Wednesday 23 January 2019

فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد خان فاتح پہ یورپی مورخین و ملحدین کا بھائی کے قتل اور ہم جنس پرستی کا الزام اور اس کا جواب


سلطان محمد فاتح پہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے تحت نشینی کے لیے بہن بھائیوں کے قتل کو سرکاری روایت اور جائز قرار دیا تھا، لیکن یہ بات غلط ہے اور ہمیں سلطان کی پوری زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس میں تحت نشینی کی جنگ کے لیے اپنے ہی بہن بھائیوں کا قتل کیا گیا ہو۔
یورپی مؤرخ عام طور پر فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح کو اپنے صغیر سن سوتیلے بھائی کا قاتل بتاتے ہیں مگر وہ اپنی اس غلط بیانی میں اس لیے معذور ہیں کہ محمد خان ثانی قسطنطنیہ کا فاتح ہے اور اس کو ملزم قرار دینا شاید عیسائی مورخ ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ینگ چری فوج کے سردار نے اس بچے کو قتل کیا تھا۔ اس کا بھی سب کو اقرار ہے کہ سلطان محمد خان نے اس سردار کو قصاص میں قتل کرایا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اس سردار نے محمد خان ثانی کے حکم سے اس کو قتل کیا تھا لیکن سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سلطان محمد خان کو سردست اس چھوٹے بچے سے کسی قسم کا بھی کوئی اندیشہ نہ تھا۔ وہ اپنی تخت نشینی کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد بھی اس لڑکے کی جان لینے کی تدابیر عمل میں لا سکتا تھا۔ اس شیر خوار بچے کو تخت نشین کرنے کا کسی رکن سلطنت کو مطلق خیال تک بھی نہیں آیا تھا بلکہ سب ایڈریا نوپل میں محمد خان کا انتظار کر رہے تھے۔ ینگ چری فوج کا سردار ایشیائے کوچک سے سلطان محمد خان کے ساتھ نہیں آیا تھا بلکہ پہلے ہی سے ایڈریا نوپل میں موجود تھا۔ اگر یہ کام سلطان محمد خان کو کرانا تھا تو وہ اپنے ان سرداروں میں سے کسی کو اس کام پر مامور کرتا جو اس کے ساتھ ایشیائے کوچک سے آئے تھے اور جن پر اس کو ہر طرح کا بھروسہ تھا۔ ایڈریا نوپل میں آتے ہی ایک ایسے سردار کو جو اس کے لئے کوئی مانوس شخص نہ تھا یہ ظالمانہ حکم دینا معمولی احتیاط کے بھی خلاف تھا۔ پھر یہ کہ وہ سرادر جب اپنے اس ناشدنی کام کی پاداش میں قتل کیا گیا تو اس نے اپنی جان بچانے کے لئے اس راز کو فاش نہ کیا۔ سروین شہزادی یعنی محمد خان کی سوتیلی ماں خود ان لوگوں میں شامل تھی جو تخت نشین کی مبارک باد دینے آئے سلطان محمد خان ثانی کی آئندہ زندگی میں اس قسم کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ اور اس باحوصلہ‘ نیک دل اور باخدا سلطان سے ہرگز اس قسم کی احمقانہ حرکت کی توقع نہیں ہو سکتی۔
ایک اور الزام سلطان محمد خان فاتح پہ عیسائیوں کی طرف سے جو لگایا جاتا ہے وہ خوبصورت لڑکوں میں دلچسپی اور ہم جنس پرستی کا ہے۔ سلطان کے زمانے کے ایک بازنطینی مورخ لاؤنیکوس کالکوکونڈائلز نے سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد ثانی المعروف فاتح قسطنطنیہ پہ یہ الزام لگایا ہے کہ وہ ولیچیا کے شہزادے رادو سیل فروموس سے عشق کرتا تھا اور اس عشق کی بنیاد پہ رادو کو Cel Frumos یعنی خوبصورت کا لقب دیا گیا تھا اور ولاد دی امپالر کی شکست کے بعد سلطان نے اس کے بھائی کو 1465ء میں ولیچیا کے تخت پہ بٹھایا جس سے دونوں کے درمیان قربت ظاہر ہوتی ہے۔ کالکوکونڈائلز کے مطابق سلطان اس لڑکے کو پسند کرتا تھا، اسے تقاریب میں مدعو کرتا اور اپنا ساغر یعنی کپ جنسی ہوس کے ساتھ اٹھا کر رادو سیل فروموس کو اپنے بستر پہ آنے کی دعوت دیتا اور ایک بار سلطان نے اس کے اوپر آنے اور اسے چومنے کی کوشش کی جس پہ اس نے سلطان کی ران میں چاقو مارا اور بھاگ گیا لیکن بعد ازاں دونوں کے درمیان صلح ہوگئی اور دونوں پھر سے دوست بن گئے۔
اس واقعے کی تحقیق کے لیے سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ لکھنے والاکالکوکونڈائلز کون تھا۔یہ واقعہ لکھنے والا کالکوکونڈائلز یونان کے دارالحکومت ایتھنز سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز گھرانے کا فرد تھا جس پہ اس وقت فلورینٹائن خاندان حکومت کر رہا تھا۔ اس کا باپ جارج ایتھنز کے حکمران خاندان کے ڈیوک انتونیو اول کی بیوی ماریہ میلیسین کا رشتہ دار تھا۔ جب انتونیو 1435ء میں مرا تو ماریہ نے ایتھنز کا ابھی حاصل کرنے کی کوشش کی اور جارج کو ایک مقصد پہ سلطنت عثمانیہ کے مراد خان دوم کے پاس بھیجا جو سلطان محمد فاتح کا والد تھا اور اسے 30 ہزار سونے کے ٹکڑوں کی رشوت دینے کی کوشش کی اور گزارش کی کہ ایتھنز کی حکمرانی ماریہ اور جارج کالکوکونڈائلز کے سپرد کی جائے لیکن اس کی غیر موجودگی میں ایتھنز کی حکمرانی پہ نیرو دوم قابض ہو گیا۔ اس دوران جارج کالکوکونڈائلز کی پیشکش سلطان مراد خان ثانی نے مسترد کردی اور رشوت دینے پہ اسے جیل میں ڈال دیا۔ولیم ملر کے مطابق کسی طرح جارج کالکوکونڈائلز اپنا سارا سازو سامان چھوڑ کر بھاگ کر قسطنطنیہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور قسطنطنیہ سے بحری جہاز کے ذریعے واپس جا رہا تھا کہ اسے ایک یونانی بحری جہاز نے پکڑ کر واپس سلطان مراد خان ثانی کے پاس بھیج دیا لیکن سلطان نے اسے معاف کرکے رہا دیا۔
اس کے بعد جارج لاؤنیکوس اور اپنے بقیہ گھرانے کے ساتھ بازنطینی حکمران کے زیر اثر علاقے پیلونیز میں منتقل ہو گیا۔ 1446ء میں شاہ قسطنطنیہ پلائیو لوگوس نے جارج کو ایک مقصد کے ساتھ سلطان مراد خان ثانی کے پاس بھیجا کہ وہ تھرموپلائی کے جنوب کی یونانی ریاستوں کو آزاد کردے۔ لیکن اس مقصد کے لیے جو شرائط پیش کی گئی تھیں اس سے سلطان کو شدید غصہ آیا اور اس نے ایک بار پھر جارج کالکوکونڈائلز کو جیل میں ڈال دیا اور شاہ قسطنطنیہ کے علاقوں پہ چڑھائی کر دی اور یونان کی آزادی کی تمام امیدیں ختم کر دی۔اب اگر یہ واقعہ دیکھا جائے تو جارج کے بیٹے لاؤنیکوس کا سلطان مراد خان ثانی کے بیٹے اور اگلے عثمانی سلطان محمد فاتح پہ یہ الزام درج ذیل وجوہات کی وجہ سے ناقابل اعتبار اور جھوٹ ٹھہرتا ہے:
1: 1447ء کے بعد اس واقعے کے مصنف لاؤنیکوس کی سرگرمیوں اور نقل و حمل کا تاریخ میں کوئی پتہ نہیں۔ سلطان محمد فاتح پہ ہم جنس پرستی کے الزام اور رادو کے ساتھ ہم جنس پرستی کا یہ واقعہ اس نے خود دیکھا یا اسے کس نے بتایا، تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔
2: سلطان محمد فاتح کا والد سلطان مراد خان ثانی یونان کی حکومت کے لیے رشوت کی پیشکش پہ لاؤنیکوس کے والد جارج کو دو بار قید میں ڈال چکا تھا۔ لہذا اس بات کا گہرا ثبوت ہے کہ لاؤنیکوس سلطان محمد فاتح پہ الزام لگا کر اپنے والد اور مسلم دشمنی کی وجہ سے سلطان محمد فاتح سے فتح قسطنطنیہ کا بدلہ لے رہا ہو۔
3: اس واقعے کا اکیلا مورخ لاؤنیکوس ہے۔ اس کے سوا یہ واقعہ کسی بھی اور مسلم یا غیر مسلم مورخ نے بیان نہیں کیا۔
لہذا ان تینوں وجوہات کی بنیاد پہ یہ واقعہ ناقابل اعتبار اور جھوٹ ہے۔
سلطان محمد فاتح پہ اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اس نے ایک خواجہ سرا کو بازنطینی ہاؤس آف نوتاراس کے پاس بھیجا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے چودہ سالہ خوبصورت بیٹے کو سلطان محمد فاتح کے حوالے کر دے۔ جب اس نے انکار کیا تو سلطان نے فوری نوتاراس، اس کے بیٹے اور داماد کے قتل کا حکم دے دیا اور ان کے سر سلطان کے سامنے میز پہ رکھ دیے گئے۔ کئ مورخین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ نوتاراس کے سارے بیٹوں کا قتل کیا جانا تاریخی طور پہ غلط اور جھوٹ ہے۔ ان کے مطابق سب سے چھوٹا بیٹا جیکب نوتاراس سلطان محمد فاتح کے حرم میں بھیج دیا گیا اور وہاں سے 1460ء میں فرار ہو گیا۔ الزام لگانے والوں کے بقول جیکب نوتاراس ایک انتہائی خوبصورت لڑکا تھا جس نے فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ الزام لگانے والے کہتے ہیں کہ لگتا ہے سلطان نے اسے ہم جنس پرستی کے لیے اسے اپنے حرم میں رکھ لیا تھا۔ یعنی الزام لگانے والوں کو خود اس بات کی تصدیق نہیں اور واقعے کی ساری عمارت جھوٹ اور مفروضے پہ کھڑی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں بھی سلطان پہ ہم جنس پرستی کا یہ الزام صرف ایک ذریعے یعنی لیونارڈ آف کیوس کی طرف سے نقل کیا جا رہا ہے جو کہ ایک متعصب عیسائی آرچ بشپ اور فتح قسطنطنیہ کے قیدیوں میں سے تھا۔ اس نے اپنی ذاتی و مذہبی دشمنی کی بنیاد پہ سلطان پہ یہ الزام عائد کر دیا ورنہ یہ بات ہمیں نہ ہی کسی مسلم اور نہ ہی کسی غیر مسلم مورخ کے فتح قسطنطنیہ کے واقعے میں ملتی ہے۔

حوالہ جات:

1:http://www.elmedeen.com/read-
book-3141&page=13#page-381&viewer-text
2:Miller, "The Last Athenian Historian: Laonikos Chalkokondyles", Journal of Hellenic Studies, 42 (1922), p. 37
3:Franz Babinger, Mehmed the Conqueror and His Time, edited by William C. Hickman and translated by Ralph Manheim (Princeton: University Press, 1978), pp. 48ff
4:Kaldellis, "The Date of Laonikos Chalkokondyles’ Histories", Greek, Roman, and Byzantine Studies, 52 (2012) 111–136
5:alio impubere luxui regali reservato" by account of Leonard of Chios, the archbishop of Mytilene, an eye-witness and captive of Constantinople. Atti della Società ligure di storia patria, p.256

No comments:

Post a Comment