلال آباد کے راستے چھ روز بعد زندہ نکل پائے
اس وقت کٹھ پتلی حکومت کے سربراہ شاہ شجاع تھے اور اشرف غنی ہیں ۔ اور مخالفین اس وقت غلزئی قبیلے سے تھے اور حکمت یار کا تعلق اور طالبان کے جنگجوؤں کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔

اکتوبر 1963 میں جب ہیرلڈ میکملن حکومت وزیر اعظم ایلک ڈگلس کے سپرد کر رہے تھے تو انہوں نے ایلک ڈگلس کو ایک مشورہ دیا۔ ’جب تک تم افغانستان پر حملہ نہیں کرتے تب تک تمہیں حکومت کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔‘

افغانستان میں محمد زئی خاندان کا آخری حکمران سردار محمد دائود خان تھا جو تادمِ مرگ مادرِوطن کی نگہبانی کرتا رہا۔ 27 اپریل 1978ء کو ان کی وفات کے بعد روس نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان نے نورمحمد ترکئی کی سربراہی میں زمامِ حکومت سنبھالی۔ آٹھ اور نواکتوبر 1979ء کی درمیانی شب پولیٹیکل بیورو کے حکم سے نور محمد ترکئی ہلاک کردیئے گئے۔ 16ستمبر 1979ء کو حفیظ اللہ امین برسرِ اقتدار آئے مگر 27 دسمبر1979ء کو انہیں زخمی ہونے کے بعد پھانسی دی گئی۔ اس روز روس کے وفادار کمیونسٹ افغان رہنما ببرک کارمل کو اقتدار سونپا گیا۔ جن کے دورِ حکومت میں 24اور27دسمبر 1979ء کے درمیانی عرصہ میں سوویت فوجی افغانستان میں داخل ہوئے۔روسیوں کے خلاف افغانستان میں جہاد کااعلان کیا گیا۔ لاکھوں افغان مہاجر ہوئے۔ ہزاروں شہدانے قربانیاں دیں۔
سوویت یونین کے خلاف جہاد میں کلیدی کردار ادا کرنے والے گلبدین حکمت یار
1947 کو شمالی افغانستان کے صوبہ قندوز کے ضلع امام صاحب میں پیدا ہوئے-ان کا تعلق غلزئی پشتونوں کے خروٹی قبیلے سےہے-
حکمتیار نے 1968 میں ملٹری اکیڈمی جوائن کی مگر چند برس بعد ہی اسلامی خیالات کے باعث انہیں ملٹری اکیڈمی سے نکال دیا گیا-یہاں سے نکلنے کے بعد حکمتیار نے کابل یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ میں داخلہ لیا- اور پھر انجینئرنگ کو بھی ادھورا چھوڑ دیا -لیکن ان کے چاہنے والے انہیں انجیئنر گلبدین حکمتیار کہ کر ہی پکارتے ہیں ۔
ببرک کارمل کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ برسرِ اقتدار آئے جنہیں1998ء میں طالبان حکومت کے وجود میں آنے کے بعد کابل میں پھانسی دی گئی۔ چھ سال تک طالبان برسرِ اقتدار رہے۔ 2001ء میں یہاں ایک اور سپرپاور امریکہ نے روس کے انجام کے عبرت سے بے خبر ہوکر حملہ کیا اور طالبان حکومت کے سقوط کے بعد اپنے من پسند حکومت کو تشکیل دیا
اب 18 سال بعد امریکہ و نیٹو افواج کے ہوش ٹھکانے آچکے ہیں اور واپسی کے  محفوظ راستے تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے لیکن افغانستان مین داخلے کے تو بے شمار راستے ہیں لیکن  واپسی کا صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور وہ ہے ذلت کا راستہ !

Thursday 20 December 2018

مرد اور مردانگی

بعض دوستوں نے استفصار کیا کہ ’’مرد کون ہے اور مردانگی کیا ہے؟ ‘‘

اور جب اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس پر تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ رسولِ کریم ﷺ کی ایک ایک ادا میں مردانگی کی جھلک ہے‘ صحابہ کرامؓ کی سیرت مردانگی سے تعبیر ہے‘ امت کے ہر مایہ ناز شخصیت کی زندگی کا سب سے قیمتی جوہر مردانگی ہی رہا ہے اور علامہ اقبال رح کا مرد مومن بھی بھرپور مردانگی کا مظاہرہ کرنے والا ہے۔

لیکن آج اکثر مسلمان مرد اور مردانگی کے اسلامی تعریف اور اوصاف سے لا علم ہیں۔

اسلام میں اچھے کردار و عمل اورعمدہ اخلاق و عادات کا مالک شخص ہی صحیح اور حقیقی’ مرد ‘ ہے اور مردانگی مردوں سے متعلق تمام اعلٰی اوصاف مثلاً صحیح رائے‘ پاکیزہ کلام‘ مروت‘ شجاعت‘ وقار‘ تعاون اور باہمی ہمدردی و غم خواری وغیرہ کے مجموعے کا نام ہے۔

جبکہ عام مسلمانوں میں آج بھی مردانگی کا جاہلانہ تصور ہی قائم ہے یعنی جو بظاہر خوبصورت‘ لمبا چوڑا اور تمام قویٰ میں کامل اور ظاہری حسن و جمال کا مالک ہو‘ وہ اچھا آدمی یا مرد ہے حالانکہ مردوں کے جسموں کی ضخامت اور حسن و جمال مردانگی کا پیمانہ نہیں۔

مردانگی زنانگی کی ضد ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسلمان نوجوان فطرت اور اسلام سے انحراف کرکے رسوا کن نسوانی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ جبکہ اسلامی آداب مکمل مردانگی سکھلاتے ہیں جس میں نسوانی حرکات و مشابہات کا شائبہ بھی نہ ہو۔

مغرب کی تقلید میں ناچنے گانے والوں کو آئیڈیل سمجھنے والے مسلم نوجوان چہرے مہرے‘ وضع قطع‘ لباس اور زیب و زینت میں نسوانیت سجائے‘ گلے و ہاتھ میں پٹے یا چین اور کان میں بالی ڈالے‘ لمبے لمبے بال رکھے‘ نزاکت بھری چال ڈھال اور رقاصاؤں کی طرح رقص کرنے اور تھرکنے میں عورتوں سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی کو مردانگی سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ یہ تمام حرکات فطرتِ انسانی سے بغاوت‘ اخلاقی گراوٹ اور برائی کی جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ’’عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ‘‘۔(صحیح بخاری ۔۵۵۴۶)

سیکولر میڈیا کی فحاشی‘ بے حیائی اور فطرتِ انسانی کو مسخ کرنے کی یلغار نے انسانی اذہان سے مردانگی کی خصائص و اوصاف کو اِس طرح محو کردیا ہے کہ آج مسلمانوں کو ہی معلوم نہیں کہ مرد کیا ہوتا ہے اور مردانگی کسے کہتے ہیں؟

کیا یہ مردانگی ہے کہ اپنی طاقت صرف عورتوں پر آزمائی جائے؟

کیا یہ مردانگی ہے کہ اپنی جوانی کو شہوت پرستی کی نذر کی جائے؟

کیا یہ مردانگی ہے کہ نشے اور رقص وسرور میں غرق رہا جائے؟

کیا یہ مردانگی ہے کہ معاشرے میں فحاشی و بے حیائی پھیلائی جائے؟

کیا یہ مردانگی ہے کہ جھوٹ‘ فریب‘ مکر و چالبازی کی سیاست کی جائےَ؟

کیا یہ مردانگی ہے کہ ہر کمزور پر ظلم کیا جائےاور ہر طاقتور کو خدا سمجھا جائے؟

یہ مردانگی نہیں بلکہ جہالت ہے اور ایسے لوگ مرد نہیں بلکہ مرد کے بھیس میں کچھ اور ہی ہیں۔

عربی میں مرد کو ’ رجل‘ کہتے ہیں۔ آیاتِ قرآنی میں ’ر۔ج۔ل‘ مادے پر مشتمل کلمات سے ’’ مرد اور مردانگی ‘‘ کے جو معانی و مفاہیم اور خصوصیات بیان ہوئے ہیں ‘ وہ درج ذیل ہیں:

(1) مرد کو قول و قرار کا سچا‘ وعدہ وفا کرنے والا اور ثابت قدم رہنے والا ہوتا ہے:

مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ﴿ سورة الأحزاب : ٢٣ )

’’ مومنوں میں سے کچھ ’ مرد ‘ ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کر دکھایا ہے‘ ان میں بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ‘‘

(2) مرد وہ ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت الله کے ذکر اور نماز و زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (سورة النور: ٣٧ ﴾

’’ مرد وہ ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت الله کے ذکر اور نماز و زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی ‘‘

(3) رب کائنات نے نبوت و رسالت کی عظیم ترین ذمہ داریوں کا اہل مردوں کو ہی بنایا:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ ...( سورة يوسف ۱۰۹)

’’ اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ’ مرد ‘ ہی تھے جن کی طرف ہم نے وحی بھیجی۔‘‘

(4) مردانگی توحید کے دفاع اور اللہ کیلئے نصیحت و خیر خواہی کی ذمہ داری اٹھانے پر آمادہ کرتی ہے:

وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ ﴿القصص:۲۰﴾

’’ اور شہر کے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا‘ اس نے کہا: اے موسٰی! سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوں۔‘‘

(5) مردانگی دشمن کو حکمت و دانائی اورجرأت و بیباکی کے ساتھ حق پہچانے اور مخالفاتِ شرعیہ سے روکنے اور حق پر قائم لوگوں کی مدد و نصرت کرنے کا نام ہے:

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّـهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ﴿ المؤمن : ۲۸﴾

’’ اور فرعون کی قووم کا ایک مردِ مومن نے کہا جو دل میں اپنا ایمان چھپائے ہوئےتھا: کیا تم ایک آدمی کو صرف اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس بیّنات (معجزات) لے کر آیا ہے ‘ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کی وہ تمہیں دھمکی دیتا ہے وہ تمہیں پہنچ کر رہے گا۔ بیشک اللہ زیادتی کرنے اور جھوٹ بولنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

لہذا معلوم ہوا کہ مردانگی ایک خاص وصف ہے بلکہ اوصاف کا مجموعہ ہے جو اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کا خاصّہ ہے جس کی بلندی سے انبیاء علیہم السلام اور ان کے اصحاب سرفراز ہوتے ہیں ۔

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

نبی اکرم ﷺ مردانگی کے معراج پر تھے اور مردانگی کے اوصاف سے مزین ایک مرد کے انتظار میں تھے جو آپ ﷺ کا معاون و مددگار بن کر دعوتِ حق کی نشر و اشاعت اور اسلام کی عزت و سربلندی کا باعث بنے اور اس کو طلب کرتے ہوئے آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی:

’’ اے اللہ! ان دو مردوں میں سے جو تجھے زیادہ پیارا ہے اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما: ابوجہل یا عمر بن الخطاب سے‘‘۔( مسند احمد ۔ جلد سوم ۔ حدیث 1222)

اللہ سبحانہ و تعالٰی نے دعا قبول فرمائی اور سیدنا عمرؓ اسلام قبول کرکے اسلام کے سب سے بڑے خیر خواہ بن گئے اور تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ پہلے مسلمان کھل کر اسلام کا اظہار نہیں کرپاتے تھے مگر جب سیدنا عمرؓ مسلمان ہوگئے تو مسلمان سرِ عام اسلام کا اطہار کرنے لگے‘ حتی کہ سیدنا ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:

’’ جب سے عمرؓ مسلمان ہوئے ہیں تب سے ہم معزز و مکرم ہوگئے ہیں۔‘‘ (طبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم: 8820 )

سیدنا عمر فاروقؓ کی مردانگی ان کی جسمانی قوت یا گھوڑ سواری میں مہارت جیسی صفات کی وجہ سے نہیں تھی کیونکہ ان صفات میں کئی قریشی ان سے بڑھے ہوئے تھے۔ آپؓکی مردانگی کا راز آپؓ کی قوتِ ایمانی اور عظیم شخصیت میں پوشیدہ تھاجو آپؓ کی عزت و وقار اور رعب و دبدبے کا باعث تھا۔

صحابہ کرامؓ نے چھپ چھپا کر ہجرت کی لیکن سیدنا عمر فاروقؓ نے گلے میں تلوار لٹکائی اور کعبہ شریف پہنچ کر طواف ونماز سے فارغ ہو کر پوری قوم کے سامنے بر سرعام اپنی ہجرت کا اعلان کرتے ہوئے کہا:

’’ جو کوئی چاہتا ہے کہ اسے اس کی ماں اسے گم پائے‘ جو چاہے کہ اس کے بچے یتیم ہوں اور جو چاہے کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے‘ وہ اس وادی کے پار میرے مقابلے کیلئے نکل آئے۔‘‘(اسدالغابة لابن الاثیر: ص:۸۱۹)

حضرت عمرؓ کی ان باتوں سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور لیکن کسی کو انہیں روکنے کی جرأت نہ ہوسکی۔

دبدبے سے جن کے جھکتے تھے سرافرازوں کے سر
جنکا لوہا مانتے ہیں حکمران بحر و بر

حضرت عمرؓ خود بھی مردانگی کے جوہر سے مالامال تھے اور لوگوں میں مردانگی سکھانے کا پروگرام بھی وضع کرتے رہتے تھے۔ایک دفع فرمایا:

’’ اپنے بچوں کو تیر اندازی‘ تیراکی اور گھوڑ سواری سکھلاؤ اور انہیں اچھے اشعار سنایا کرو۔ ‘‘ (مصنف عبدالرزاق (۹/۱۹)
اسی طرح آپؓ نے مریل چال چلتے ہوئے نوجوان کو سرزنش کی اور فرمایا: ’’سر اٹھا کر چل، اسلام مریض نہیں‘‘

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اپنی جھوٹی مردانگی دکھانے کیلئے متکبرانہ چال ڈھال اوراندازِ گفتگو اپنایا جائے بلکہ مردانگی نام ہے معتدل اور متوازن چال ڈھال اور رویّے کا جس میں انتہائی کمزوری کا اظہار بھی نہ ہو :

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿١٨﴾ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (لقمان:19)
’’اور لوگوں سے( تکبر میں) اپنامنھ نہ پھیر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، بیشک اﷲکسی متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو پسند نہیں کرتا ‘ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ‘‘ ۔

حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے: ’’ میں لوگوں کیلئے نرم خو ہوں‘ یہاں تک کہ اس نرمی میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ پھر سخت گیر بھی ہوں اور اس سختی میں بھی اللہ سے ڈرتا ہوں۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ اپنے دل میں خوف اور خشیت رکھتا ہوں‘‘۔ (حکمراں صحابہؓ: حضرت عمر بن خطابؓ صفحہ ۱۵۲ از محمود احمد غضنفر)

مردانگی یہی ہے۔ مردانگی متوازن و معتدل کردار کا نام ہےجو اطیع اللہ اور اطیع الرسولﷺ سے نکھر کر بلندی پر پہنچتا ہے۔

نہ صرف حضرت عمر فارقؓ بلکہ تمام صحابہ کرامؓ میں مردانگی بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔

کیونکہ صاحب خلق عظیم ﷺ مکارم اخلاق کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اوصافِ مردانگی کو بھی پروان چڑھا گئے جس سے صحابہ کرامؓ سرفراز ہوئے اور ساری دنیا میں مردانگی کے جوہر دکھائے۔ وقت کے سپر پاور قیصر و کسریٰ کو نیست و نابود کرکے بحر و بر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑھے:

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

جب مرد کے دل و دماغ اور جسم و روح کتاب و سنت کی حکومت قائم ہوتی ہے تو اس میں مردانگی اپنی بلندی کو پہنچتی ہے اور اس بے مایہ انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں بینی و جہاں بانی کے جوہر کھلتے ہیں اور یہی لوگ علم و دانش اور تہذیب و ثقافت کے جلوے بکھیرتے ہیں۔

آج باہمت مسلمان نوجوانوں کو مردانگی کے ان ہی اوصاف سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے جواطیع اللہ و اطیع الرسولﷺ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اپنا کر ممکن ہے۔جو لوگ اسے پالیں گے وہ دنیا وآخرت رفعت و بلندی سے سرفراز ہونگے۔

دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے

جو مردانگی کے بجائے زنانگی اپناتے ہیں وہ مرد نہیں بلکہ مرد کا لباوہ اوڑھے کچھ اور ہی ہیں۔ ایسے بے غیرت مرد ہر عورت پر صرف شہوت کی نظر ڈالتے ہیں‘ یہاں تک کہ اپنی ماں‘ بہن‘ بیوی‘ بیٹی ‘ بہو یا کسی بھی نسوانی رشتے کی محافظ بننے کے بجائے غاصب بن جاتے ہیں۔لہذا گھر برباد ہوتے ہیں‘ معاشرے بگڑ جاتے ہیں‘ امت کمزور پڑ جاتی ہے اور مردوں کی حاکمیت و قوّامیت ختم ہوجاتی ہے:

لرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ…(سورة النساء : ۳۴)
’’ مرد عورتوں پر قوّام ہیں اس لئے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے‘‘

جبکہ مردانگی تو یہ بھی ہے کہ مرد عورتوں پر قوّام‘ ہو یعنی عورتوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا‘ نگرانی و خبر گیری اور خیر خواہی کرنے والا‘ کفالت کرنے اور خرچ اٹھانے والا‘ گھر کا حاکم و منتظم ہو۔

لیکن افسوس کہ آج اکثر مسلمان مرد ’ قوّام‘ بننے کے لائق نہیں۔

بڑے بڑے جسم رکھنے کے باوجود قولِ حق اور حکمت سے عاری زبان اور عقل سقیم کے مالک ‘نفسانی خوہشات کے غلام ‘ دنیوی لذتوں کے دلدادہ ‘ انسانیت کے بلند مقاصد سے دستبردار اور اپنے خالق سے منھ موڑ لینے والے‘ مرد نہیں بلکہ مردوں کا بھیس بنائے انسانیت کی تذلیل کرنے والے ہیں۔
مرد تو وہ نوجوان ہیں جن کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔
مرد تو وہ شخص ہے جو پوشیدہ طور پر صدقہ کرتا ہے کہ اس کے دوسرے ہاتھ کو پتہ بھی نہیں چلتا۔
مرد تو وہ لوگ ہیں جو راتوں کو اکیلے میں اللہ کو یاد کرتے ہیں تو خشیتِ الٰہی سے انکے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔
مرد تو وہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کیلئے محبت کرتے ہیں‘ اسی پر اکٹھے ہوتے ہیں اور اسی پر علیحدہ ہوتے ہیں۔
مرد تو وہ لوگ ہیں جو تنگدشتی کے باوجود حرام اور کرپشن سے بچتے ہیں اور حق و حلال کی روزی پر گزارا کرتے ہیں۔
مرد تو وہ نوجوان ہیں جسے عالی نسب حسن و جمال کی ملکہ دعوتِ گناہ دے اور وہ کہہ دے: ’’انی اخاف اللہ ۔( میں اللہ سے ڈرتا ہوں)‘‘
ایسی ہی مردانگی کے حامل لوگوں کو اللہ تعالٰی قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جس دن عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔

بے شک یہی عباد الرحمٰن یعنی رحمٰن کے حقیقی بندے اور حقیقی مرد ہیں جیسا کہاللہ کا فرمان ہے:

وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴿٦٣﴾وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا﴿٦٤﴾وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖإِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا﴿٦٥﴾إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا﴿٦٦﴾وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا﴿٦٧﴾ الفرقان
’’ اور رحمان کے (حقیقی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔جو دعائیں کرتے ہیں کہ "اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔وہ بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے" ۔جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔‘‘

اسلامی تاریخ مردانگی کے جوہر دکھانے والے رجال سے بھری پڑی ہے۔لہذا جو لوگ اوصافِ مردانگی سے مالامال ہونا چاہتے ہیں وہ اسوۂ حسنہ ﷺ اور سیرتِ صحابہ کرامؓ اور سیرتِ صالحینِ امت سے انہیں چُن کر خود اپنائیں ‘ اپنے بچوں کی اسی بنیاد پر تربیت کریں اور اس قحط الرجال کے دور میں مردانگی کے جوہر سے بھر پور رجال / مرد امت کو فرام کرنے کی سعی کریں۔

اس مضمون کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ آج ہم مسلمانوں کے پاس روح کو غذا پہنچانے اور کردار سازی کیلئےوقت بہت کم ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تحریر مسلمان مردوں میں مردانگی کا جو جاہلانہ تصور ہے اسے ختم کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہے تو صدقۂ جاریہ کے طور پر اسے آگے شیئر کیجئے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کیجئے۔