Tuesday 26 June 2018

پی ٹی آئی ۔اندر کا کھیل.................

پشتو کا ایک مقولہ ہے کہ نادیدہ والدین کے گھر بچے کی پیدائش ہوئی تو چوم چوم کر اسے مار دیا گیا۔ ابھی انتخابات ہوئے ہیں اور نہ اکثریت ملی ہے لیکن پی ٹی آئی کے اندر وزارت اعلیٰ سے لے کر وزارت عظمیٰ تک کے لئے لڑائیاں زورپکڑگئی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک اور اسد قیصر کے مابین لڑائی زوروں پر ہے۔ اور تو اور مردان سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر عاطف خان جنہیں لوگ پختونخوا کے نعیم الحق کے نام سے یاد کرتے ہیں بھی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں لگ گئے ہیں۔ سب ایسے لوگوں کے لئے ٹکٹ کے حصول میں مگن رہے جو ان کے گروپ کے بندے ہیں اور ان کو فیل کرانے میں لگے ہیں جو مخالف وزیراعلیٰ کے گروپ کا سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں پرویز خٹک نے سابق گورنر خیبر پختونخوا اورمقبول ترین امیدوار جنرل(ر) افتخار حسین شاہ کو اس لئے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہ دیا کہ وہ وزارت اعلیٰ کے متوقع امیدوار ہوسکتے تھے۔ چنانچہ اب جنرل صاحب پی ٹی آئی چھوڑ کر آزاد انتخاب لڑ رہے ہیں۔ حالانکہ اب کی بار پنجاب میں تو پی ٹی آئی جیت سکتی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں امکان اس لئے نہیں کہ وہاں کے لوگ اپنی آنکھوں سے پی ٹی آئی کی حکمرانی کو دیکھ بلکہ بھگت چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے وہ سابق اور زبان دراز ممبران قومی اسمبلی جو ٹی وی پر جھوٹ بول کر پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگوں کو پختونخوا حکومت کے بارے میں گمراہ کرتے رہے آج اپنے حلقوں میں عوام کا سامنا بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں عاطف خان ہوں کہ مراد سعید ، علی محمد خان ہوں کہ شہریار آفریدی سب اپنے اپنے گائوں کایونین کونسل الیکشن ہار چکے اور تبھی تو علی محمد خان اور شہریار آفریدی کو اب کی بار ٹکٹ بھی نہیں دیا جارہا تھا لیکن جب کوئی دوسرا امیدوار نہیں ملا تو مجبوراً ان کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ سندھ اور بلوچستان میں تو چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت کا کوئی امکان نہیں اس لئے وہاں آپس کی جنگ نہیں لیکن تماشہ یہ ہے کہ پنجاب میں ابھی سے یہ جنگ گرم ہوگئی ہے۔ وزارت اعلیٰ کے نصف درجن سے زائدامیدوار سامنے آگئے ہیں جن میں سرفہرست شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری ہیں۔ دونوں ہر جگہ ایک دوسرے کی شکایتیں کرنے میں سرگرم عمل ہیں حالانکہ جہانگیر ترین نے وہاں کی وزارت اعلیٰ کے لئے اپنے ایک اور بندے کو تیارکر رکھا ہے۔ ابھی نہ جانے انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اور نہ جانے پی ٹی آئی جیتتی ہے یا نہیں لیکن یہ تینوں گروپ ابھی سے ایک دوسرے کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔ سب سے دلچسپ تماشہ وزارت عظمیٰ کا ہے۔ عمران خان صاحب خود اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھ بیٹھے ہیں۔ کام لینے کے لئے ان کو بتایا بھی جارہا ہے کہ آپ ہمارے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ ان کی جماعت کے کارکن بھی ان کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خلوتوں میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمرلوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ اصل امیدوار وہ ہیں۔ وہ یہ خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں کہ پہلے تو عمران خان اس وقت تک نااہل ہوجائیں گے اور اگر نااہل نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں کے ساتھ یہ طے ہوا ہے کہ دیگر جماعتیں عمران خان صاحب کو بطور وزیراعظم تسلیم نہیں کریں گی اور ان کی طرف سے یہ شرط رکھی جائے گی کہ کسی تیسرے بندے کو لے آئیں۔ یوں قرعہ فال ان کے نام نکلے گا۔ چونکہ جہانگیر ترین کے علاوہ ایمپائروں سے رابطہ بھی زیادہ تر ان دونوں کا ہوتا ہے اس لئے وہ وہاں زیادہ تابعدار اور پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے باپ دادا کے دور سے یہی کام کیا ہوا ہے اور درپردہ سازشوں اور جوڑ توڑ میں بہت تیز ہیں ، اس لئے بظاہر ان کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن اسد عمر بھی بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے والد جنرل (ر) محمد عمر (سانحہ مشرقی پاکستان کے ایک اہم کردار) کے نام اور روابط کو استعمال کررہا ہے۔ ان کی ہوشیاری کا یہ عالم ہے کہ خود پیچھے رہ کر انہوں نے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی لڑائی کو گرم کررکھا ہے اور وہ ترین کے ذریعے شاہ محمود قریشی کو آئوٹ کرکے اپنے لئے میدان صاف کرنا چاہتے ہیں۔ اسد عمر کی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ ان کے لئے ان کے بھائی زبیر عمر جو میاں نوازشریف کے دست راست ہیںاور بطور گورنر سندھ اہم حلقوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں، بھی بڑی مہارت مگر خاموشی کے ساتھ لابنگ کررہے ہیں۔
تاہم اس وقت جو لڑائی سب سے زیادہ پی ٹی آئی کو متاثر کررہی ہے وہ جہانگیر ترین اورشاہ محمود قریشی کی لڑائی ہے اور جو کسی حد تک سامنے بھی آگئی ہے۔ یہ دونوں حضرات کئی حوالوں سے ہم پلہ ہیں۔ دونوں ایک علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں ایک ہی ریٹائرڈ جنرل صاحب کے ذریعے اور گارنٹی سے پی ٹی آئی میں آئے تھے۔ دونوں ماضی میں وفاقی وزیر رہ چکے ہیں اور اب دونوں کی خواہش وزارت سے بڑھ کر کوئی منصب ہے۔ دونوں کے درمیان عمران خان کا نمبرٹو بننے کی دوڑ لگی تھی جبکہ دونوں کے پاس بے تحاشہ دولت ہے۔ تاہم شاہ محمود قریشی کنجوس اور جہانگیرترین انوسٹمنٹ کی نیت سے سے سہی لیکن کھل کر دولت لٹانے والے ہیں۔ اس لئے بازی جہانگیرترین لے گئے اور وہ عمران خان صاحب کے بعد دوسرے بااختیار فرد بن گئے۔ گزشتہ برسوں کے دوران جتنے سرمایہ دار اور جاگیر دار پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، ان میں نوے فی صد سے زیادہ ان کے ذریعے آئے اور وہ گویا ان کے گروپ کے لوگ ہیں۔ یوں شاہ محمود قریشی کا پتا انہوںنے تقریباً کاٹ دیا تھا لیکن ترین صاحب کو سپریم کورٹ سے نااہلی نے خراب کردیا۔ سپریم کورٹ سے نااہلی کے بارے میں ان کی سوچ یہ ہے کہ عمران خان کو بچانے کے لئے ان کی قربانی دی گئی۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے بھی کردار ادا کیا۔ البتہ وہ زیادہ دکھی خود خان صاحب سے ہیں لیکن مجبوراً اب اس لئے اظہار نہیں کرسکتے کیونکہ اس صورت میں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مخالفین کاکام اور بھی آسان ہوجائے گا۔ دراصل جہانگیر ترین کے خلاف عدالتی فیصلے سے ایک ماہ قبل عمران خان صاحب نے اپنے لئے متبادل جہاز کا انتظام کسی اور چینل سے کرنا شروع کیا تھا جس کا جہانگیر ترین کوبھی علم ہوگیا۔ اس سے وہ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ ان کی نااہلی کا ان کے لیڈر اور دوست کو بھی پہلے سے اندازہ تھا۔ دوسری طرف عدالتی فیصلے کے بعد اب عمران خان صاحب نے ان کے جہاز کا استعمال بھی بہت کم کردیا ہے۔ وہ زیادہ تر اب کسی اور کے جہاز استعمال کرتے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی کو جتنا پہلے انہوں نے نظرانداز کرلیا تھا ، اتنا ہی اب دوبارہ اِن کردیاہے۔ شاید یہ بھی دکھ کے اظہار کا ایک طریقہ تھا کہ ترین صاحب نے اپنے بیٹے سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ واپس کروا دیا۔ تاہم ترین صاحب کی سرمایہ کاری اتنی زیادہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو کسی صورت چھوڑ نہیں سکتے۔ ان کے دل میں عمران خان کی طرف سے بے وفائی کا قلق ضرور ہے لیکن وہ اسے ان پر یا دوسرے لوگوں پر کسی صورت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ اب تماشہ یہ ہے کہ بظاہر جہانگیرترین صاحب نااہلی کے بعد دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں اور اسی لئے عمران خان صاحب نے بھی ان پر انحصار کرنا کم کردیا ہے لیکن دوسری طرف جو امیدوار اور پارٹی عہدیدار میدان میں ہیں، ان کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو جہانگیرترین کے ذریعے آئے ہیں۔ یوں ترین صاحب ایسا گیم کھیلنا چاہتے ہیں کہ پارٹی کامیاب بھی ہو لیکن اس کی شکل ایسی ہو کہ ان کے مخالفین یعنی شاہ محمود قریشی اور اسدعمر کا کھیل کامیاب نہ ہو۔ جبکہ قریشی صاحب اور اسد عمر کی خواہش ہے کہ پارٹی جیت جائے لیکن جیت ایسی ہو کہ اس میں خودخان صاحب کا وزیراعظم بننا ممکن نہ ہو۔
معروف کالم نگار۔۔۔۔۔سلیم صافی کی قلم سے

Daras-e-Toheed

The Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said, "I am one of those lucky people who had the privilege of believing in the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him), but his parents Shortly afterwards, Musharraf became a dictator. As a result of Quresh, a delegation came to him, all Qureshi used to honor his great literature, he said to the participants: "This person has kept us very tight." Everything that makes the idol remains. Everywhere you make them happy, you are a wise and dependent man, go and understand them.
So the Sacrifice took a delegation from the nation and brought the wish of the Holy Prophet to the eighth, the other people stayed outside and the companions were blinded themselves. When the Prophet (saw) saw him, he said to the council Imran Bin Sakhin was already present there. The section tells you that you call our gods equally and condemn them, is it right?
The Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) How many gods do you worship, he said, we worship seven gods, who are in the earth and one God who is in the heavens. The Prophet (PbUH) asked: "If you get any harm and hurt He said, "The God who is in the heavens, then ask," If the livestock is destroyed, then who asks, "He said to one of the heavens of the heavens."
You are very sorry that your prayers accept a heavenly God, but when you worship the time, you start worshiping the virtuous and virtuous gods of the earth, do you like this polytheism? O mysteries! Accept Islam, so that you can avoid punishment. The curtains arise from the eyes of the Prophet when he saw the horror. He accepted Islam at the same time. His son Imran was not pleased with joy, he kissed his father's head, kissed his father's head and kissed his hands and legs. The Prophet (PbUH) saw this, when he saw it tears flow, and said,
"I am impressed by the behavior of Imran so much. When the sections came here, Imran stayed sitting, when he became Muslim, Imran got racing to his father and expressed his love for him. "The companions returned back, and the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) ordered his companion that The parts reach their home. When they stepped out of Delhi, they looked at the face of Masrat and Noor on their face, that they broke the relationship with infidelity. (السیرۃ الحلیبیہ)

Saturday 23 June 2018

ترکی الیکشن، توقعات و خدشات کیا ہیں

کل 24 جون کو ترکی کی تاریخ کا سب سے بڑا الیکشن ہونے جارہا ھے
یہ اس لحاظ سے اہم ھے
کہ
اس الیکشن میں جیتنے والا 2023 تک حکمران رہے گا
یاد رہے
کہ
2023 ہی وہ سال ھے
جب ترکی اپنا صد سالہ جشن منارہا ہوگا
یہی وہ سال ہوگا
جب 100 سال پورے ہونے پر
" معاہدہ لوزین " ختم ہوجائے گا
اور
ترکی متحدہ یورپی افواج کی عائد کردہ سخت شرائط سے باہر نکل آئے گا
جس کی رو سے ترکی اپنی زمین میں تیل و گیس کیلئے کھدائی نہیں کرسکتا
اور
اپنی باسفورس جیسی اہم عالمی بحری تجارتی گزرگاہ پر کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں لے سکتا
معاہدہ لوزین ترک قوم پر مزید بے شمار پابندیاں بھی عائد کرتا ھے
جس کا بنیادی مقصد ترکی کو معاشی ترقی سے روکنا اور بے بس کردینا ھے
معاہدہ لوزین پر پھر کسی نشست میں بات کریں گے
سردست حالیہ ترکی الیکشن پر بات کرتے ہیں
ترکی پارلیمنٹ میں کل 600 ارکان ہوتے ہیں
جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں
ترکی کے قانون کی رو سے وہی پارٹی پارلیمنٹ میں داخل ہوسکتی ھے
جو کل انتخابی ووٹوں کا دس فیصد حاصل کرے
یوں
اگر کوئی رکن انفرادی طور سے جیت بھی جائے
تو اس کی جیت کا انحصار پارٹی کے کل ووٹوں کے دس فیصد ووٹ حاصل کرنے پر ہوتا ھے
حالیہ ترکی الیکشن اس لحاظ سے اہم ھے
کہ
اس میں بڑے ووٹر ٹرن آؤٹ کی توقع کی جارہی ھے
ترکی انتخابی تاریخ میں ووٹر ٹرن آؤٹ کو دیکھا جائے
تو سب سے زیادہ ووٹر 1988 میں باہر نکلا تھا
جس کا تناسب %86 فیصد ھے
یہ ترکی کی تاریخ کا سب سے زیادہ ووٹر  ٹرن آؤٹ تھا
حالیہ انتخابات میں بھی بڑے ٹرن آؤٹ کی توقع کی جارہی ھے
کیونکہ
صدارتی نظام کے بعد یہ پہلا الیکشن ھے
جب ترک قوم اپنے صدر اور ارکان پارلیمنٹ کا ایک ہی دن انتخاب کرے گی
ہر شخص دو ووٹ ڈالے گا
صدر کیلئے ووٹ
اور
اپنے رکن پارلیمنٹ کیلئے ووٹ
پورا یورپ سانس روکے ہوئے اس الیکشن پر نظریں جمائے ہوئے ہیں
فرانس ، جرمنی جیسے بڑے ممالک سے لے کر آسٹریا جیسے چھوٹے سے ملک تک میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ ترکی کا الیکشن ھے
تمام تر مغربی میڈیا پر ترکی الیکشن چھایا نظر آتا ھے
انتخابات کا جائزہ لینے پر مامور تمام یورپی و امریکی تنظیمیں استنبول میں خیمے گاڑچکی ہیں
روز سروے کروائے جارہے ہیں
انتخابی رپورٹیں اپنے اپنے ممالک کو ارسال کی جارہی ہیں
میڈیائی تجزیوں سے رائے عامہ کا ذہن بنایا جارہا ھے
خوف سمیت ہربہ استعمال کیا جارہا ھے
واشنگٹن سے تل ابیب
اور
برلن سے ریاض تلک ایک بے چینی سی بے چینی ھے
یہ اردگان کا خوف ھے
یہ اسلام پسندوں کی پھر سے کامیابی کا خوف ھے
اب تو اردگان کے پاؤں میں پارلیمانی بیڑیاں بھی نہیں ہیں
کہ
صدارتی نظام آچکا ھے
جس میں اردگان ہی اختیارات کا مرجع ھے
اسلئے
دلچسپی میں مزید اضافہ ہوچکا ھے
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں
کسی بھی صدارتی امیدوار کو جیتنے کیلئے کل ووٹوں کا %50  حاصل کرنا ضروری ہے
ورنہ
صدارتی الیکشن کا دوسرا دور منعقد ہوگا
جو پہلے دو قریب ترین حریفوں کے درمیان ہوگا
سارا یورپ دوسرے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی پیشنگوئیاں کررہا ھے
کہ
اردگان کو دوسرے مرحلے پر چت کرنے کا منصوبہ بنایا جاچکا ھے
آئیے صدارتی الیکشن اور امیدواروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں
1۔۔۔
سب سے اہم صدارتی امیدوار
رجب طیب اردگان ہیں
جناب رجب طیب اردگان
ایم ایچ پی یعنی ملی حرکت پارٹی
نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی
اور
حکمران " آق " پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہیں
یہ تین جماعتیں مل کر " اتحاد جمہور " کے نام سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں
اردگان کی وجہ شہرت
ان کا عوامی مزاج ،
ترکی کی مضبوط معاشی ترقی
اور
عظیم ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل کرنا ھے
اب تک اردگان نے تعمیراتی اعتبار سے بے شمار بڑے منصوبے مکمل کروائے ہیں
ان میں شہروں اور صوبوں کو ملانے والی چوبیس ہزار کلومیٹر رابطہ سڑکیں جدید اور دو طرفہ بنادی گئی ہیں
جس سے ٹریفک کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا ھے
اور
حادثات کی شرح بھی بہت حد تک کم ہوگئی ھے
مزید کئی ہزار کلومیٹر رابطہ سڑکوں کو کھلا کرنے اور دو طرفہ کرنے کا کام تیزی سے جاری ھے
اس کے ساتھ ساتھ
استنبول شہر میں یورپ اور ایشیاء کے دونوں  حصوں کو باہم ملانے کیلئے نہ صرف نیا پل بنایا گیا ھے
بلکہ
باسفورس کے سمندر کے نیچے جدید سرنگ بھی بنائی گئی ھے
جس میں سے گاڑیاں اور ٹرک ہی نہیں
بلکہ
ریل کاریں بھی گزر کر آر پار جاسکتی ہیں
اسی طرح
استنبول کے شمال میں اگلے سو سال کی ضروریات کے مطابق ایک عظیم الشان ہوائی اڈہ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ھے
حالیہ الیکشن میں اردگان نے اعلان کیا ھے
کہ
الیکشن میں کامیابی کے بعد
آبنائے فاسفورس پر بڑھتے ہوئے تجارتی جہازوں کے بوجھ کو بھی کم کیا جائے گا
اور
استنبول میں قرہ بورون کے ساحلی علاقے میں دو سمندروں کو ملانے کیلئے ایک نئی رابطہ نہر تعمیر کی جائے گی
جو سویز کینال اور پانامہ کینال کی طرز پر
بحیرہ اسود کو  بحیرہ مرمرہ سے ملائے گی
یوں ایک نیا تجارتی راستہ وجود میں آئے گا
جو ترک بحری تجارت کو بلندیوں پر لے جائے گا
اس منصوبے پر بیسیوں ارب ڈالر لاگت آنے کا امکان ھے
اس سے آبنائے فاسفورس پر تجارتی جہازوں کا بوجھ کم ہوجائے گا
جو اس وقت اس حد تک بڑھ چکا ھے
کہ
بسا اوقات ایک جہاز کو گزرنے کیلئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ھے
اردگان نے جوہری طاقت حاصل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ھے
ترکی میں اسلام پسندی کی لہر کو دیکھا جائے
تو
1923 کے بعد ترکی میں اسلامائزیشن اپنے نکتہ عروج کو چھورہی ھے
آق پارٹی کی انتخابی مہم میں ایسی اسلامی علامات اور خلافت کے نعرے بکثرت نظر آرہے ہیں
سچ پوچھئے تو
یورپ اسی اسلامی لہر سے بہت پریشان ھے
ایک فرانسیسی ٹی وی کی رپورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا
رپورٹر اردگان کی " آق پارٹی " کی انتخابی مہم میں کارکنان کے سٹال پر جاتا ھے
جہاں ٹوپیاں رکھی ہیں
وہ ایک ٹوپی اٹھا کر کیمرے کے سامنے کرتا ھے
جس پر یہ لکھا ھے
" ہم عظیم عثمانیوں کے پوتے ہیں "
فرانسیسی رپورٹر حیران ہوکر بار بار اس جملے کو دہراتا ھے
یورپ تو سو سال پہلے " معاہدہ لوزین " کی رو سے عثمانیوں کی ہر نشانی ختم کرچکا تھا
پھر یہ ترک عثمانیوں سے سو سال بعد بھی رشتہ توڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے
اردگان کی انتخابی مہم کا ایک مقبول نغمہ جو " مہر زین " نے پڑھا ھے
اس کا ایک شعر ھے
" کل ہمارے لئے ارطغرل ( عثمانی جد امجد ) تھا
آج ہمارے لئے اردگان ھے "
یہ ترکوں کی یورپ سے کیسی ضد ھے
کہ
ترک عثمانیوں کے بدلے پورے یورپ کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں
مادیت کے اس دور میں
یہ کیسا خسارے کا سودا ھے
یورپ کو یہی پریشانی ھے
کہ
عثمانی ہی ترکوں کی ضد کیوں ہیں
عدنان میندریس سے لے کر اردگان تک
بار بار ترک قوم عثمانیوں کے نام پر ووٹ دیتی نظر آتی ھے
فرانس میں دو دن پہلے پری پول ووٹنگ  میں ایک شخص نے  اردگان کو ووٹ دیتے ہوئے ساتھ پرچی پر لکھا
کہ
اردگان!
ہم آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کی طرح تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے "
یہ تاریخ کا کیسا ستم ھے
کہ
خلافت کے خاتمے کے
100 سال بعد عثمانی پورے طمطراق سے واپس آنے کو ہیں
یہ کیسا الیکشن ھے
کہ
دس، دس سال کے بچے بھی ترک انقلابی شاعر
" محمد عاکف ارسوئے "
کی انقلابی اسلامی نظمیں پڑھتے جھومتے نظر آتے ہیں
یہ کیسا خون ھے
جو سو سال بعد بھی رنگ بدلنے پر آمادہ نہیں ھے
مغربی انتخابی جائزوں میں بھی اردگان کو واضح اکثریت کے اشارے مل رہے ہیں
2۔۔۔
دوسرے اہم صدارتی امیدوار
" محرم اینجہ " ہیں
جو ریپبلکن پیپلز پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار ہیں
محرم اینجہ ایک غریب خاندان سے ہیں اور
ٹرک ڈرائیور کے بیٹے ہیں
محرم اینجہ فزکس کے استاد رہے ہیں
اور
سیاست میں اپنی شعلہ بیان تقاریر کا خوب شہرہ رکھتے ہیں
ریپبلکن پارٹی جو سیکولر جماعت اور شروع سے فوج کی آغوش میں پلی بڑھی ھے
اردگان کی سب سے مضبوط حریف سمجھی جاتی ھے
محرم اینجہ نے جیت کی صورت میں فتح اللہ گولن کو ترکی واپس لاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا وعدہ کیا ھے
بصورت دیگر
ترکی میں واقع انجیرلک کا امریکی اڈہ بند کرنے دھمکی دی ھے
یہ اردگان کے حامی ووٹرز کو متوجہ کرنے کی ایک مضبوط انتخابی چال سمجھی جارہی ھے
ساتھ ہی ساتھ
محرم انجہ نے یہ بھی اعلان کیا ھے
کہ
جیت کی صورت میں تمام شامی مہاجرین کو واپس بھیج دیا جائے گا
یہ ممکنہ طور پر ترک قوم پرستی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ھے
" محرم انجہ " کو طیب اردگان کا مضبوط حریف سمجھا جارہا ھے
محرم انجہ کی ریپبلکن پارٹی نے پہلے پہل دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مل کر طیب اردگان کے دیرینہ ساتھی عبداللہ گل کو بطور صدارتی امیدوار لانے کی کوشش کی تھی
تاکہ
طیب اردگان کی پارٹی کے ووٹ توڑے جاسکیں
لیکن
عبداللہ گل کی جانب سے انکار پر ان اپوزیشن جماعتوں نے چھوٹے چھوٹے اتحاد بنا کر اپنے اپنے صدارتی امیدوار کھڑے کرلئے ہیں
ساتھ ہی ساتھ
پارلیمانی انتخابات میں طیب اردگان کی اکثریت کو روکنے کیلئے
" اتحاد ملت "  کے نام سے اپوزیشن کا ایک مضبوط  انتخابی اتحاد بھی قائم کیا ھے
تاکہ
متحد ہوکر اردگان کی
" آق پارٹی " کو پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے سے روکا جاسکے
متحدہ اپوزیشن
بھرپور طریقے سے اپنی انتخابی مہم چلائے ہوئے ہے
ستم تو یہ ہے
کہ
جناب نجم الدین اربکان کے سیاسی فلسفے کی امین سخت گیر اسلامی جماعت " سعادت پارٹی " بھی اسی سیکولر اپوزیشن اتحاد کا حصہ ھے
اور
اردگان کے خلاف دن رات ایک کئے ہوئے ھیں
3۔۔۔
تیسری اہم صدارتی امیدوار
" میرال اکشینار " ہیں
جو ترکی کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار بھی ہیں
یہ گڈ پارٹی کی چئیرمین ہیں
حالیہ انتخابی جائزوں میں یہ تیسرے نمبر پر ہیں
" محرم اینجہ " کی نامزدگی سے پہلے
" میرال اکشینار "
کو طیب اردگان کا سب سے مضبوط حریف سمجھا جارہا تھا
لیکن
محرم اینجہ نے اپنی مضبوط انتخابی مہم سے " میرال اکشینار " کو پیچھے چھوڑدیا ھے
" میرال اکشینار " مغرب کی منظور نظر سمجھی جاتی ہیں
مغربی میڈیا انہیں آئرن لیڈی کا خطاب دیتا ھے
یہ ترکی کی پہلی وزیراعظم
" تانسو چیلر "
کے دور میں وزیر داخلہ بھی رہ چکی ہیں
" میرال اکشینار " پر فتح اللہ گولن سے روابط اور ان کے زیر اثر ہونے کا الزام بھی ھے
ان کے ماضی کے کچھ خطوط اور بیانات سے اس تاثر کو تقویت بھی ملتی ھے
ناکام گولن بغاوت کے بعد انہیں وزارت عظمی کا امیدوار بھی بتایا جاتا تھا
انہیں بھرپور مغربی حمایت بھی حاصل ھے
اور
دو سال پہلے ناکام بغاوت کے بعد منعقد حالیہ انتخابات میں انہیں گولن حمایتی ووٹ ملنے کا بھی مضبوط امکان ھے
جسے کسی طور غیر اہم قرار نہیں دیا جاسکتا
یہ بھرپور انداز سے اپنی مہم کو چلائے ہوئے ہیں
انتخابی جائزوں میں ان کا نمبر تیسرا ھے
4۔۔۔
چوتھے صدارتی امیدوار جناب
" تے میل قارا مولا اول " ہیں
یہ سعادت پارٹی کے چئیرمین ہیں
سعادت پارٹی دائیں بازو کی اسلامی جماعت ھے
اور
جناب نجم الدین اربکان
کے فلسفے کی امین اور ان کی فضلیت پارٹی ہی کا تسلسل سمجھی جاتی ھے
جناب " تے میل قارا مولا اول " نے حالیہ الیکشن میں تمام اپوزیشن پارٹیز سے ایک ہی امیدوار لانے کیلئے بھی جدوجہد کی تھی
لیکن
اس میں ناکامی پر خود کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کردیا
" تے میل قارا مولا اول " 1977 سے رکن پارلیمنٹ اور مئیر شپ کے عہدوں پر فائز رہے ہیں
اور
نجم الدین اربکان کی فضیلت اور رفاہ پارٹی میں طیب اردگان کے ساتھ بھی کام کرچکے ہیں
یہ بھی طیب اردگان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑرہے ہیں
یقینا اس سے اسلام پسند ووٹ تقسیم ہوگا
جس کا براہ راست نقصان اسلام پسندوں کو ہوگا
یہ یقینا لمحہ فکریہ ھے
حالیہ انتخابی سروے میں یہ چوتھی پوزیشن پر سمجھے جارہے ہیں
5۔۔۔
پانچویں صدارتی امیدوار
صلاح الدین دمیرتاش ہیں
جو نسلا کرد ہیں
یہ ایچ ڈی پی پارٹی کی طرف سے نامزد صدارتی امیدوار ہیں
جو کردوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ھے
صلاح الدین دمیرتاش کی انتخابی مہم کی خاص بات یہ ھے
کہ
یہ نومبر 2016 سے دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں
اور
اپنے 12 کرد اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ جیل میں قید ہیں
اور
اپنے وکلاء کے ذریعے جیل ہی سے ویڈیو تقاریر کے ذریعے اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں
ان کی پارٹی " ایچ ڈی پی " چونکہ کرد نسلی بنیادوں پر سیاست کرتی ھے
اسلئے
ایچ ڈی پی صرف شامی و ایرانی سرحد کے ساتھ ساتھ کرد علاقوں میں  اپنا ووٹ بینک رکھتی ھے
باقی ترک قومیتوں میں ووٹ بینک نہ ہونے کہ وجہ سے کرد پارٹی کا صدارتی انتخاب میں امیدوار کھڑا کرنا علامتی اور ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کی ایک کوشش سمجھا جارہا ھے
کہ
جیل سے انتخابی مہم چلانے سے ان کی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کو ہمدردی کا ووٹ ملنے کا امکان ھے
یوں اس پارٹی کا بنیادی ٹارگٹ پارلیمنٹ کے کل ووٹوں کا دس فیصد حاصل کرنا ھے
تاکہ
کم از کم پارلیمنٹ میں اپنے داخلے کو یقینی بنایا جاسکے
2015 کے الیکشن میں ایچ ڈی پی نے کرد علاقوں سے اکثریتی ووٹ لیا تھا
جس کی وجہ سے اردگان کی
" آق پارٹی " اکثریت حاصل نہیں کرپائی تھی
حالیہ جائزوں کے مطابق
کردوں کے ساتھ اردگان کی مفاہمتی پالیسی ،
کرد علاقوں میں نمایاں ترقیاتی اقدامات
اور
شامی علاقوں میں ترک افواج کی فتوحات
کی وجہ سے کردوں میں اردگان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ھے
اسلئے
حالیہ انتخابات میں کرد ووٹ کی تقسیم ایچ ڈی پی کیلئے نہ صرف درد سر بن سکتی ھے
بلکہ
اس کے پارلیمنٹ میں داخلے پر بھی سوالیہ نشان لگاسکتی ھے
ایچ ڈی پی کی انتخابی کارکردگی پر مبصرین کی نظریں لگی ہوئی ہیں
6۔۔۔
چھٹے صدارتی امیدوار
دوغو برینجک ہیں
جو نظریاتی طور پر کیمونسٹ ہیں
اور
بائیں بازو کی نیشنلسٹ پیٹریوٹک پارٹی کے چئیرمین ہیں
قانون میں اعلی تعلیم کے بعد سیاسی سفر شروع کیا
یہ اپنے کھلم کھلا سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے پہچانے جاتے ھیں
یہ مختلف فوجی ادوار میں پابند سلاسل بھی رہے ہیں
لیکن
2008 میں انہیں اردگان کی حکومت کے خلاف اعلی فوجی و سویلین قیادت کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا
اور
2014 میں ان کی رہائی عمل میں آئی
یہ کسی اتحاد کے بغیر آزادانہ طور سے صدارتی الیکشن لڑرہے ہیں
اور
انہیں بائیں بازو کے سوشلسٹ نظریاتی کارکنوں کی حمایت حاصل ھے
لیکن
حالیہ سروے کے مقبول امیدواروں کی فہرست میں ان کا نمبر آخر میں آتا ھے
یہ تمام امیدوار بھرپور طریقے سے اپنی مہم کو چلارہے ہیں
اور
جیت کیلئے پرعزم ہیں
ساتھ ہی ساتھ ترکی سے ناراض یورپی ممالک بھی اپنے من پسند امیدواروں پر بھرپور سرمایہ کاری کررہے ہیں
شامی مہاجرین کا قضیہ بھی انتخابی مہم کا اہم حصہ بن چکا ھے
ترک قوم اپنے اسلام اور بہادری پر بجا طور فخر کرتی ھے
ساتھ ہی ساتھ اپنی خودمختاری و خودداری پر  سودے بازی نہ کرنے کی وجہ سے اقوام عالم میں ایک استعارہ بن چکی ھے
بیس بڑے ممالک میں شامل ترکی استعماری قوتوں کیلئے درد سر بن چکا ھے
اسلئے
ساری دنیا کی نظریں اس پر الیکشن پر ہیں
تین دن رہ گئے
آپ بھی اردگان کیلئے دعا گو رہئیے
کہ
طبل جنگ بجایا جاچکا ھے
تمام کفر اردگان کے خلاف صف آراء ہوچکا ھے
ایمان کی بولیاں لگائی جارہی ہیں
پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ھے
اردگان کو بیرونی ہی نہیں
اندرونی غداروں سے بھی لڑنا پڑرہا ھے
ایمان و مادیت کی عجب جنگ ھے
اردگان کے خیمے کو صرف ایمان پر ثابت قدم رہنا ھے
فتح و نصرت تو ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کیلئے لکھ دی گئی ھے
کہ
" انتم الاعلون ان کنتم مومنین "
تو وعدہ خداوندی ھے