Thursday 29 November 2018

عمران خان کے سو روزہ کارنامے

قسم اس رب ذوالجلال کی، جن لوگوں نے تبدیلی کو ووٹ دیا وہ  خود ذمہ دار ہیں، اور روز قیامت جواب دہی کے لئے بھی تیار رہیں. کہ جیسےہی عمران خان نے نئے پاکستان کا اعلان کیا تو:
:
👈نیا پاکستان بنتے ہی کراچی میں قادیانیوں کے تمام یونٹ متحرک۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے۔؟؟؟
👈 فیصل آباد میں قادیانیوں کی ہلہ شیری اور مسلمانوں پر ظلم۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟
👈 وزیراعظم کا حلف برداری میں خاتم النبیین کا لفظ آخر دم تک درست نہ کہنا اور اس پر معنی خیز مسکراہٹ۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟
👈صدر پاکستان کا حلف برداری میں خاتم النبیین کا جملہ پورا نہ کرنا اور لفظ "ہیں" کو چھوڑ دینا۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟
👈ایک کٹر قادیانی کو جان بوجھ کر مشیر مملکت بنانا پھر عوامی دباؤ پر ہٹایا تو اور مشیروں کا استعفیٰ۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟
👈 اسلامی پاکستان کے وزیر اطلاعات کا کھل کر قادیانیوں کے حق میں بولنا۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟
👈 قادیانیوں کا اخبارات میں بڑے بڑے قادیانی فوجی عہدیداروں کو کھلے عام خراج تحسین کا اشتہار دینا۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟
👈 قادیانیوں کا اس خراجِ تحسین کے بڑے بڑے پینا فلیکس لگانے کی جرات کر لینا۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟
👈کل اسلام آباد میں قادیانیوں کے حق میں کھلم کھلا مظاہرے کا ہونا۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟؟؟

👈 اور ایسا سب پاکستان میں پہلی دفعہ ہونا۔۔۔
یہ بھی محض اتفاق ہے؟
👈 مساجد کو زبردستی گرانا
محض اتفاق ھے ؟
مدارس بند کرانا محض اتفاق ھے ؟                                         👈 قادیانی پروفیس کے دباؤں میں آکر لاھور مینجمنٹ یونیورسٹی کے طلباء کو حکومتوں پروٹوکول میں قادیانیوں کے مرکز ربوہ ( چناب نگر ) کا تعارفی وزٹ کرانا اور وہاں طلباء سے پریشرکے ذریعے قادیانیوں سے اظہار یکجہتی کرانا  یہ بھی محض اتفاق ھے یا قادیانیوں کی حمایت؟
اور اگر زرا سا پیچھے جاؤ۔ تو۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔

👈 عمران خان کے دھرنے پر ایک قادیانی یونٹ کی بھرپور سپورٹ اور خرچہ اور لندن میں بیٹھے ہوئے اس یونٹ کے سربراہ کی کوئی کم و بیش دس میٹنگز میں یہ اعلان کہ عمران تو ایک مہرہ ہے پیچھے ہم کھیل رہے ہیں۔۔۔۔
بھی محض ایک اتفاق تھا؟؟؟
👈 عمران خان کا ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں یہ کہنا کہ ہم حکومت میں آ کر قادیانیوں کو مذہبی آزادی دلوائیں گے۔۔۔۔
یہ بھی محض اتفاق تھا؟؟؟
👈 بھرپور دھاندلی سے عمران کو جتوانا اور اہم علماء کرام جان بوجھ کراسمبلی سے دور رکھنا۔۔۔۔
یہ بھی محض اتفاق تھا۔؟؟؟
👈 قادیانی خلیفہ مسرور کو تحریک انصاف کی لندن کی خاتون صدر کی تعاون کی درخواست کو قبول کرنا۔۔۔۔
یہ بھی محض اتفاق تھا۔؟؟؟
👈  عمران کا شہید ناموسِ رسالت ملک ممتاز کو قاتل کہنا اور اب پھر ایک بار اسکے وزیرفیاض چوہان کا شہید ممتاز کو مجرم کہنا ۔۔۔                                                       یہ بھی محض اتفاق تھا۔؟؟؟                                                  👈 سینٹ میں قادیانی ترمیمی بل ایک بار پھر پیش کرنا                             یہ بھی محض اتفاق تھا۔؟؟؟                                               👈 شعائر اسلام داڑھی کا یہ کہہ کر مذاق اُڑانا کہ اسّی فیصد داڑھی والے ٹھیک نہیں۔۔۔۔                                            یہ بھی محض اتفاق تھا۔؟؟؟  اور اب ایک بار پھر آسیہ ملعونہ کو معاف کرنے کی بات کرنا  یہ سب کیا ہے مسلمانوں
سنو  اور  جاگتے رہو یہ بھی محض اتفاق تھا۔۔۔۔؟؟؟
خدا نہ خواستہ کہیں تمہیں بالاتفاق ایمانی غیرت سے محروم نہ کر دیا جائے۔۔۔۔

👈 تمہارے ایمان کے ڈاکوؤں نے کہیں آپس میں اتفاق تو نہیں کر لیا۔۔۔۔۔۔۔؟
  اب تو عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  میری بات سمجھ گئے ھونگے کہ عمران خان اور بیشتر کابینہ ممبران   ایک عالمی سازش کے تحت پاکستان کی مذہبی ساخت کو تبدیل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔۔۔۔۔۔
اب وقت آگیا ہے ان ظالموں کا گھیرا تنگ کرنا کا۔۔۔۔۔۔۔

Monday 26 November 2018

جہاد کشمیر ۔ شریعت اور تاریخی حقائق کی روشنی میں

مغل بادشاہ اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد دہلی کی حکومت چراغ مفلس بن گئی تھی۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چہار سو شر پسندوں کو سر اُٹھانے کا موقع مل گیا۔ اسی درمیان پنجاب کے زرخیز علاقہ میں سکھوں نے اپنی ایک مضبوط حکومت قائم کرلی تھی۔ اس کے حکمرانوں میں رنجیت سنگھ کافی مضبوط، متعصب اور اسلام دشمن واقع ہوا ہے۔

رنجیت سنگھ نے دولت افاغنہ کے آخری صوبہ’’ دار جبار خان‘‘ کے درباریوں سے ساز باز کرکے ۱۸۱۹ء میں ایک زبردست لشکر کے ساتھ کٹھوعہ، جموں، راجوری اور پونچھ کو تخت و تاراج کرتے ہوئے وادی کشمیر پر فیصلہ کن حملہ کیا، مسلمانوںنے جم کر اس کا مقابلہ کیا لیکن متحدہ قیادت نہ ہونے کی وجہ سے رنجیت سنگھ کی فوج جموں وکشمیر پر قابض ہوگئی۔ آج کی تاریخ سے رنجیت سنگھ نے کشمیر میں لوٹ مار اور بربریت کی وہ تاریخ قائم کی جو انسانی تاریخ پر ایک بد نما داغ ہے۔

اس طرح ۴۹۴ سال خالص اسلامی ریاست رہنے کے بعد مسلمانوں پر اپنی بد اعمالیوں کے سبب ایسا زوال آیا جس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی۔ یاد رہے رنجیت سنگھ یہ وہی دشمن دین ہے جس کے خلاف سید احمد شہید ؒ اور ان کے خلیفۂ اجل مولانا اسماعیل شہیدؒ نے اعلان جہاد کیا تھا۔

۱۸۱۹ء سے ۱۸۴۵ء تک رنجیت سنگھ، کھڑک سنگھ، رانی چندر کور شیر سنگھ اور دلیپ سنگھ نے حکومت کی۔

اس آخری دور میں سکھوں نے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ انگریزوں سے جنگ کی اور ہر مرتبہ منہ کی کھائی۔ آخری بار کی شکست سے انگریزوں نے سکھوں پر باون لاکھ تاوان جنگ لازم کیا۔ دلیپ سنگھ میں اتنی بڑی رقم ادا کرنے کی ہمت نہیں تھی اس نے اس کے بدلے ہیرا کوہ نور اور ریاست جموں وکشمیر انگریز کے حوالے کردی۔

انگریز کے لیے کشمیر میں حکمرانی کافی دشوار تھی، وہاں سکھوں کے خلاف پہلے ہی مسلمان جہاد کی تیاریاں کررہے تھے، اس لیے اس نے ریاست کی نیلامی کا اعلان کردیا جس کو جموں کے ایک جاگیر دار گلاب سنگھ بن کشتوڑا سنگھ ڈوگرہ (ہندو) نے ۷۵ لاکھ میں خرید لیا۔

گلاب سنگھ نے تین مرتبہ قبضہ کے لیے فوج کشی کی مگر مسلمانان کشمیر نے تینوں مرتبہ اس کو شکست دی۔ آخر گلاب سنگھ کی درخواست پر انگریزی سپہ سالار مسٹر لارنس نے زبردست لشکر کشی کے بعد قبضہ دلوایا۔ گلاب سنگھ کا باپ نہایت ہی مفلس کاشت کار تھا لیکن گلاب سنگھ نے رنجیت سنگھ کی پیادہ فوج میں بھرتی ہوکر کافی خدمت انجام دی جس کے صلہ میں رنجیت سنگھ نے اس کو جموں کا جاگیر دار بنادیا تھا۔

گلاب سنگھ ۱۸۵۳ء تک حکومت کرتا رہا ۱۸۵۳ء میں اس کی موت پر اس کا بیٹا رنبیر سنگھ تخت نشین ہوا۔ ۱۸۸۵ء میں رنبیر کا بیٹا پرتاب سنگھ حکمراں بنا جس کے لاولد مرنے پر ۱۹۲۶ء میں اس کا بھتیجا ہری سنگھ راجہ تسلیم کرلیا گیا جو ۱۹۴۷ء تک رہا۔ اس درمیان انہوںنے ظلم وتشدد کے علاوہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کی۔ اسلامی تعلیمات ہی نہیں آباء واجداد کی تاریخ سے بھی نوجوانوں کو دور رکھا۔

لیکن اس دوران بھی کشمیری مسلمان کسی نہ کسی شکل میں مزاحمت کرتے رہے اور مسلسل تیاریوں میں لگے رہے۔ چنانچہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کو مسلمانوں نے سری نگر شہر میں راجہ کے خلاف ایک زبردست جلوس نکالا ،جس پر پولیس فائرنگ سے ۲۱ نوجوان شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ ۲ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو پونچھ، راجوری، ریاسی اور جموں کے دیگر اضلاع کے مسلمانوں نے مالیہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس بحرانی کیفیت سے گھبرا کر ۵ نومبر ۱۹۳۱ء کو راجہ نے تمام ریاست انگریز کی امن فوج کے حوالے کردی۔

۱۹۴۰ء کے بعد راجہ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں بہت تیزی آ چکی تھی، لیکن۱۹۴۷ء میں جب برصغیر انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا تو جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک پوری قوت سے اٹھی۔ ابتدائً گلگت، بلتستان اور چلاس وغیرہ کے علاقے سکھ ڈوگروں سے آزاد ہوئے اور پھر ۱۶ اگست ۱۹۴۷ء کو بارہ مولہ، مظفر آباد، میر پور، کوٹلی پونچھ، راجوری کے مسلمانوں نے اعلان جہاد کر دیا جو ایک سیلاب بن کر آگے بڑھنے لگا۔ ڈوگرہ فوج کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ہزاروں مارے گئے اور باقی جموں کی طرف فرار ہو گئے۔اس شکست خوردگی کے عالم  میں راجہ نے بڑی مکاری سے کشمیر کا الحاق اس شرط پر بھارت سے کر دیا کہ بھارت اس کے بیٹے کو کوئی نہ کوئی عہدہ دے گا۔

سوچنے کی بات ہے کہ اول تو خود راجہ غاصب تھا، پھر جب قبضہ جاتا رہا، حکومت جاتی رہی تو الحاق کر دیا۔ کیسا الحاق؟؟ کیا دنیا کے کسی بھی قانون میں اور دنیا کے کسی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے سمجھدار  انسان کے نزدیک اس الحاق کی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے؟؟ لیکن اسی الحاق کو بہانہ بنا کر اور شیخ عبد اللہ کے کاندھوں پر سوار ہو کر بھارت کشمیر میں فوج داخل کردی اور ہر طرف قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم کیا کہ الامان و الحفیظ۔

قتل و غارت کی اس داستان خون آشام کو سن کر پونچھ، مظفر آباد، کوٹلی اور گلگت وغیرہ کے مسلمان منظم ہو گئے، آزاد قبائل نے بھی ان کا ساتھ دیا اور پاکستان نے بھی کسی قدر مدد کی۔ ان مجاہدین نے بھارت کے بڑھتے قدم روک دیے اور زبر دست جنگ کرکے بھارت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔  اس صورتحال سے بوکھلا کر بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقدمہ درج کر دیا۔ پھر وہ دن اور آج کا دن… اقوام متحدہ کے منافقانہ کردار کی وجہ سے ابھی تک کشمیر بھارت کے زیر تسلط ہے۔

             جہاد کشمیر کے متعلق 2 سوالات

سوال نمبر ۔1

حیثیت جہاد کشمیر کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کشمیر میں بھارت نواز حکمرانوں کا جو بھارت کے آلہ کار ہیں کیا شرعی حکم ہے؟

الجواب
اللہ تعالى نے جہاد کے لیے کچھ وجوہات مقرر فرمائی ہیں جن کی بناء پر کسی بھی علاقہ میں جہاد کیا جاتا ہے۔
1- دنیا بھر میں دعوت الى اللہ کے راستے کھولنے کے لیے [البقرة : 193]
2- مسلمانوں پر حملہ ور کافروں کوپیچھے دھکیلنے کے لیے [البقرة : 190]
3- مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کے خاتمہ کے لیے [الأنفال : 72]
4- مسلم اراضی کفار سے چھڑانے کے لیے [البقرة : 191]
5- کفار سے جزیہ وصول کرنے کے لیے[التوبة : 29]
6- مسلمان مقتولوں کا کافروں سے بدلہ لینے کے لیے [البقرة : 178]
7- کفار کو عہد شکنی کے سزا دینے کے لیے [التوبة : 12]
8- شعائر اسلام کی توہین کی وجہ سے [التوبة : 12] جہاد کیا جاتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ اس طرح کی عبارات سے بھرا ہوا ہے۔ نمونہ کے لیے ایک اقتباس عرض ہے!

’’جب دشمن اسلامی شہروں میں داخل ہوجائے تو اَلاَقرب فالا قرب (یعنی قریب والے پھر ان سے قریب والے) کے اعتبار سے اس کا دفاع کرنا یقیناً فرض عین ہے۔ اس لیے کہ تمام اسلامی شہر ایک ہی شہر کے حکم میں ہیں (لہٰذا سب پر جہاد فرض ہوگا) نیز اس حالت میں دشمن کی طرف نکل پڑنا اس طرح فرض عین ہوگا کہ بچہ والد کی اجازت کے بغیر اور قرض دار قرض خواہ کی اجازت کے بغیر ہی سر بکف میدان کار زار میں آجائیں گے اس سلسلہ میں امام احمدؒ کی صریح نصوص موجود ہیں، اس حالت کو اصطلاح فقہاء میں نفیر عام کہتے ہیں۔ (الفتاویٰ الکبریٰ/ ج ۴/ ص ۶۰۸)

علامہ جصاص رحمہ اللہ نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے۔

ترجمہ: ’’تمام امت مسلمہ کا یہ واضح عقیدہ ہے کہ جب کسی مسلمان ملک کی سرحد پر دشمن کے حملہ کا خوف ہو اور وہاں کے مقامی باشندوں میں دشمن سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو۔ اور اس طرح ان کے شہر، ان کی جانیں اور ان کی اولاد خطرہ میں پڑ جائیں تو پوری امت مسلمہ پر یہ فرض ہے کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے سینہ سپر ہو جائیں، تا کہ دشمن کی دست درازی روک دی جائے، اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ پوری امت اس پر متفق ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک کا بھی ایسا قول نہیں ہے کہ ایسی حالت میں مسلمانوں کے لئے جہاد چھوڑ کر بیٹھے رہنا جائز ہوتا ہو کہ دشمن مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہیں اور ان کے اہل و عیال کو قید کر کے ان سے غلاموں کا برتاؤ کرتے رہیں۔‘‘

(احکام القرآن/ ص ۱۱۴)

کشمیر میں مذکورہ بالا وجوہات میں سے اکثر پائی جاتی ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کا علاقہ ہے جس پر ہندو قابض ہے۔ دعوت الى اللہ کے راستے وہاں مسدود کیے جا رہے ہیں۔ہندو مشرک جب چاہیں مسلمانوں پر حملہ آور ہو تے اور انہیں ظلم وستم کا نشانہ بناتے اور عزتوں کو تار تار کرتے ہیں ۔اور کشمیر کے حوالہ سے جو عہد انہوں نے کیا تھا اسے مسلسل توڑتے چلے آ رہے ہیں ۔ لہذا کشمیر میں ان تمام تر وجوہات کی بناء پر جہاد کرنا بالکل درست اور شرعی فریضہ ہے ۔ اور وہاں موجود کٹھ پتلی حکومت ‘ در اصل کفر ہی کی حکومت ہے جسکا خاتمہ ضروری ہے۔

سوال نمبر 2 ۔
کیا کشمیر کا جہاد ، اسلامی جہاد نہیں ہے یہ پانی اور زمین کی لڑائی ہے ؟

یہ لڑائی

1۔ مسلمانوں کو کفر کے ظلم سے آزاد کرنے کے لیے ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ (سورۃ الانفال : 72)
اور اگر وہ (مسلمان) تم سے دین کی خاطر مدد مانگیں تو تم پر انکی مدد کرنا فرض ہے ۔
2۔ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقے چھڑوانے کے لیے ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
[وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُم(البقرۃ : 191)
اور انہیں جہاں پاؤ قتل کر دو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے تم ا نہیں وہاں سے نکالو ۔
3- یہ لڑائی عہد شکنی کے نتیجہ میں ہے ۔ معاہدہ تھا کہ کنٹرول لائن کو سرحد نہیں قرار دیا جائے گا ، معاہدہ تھا کہ کشمیر کا قضیہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے اور اسکے علاوہ اور بھی بہت سے معاہدات تھے جو ا نہوں نے توڑے ۔ اللہ کا فرما ن ہے :
وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُون (التوبۃ: 12)
اور اگر وہ اپنے عہد توڑ دیں اور تمہارے دین پر طعنہ زنی کریں تو کفر کے اماموں سے لڑو کیونکہ انکے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں ۔ تاکہ وہ باز آ جائیں ۔

لہذا یہ کہنا کہ جہاد کشمیر اسلامی جہاد نہیں ، بالکل غلط ہے ۔ قارئین کرام اس وقت جہاد کشمیر  متحدہ جہاد کونسل کے زیرانتظام امیر حزب المجاہدین سید صلاح الدین صاحب کی سربراہی میں جاری و ساری ہے ۔

Wednesday 21 November 2018

امت مسلمہ کے عظیم ہیرو"سلطان ٹیپو" کی آج 219 ء برسی بنائی جارہی ہے

شیر میسور کا لقب پانے والے ٹیپو سلطان کو آج ہم سے بچڑے 219 برس بیت گئے۔
فتح علی ٹیپو المعروف ٹیپو سلطان10 نومبر 1750 کو میسور میں پیدا ہوئے انہیں ایک صوفی بزرگ ٹیپو مستان شاہ کی دعاؤں کا ثمر کہاجاتا تھا۔ اسی لیے ان کا نام فتح علی ٹیپو رکھا گیا تھا۔
حیدر علی کے اس فرزند کی تولید کے بعد ایک سال کے اندر حیدر علی ڈنڈی گل کے گورنر ہو گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے اپنی مملکت قائم کی۔ انہوں نے انگریزوں کے بجائے اپنی فوج کی تربیت کے لیے فرانسیسی فوجیوں کو مقرر کیا۔پانچ سال کی عمر میں ہی ٹیپو سلطان کی عربی اور فارسی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے فنون سپا ہ گری اور شہ سواری سیکھی۔ جس کے لیے مشہور اساتذہ ملازم رکھے گئے تھے۔ پندرہ سال کی عمر میں ہی حیدر علی کے زمانے میں ٹیپو سلطان نے کئی معرکے سر کر لیے اور سات دسمبر 1782کو حیدر علی کی موت کے بعد سلطنت کی ساری ذمہ داریاں ٹیپو سلطان کے سر پرآگئیں۔
ٹیپو سلطان کی مملکت میں جس قسم کی انتظامیہ اور افواج تھیں اس کی سبھی داد دیتے تھے اور ٹیپو ہر چیز پرخود نظر رکھتے تھے خاص طور سے فوج کی تربیت پران کی گہری نظر رہتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا میزائل ٹیپوسلطان نے ہی ایجاد کیا تھا اور جنگ میں اس کے استعمال نے انگریزوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ افواج کے درمیان خبر رسانی کے لیے انہوں نے اردو کا سب سے پہلا اخبار فوجی اخبار شروع کیا تھا۔
سلطان کی شجاعت اور جواں مردی کی داستانیں ہر جگہ مشہور ہو گئی تھیں اور انہوں نے انگریزوں کو لرزہ بر اندام کر دیا تھا۔ انگریزی فوج کو ان کی حکمت عملی کے سبب ہر جگہ پسپا ہو نا پڑتا تھا اسی لیے انگریزوں نے غدار میر صادق کو خریدا اور اسی کی غداری کے سبب ٹیپو سلطان کوشہید کیا گیا۔ٹیپو سلطان نے صرف 48سال کی عمر پائی اور 17 برسوں تک حکمرانی کی، لیکن ان برسوں میں انہوں نے حکمرانی کی ایک نئی داستان رقم کر دی۔ ہمت جرات اور شجاعت کی بھی ایک نئی کہانی لکھی۔ ان کا نام آج بھی جب لیا جاتا ہے تو اس کے معنی ہو تے ہیں بہادری، غیرت اور شجاعت۔ٹیپو سلطان برصغیر پاک و ہند کا ایسا کردار ہیں جن پر درجنوں ناول لکھے گئے اردو میں اس حوالے سےپہلا ناول نسیم حجازی نے تحریر کیا جس کا نام”اور تلوار ٹوٹ گئی” تھا جو بہت مقبول ہوا۔اس کے علاوہ بھگوان ایس گدوانی کے ناول “سورڈ آف ٹیپو سلطان” کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ بھگوان ایس گدوانی نے خود اپنے انٹر ویومیں کہا تھا کہ ان کے والد ہندو مہا سبھا کے صدر رہے تھے لیکن انہوں نے جب تاریخ کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ ٹیپو سلطان دنیا کے واحد ایسے شہنشاہ ہیں جنہوں نے میدان جنگ میں اپنی جان دی اور سارے زخم ان کے سینے پر لگے تھے۔ یہ مرتبہ دنیا کے کسی سلطان کو حاصل نہیں ہے اور وہ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔اس ناول پر بھارت میں ایک ٹی وی ڈراما بنایا گیا جو اپنے وقت کا سب سے مقبول ڈراما تھا۔
ٹیپو سلطان کا کا قول تھا “شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ”
اور 4 مئی 1799ءمیں جن حالات میں انہیں شہید کیا گیا وہ رہتی دنیا کے لیے ایک مثال بن گئے۔ڈیوک آف ولنگٹن کی سپاہ ایک خونریز معرکہ میں سرنگا پٹنم فتح کرچکی تھی مگر ڈیوک آف ولنگٹن کو ابھی تک اپنی فتح کا یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹنم کے میدان میں جمع ہونے والے محب وطن شہیدوں کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھی، رات کی سیاہی اور گہری ہوتی جا رہی تھی۔ لگتا تھا آسمان نے بھی ٹیپو سلطان کی شکست پر جو اسکے اپنے بے ضمیر درباریوں‘ اور لالچی وزیروں کی وجہ سے ہوئی اپنا چہرہ شب کی تاریکی میں چھپا لیا تھا‘ اتنے میں چند سپاہی ولنگٹن کے خیمے میں آئے‘ انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ انہوں نے اسے ٹیپو سلطان کی شہادت اور اسکی نعش برآمد ہونے کی اطلاع دی۔ یہ نعش سلطان کے وفاداروں کے ڈھیر کے نیچے دبی ملی۔ جنرل ولنگٹن خوشی سے حواس باختہ ہوکر سلطان کی نعش کے پاس پہنچا تو وہ نعش وفاداروں کےجمگھٹ میں ایسی پڑی تھی جیسے بُجھی ہوئی شمع اپنے گرد جل کر مرنے والے پروانوں کے ہجوم میں ہو‘ جنرل نے سلطان کے ہاتھ میں دبی اسکی تلوار سے اسے پہچان کر اسکی شناخت کی۔ یہ تلوار آخر وقت تک سلطان ٹیپو کے فولادی پنجے سے چھڑائی نہ جا سکی۔ اس موقع پر جنرل نے ایک بہادر سپاہی کی طرح شیر میسور کو سلیوٹ کیا اور تاریخی جملہ کہا کہ ”آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی“ ۔
اسکی نعش اندر محل کے زنان خانے میں بھجوائی تاکہ اہلخانہ اس کا آخری دیدار کریں اس کے ساتھ ہی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا۔ جب سلطان کی قبر کھودی جانے لگی تو آسمان کا سینہ بھی شق ہو گیا اور چاروں طرف غیض و غضب کے آثار نمودار ہوئے، بجلی کے کوندے لپک لپک کر آسمان کے غضب کا اظہار کر رہے تھے۔ اس وقت غلام علی لنگڑا، میر صادق اور دیوان پورنیا جیسے غدارانِ وطن خوف اور دہشت دل میں چھپائے سلطان کی موت کی خوشی میں انگریز افسروں کے ساتھ فتح کے جام لنڈھا رہے تھے، اور انکے چہروں پر غداری کی سیاہی پھٹکار بن کر برس رہی تھی‘ جوں ہی قبر مکمل ہوئی لحد بن گئی تو آسمان پھٹ پڑا اور سلطان میسور کی شہادت کے غم میں برسات کی شکل میں آنسوؤں کا سمندر بہہ پڑا۔ قبر پر شامیانہ تانا گیا محل سے لیکر قبر تک جنرل ولنگٹن کے حکم پر سلطان میسور کا جنازہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لایا گیا۔ فوجیوں کے دو رویہ قطار نے کھڑے ہوکر ہندوستان کے آخری عظیم محبِ وطن بہادر جنرل اور سپوت کے جنازے کو سلامی دی۔ میسور کے گلی کوچوں سے نالہ و آہ شیون بلند ہو رہا تھا، ہر مذہب کے ماننے والے لاکھوں شہری اپنے عظیم مہربان سلطان کیلئے ماتم کر رہے تھے اور آسمان بھی انکے غم میں برابر کا شریک تھا۔ جنرل ولنگٹن کے سپاہ نے آخری سلامی کے راؤنڈ فائر کئے اور میسور کی سرزمین نے اپنے ایک عظیم سعادت مند اور محب وطن فرزند کو اپنی آغوش میں ایک مادر مہربان کی طرح سمیٹ لیا۔ اس موقع پر سلطان کے معصوم چہرے پر ایک ابدی فاتحانہ مسکراہٹ نور بن کر چمک رہی تھی۔ آج بھی ہندوستان کے ہزاروں باسی روزانہ اس عظیم مجاہد کی قبر پر بلا کسی مذہب و ملت کی تفریق کے حاضر ہو کر سلامی دیتے ہیں۔

Monday 19 November 2018

تحریک حماس فلسطین ۔۔۔۔۔۔جہد مسلسل کا واضع پیغام

ایک تصویر گردش کر رہی تھی حماس کے رہنما یحیٰ السنوار کی جس میں وہ ایک سائیلنسر لگا پستول نکال کر دکھا رہے ہیں۔
اس تصویر کا background عجیب اور یقینی طور پر ایمان کو گرمانے ولا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ماسکو میں بھی ایسی ہی مناظر دیکھنے کو ملے جب عباس ستانکزئی اور سہیل شاہین کو دھڑلے  کے ساتھ اپنی بات کر رہے تھے۔ (جب حبیبہ سرابی نے کہا کہ کیا آپ لوگ اگلی بار کسی خاتون کو بھی مزاکرات میں شرکت کے لیے لائیں گے تو انکا جواب زلمی خلیل زاد اور اشرف غنی جیسے نام نہاد لبرلز کے منہ پر طمانچہ تھا کہ “آپ بھی ہمارا مؤقف پیش کر سکتی ہیں”)
حماس آخری سیزفائر کے بعد خاموشی اور اطمینان کے ساتھ اپنی عسکری، معاشی اور معاشرتی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مصروف تھی اور جسکی بازگشت ہر طرف محسوس بھی کی جا رہی تھی۔ ٹرمپ کا redneck امریکہ اور دیگر بھی مضطرب تھے کہ حماس کوئی موقع کوئی نہیں فراہم کر رہی؟ وہ حماس جو انکی “دانش کدوں” میں دہشت گرد معروف ہے، اس سب کو نہ صرف اچھے سے سمجھ رہی تھی بلکہ آنے والے eminent کل کے تیاری بھی کر رہی تھی۔
پھر وہی ہوا، پوری دنیا میں جہاز اُڑاتا نیتن یاہو غزہ پر چڑھ دوڑا، اس زعم میں مبتلا کے اب تو مشرق کی رائے عامہ بھی ہمارے ساتھ ہے جسے ہم نے متعصب صیہونی تنظیم AIPAC کے سٹیج پر دی جانے والی کہانیوں پر مشتمل presentation دکھا دکھا کر اپنے عسکری، زرعی اور فنی ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز کر دیا ہے۔ مگر طریقہ صیہونیت کا پرانا عیاری والا استعمال کیا، کہ حماس نے ہم پر راکٹ برسائے ہیں۔
مگر جب حماس نے جوابی وار کیا تو دنیا کے سامنے دہائی دینے جا پہنچا جدھر پھر احساس ہوا کہ پوری دنیا میں جہاز اُڑا کر جو سفارتی رائے کا زعم قائم کیا تھا اسکا نتیجہ صفر بٹا صفر ہے اور حماس نے باقی میدانوں میں مات دینے کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی مات دے دی ہے۔
اس سارے adventure کی حقیقت تھی  کیا؟
حماس کی مسلح تنظیم كتائب الشهيد عز الدين القسام  (Izz ad-Din al-Qassam Brigades) کے سربراہ ایک جسمانی طور پر معذور مگر ذہین ترین فرد محمّد ضيف ہیں۔ جن کے جان کے در پر اسرائیل عرصہ دراز سے ہے مگر جن کا کوئی اتا پتہ کسی کو معلوم نہیں۔ اسرائیل کی اس ضمن میں ٹیکنالوجی کی بے بسی کا ایک اظہار اس وقت ہوا جب امریکی ارب پتی اور Advanced Engineering کی دنیا کا بے تاج بادشاہ Elon Musk معروف تھنک ٹینک TED کے سٹیج پر بیٹھا تھا اور اس سے سوال ہوا اسکی اچھوتی Boring Company کی بنائے جانے والی سرنگ کی گہرائی کے بارے میں تو وہ از راہ مذاق بولا کہ اگر ہم زیادہ گہرا کھودیں تو معلوم نہیں ہوگا کہ سرنگ زیرِ زمین ہے بھی کہ نہیں اور اگر کوئی ایسی ڈیوائس ہو جو اس بات کا پتہ لگا سکتی ہو تو آپ وہ اسرائیلی ملٹری کو بیچ کر بہت سا پیسا کما سکتے ہیں جو ابھی تک حماس کی بنائی سرنگوں کو معلوم کر پانے میں ناکام ہے۔
اسرائیل پوری دنیا میں اپنی سیٹلائیٹس اور اس سے منسلک GPS ٹیکنالوجی کے بارے میں مشہور ہے جو بیک وقت پوری دنیا پر نظر رکھتی ہے اور لمحہ بہ لمحہ ہر طرح کے موسم میں معلومات فراہم کرتی ہے اور اسکی تمام ٹییکنالوجی کی اوقات یہ ہے کہ  لاہور شہر سے بھی چھوٹے غزہ میں موجود حماس کی سرنگوں کا مکمل پتہ لگانے میں وہ ناکام ہے۔ اسی سیٹالائٹ ٹیکنالوجی کی غرور میں مبتلا انڈیا نے بھی پاکستان کے خلاف ایک مہم جوئی کا آغاز کیا تھا جسے ہماری ائیر فورس کے سستے مگر پر اثر تریاق کے بعد اسے ترک کرنا پڑا۔ دنیا میں ٹیکنالوجی کا بس اتنا ہی رعب ہے۔
حماس کے بنائے اس سرنگوں کے وسیع جال میں محمد ضیف بھی کہیں موجود ہیں۔ ۲۰۱۴ میں ہونے والے حملے میں بنیادی محرک ان ہی سرنگوں کا خاتمہ اور محمد ضیف کو ختم کرنا تھا، مگر تمام تر کوشش کے بعد اسرائیل بری طرح ناکام رہا اور اپنی جھنجھلاہٹ پورے غزہ کو کارپٹ بمباری کے بعد ملبے کا ڈھیر بنا کر اتاری۔ جب کہ محمد ضیف اللہ کے حکم سے بالکل محفوظ رہے، مگر اس دوران انکا پورا خاندان بشمول چند ہفتے کا بیٹا بھی اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن گئے۔ وہ خود حرکت کے لیے القسام کے مجاہدین کے کندھوں پر بھروسہ کرتے ہیں مگر ان تمام vulnerabilities کے باوجود اسرائیل انکے عزم میں ذرا برابر بھی کمی نہ کر سکا۔
اب کی بار اسرائیل نے مگر دوسری چال چلی۔ Heavy bombardement کے درمیان اسکی سپیشل فورسز کے دستوں نے القسام کے رہنماؤں کو ختم کرنے کی کوشش میں غزہ میں ایک آپریشن کیا مگر اس آپریشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو دستوں میں سے کوئی ایک دستہ بھی مکمل سلامت واپس نہ پہنچ سکا بلکہ کچھ کمانڈوز اس دستے میں سے الٹا حماس کے ہاتھ لگ گئے اور کچھ مارے گئے۔  اتوار کو ہونے والے اس سارے آپریشن کے دوران حماس کے ۷ لوگ بھی جامِ شہادت نوش کر گئے جن میں سے ایک محمد ضیف کے دستِ راست کمانڈر نور برکاة بھی تھے۔
اس آپریشن کی ناکامی نے بعد حماس نے اسرائیل سے زرِ تلافی کے لیے مذاکرات کیے مگر اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی کے زعم میں کسی پرُ امن راستے پر راضی ہونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ جواباً حماس نے اسرائیل کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا آغاز کیا اور اسکی بھرپور تشہیر ابلاغ کے میدان میں “بالمرصاد” کے عنوان سے کی (“بالمرصاد” سورة الفجر کی آیت سے ماخوذ، معنیٰ: “گھات لگا کے”)۔ اس مہم جوئی میں بھی اسرائیل کا ٹیکنالوجی کا بت بری طرح زمین بوس ہوا کہ اربوں ڈالرز کے کثیر امریکی سرمائے اور اسرائیلی انجینئرنگ کے اشتراک سے بنائے جانے والے  Iron Dome All Weather Air Defense System کی اصلیت بھی دنیا کے سامنے آ گئی۔ اس سسٹم کو اسرائیلی انجینئرنگ کا شہکار گردان کر پوری دنیا میں اسکی مثال دی جاتی ہے جس سے متاثر ہو کر آذربئیجان اور انڈیا نے بھی اسے خریدا ہے اور مزید کئی ممالک اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ اس سسٹم کے ایک یونٹ کی قیمت تقریباً ۷ ارب روپے ہے اور اس سے داغے جانے والے ایک میزائل کی قیمت تقریباً ۵۳ لاکھ روپے ہے، اس سسٹم کا ایک یونٹ ایک منٹ میں ایسے سینکڑوں میزائل بیک وقت فائر کر سکتا ہے اور ایسے کئی یونٹ مل کر   Iron Dome Air Defense System بناتے ہیں اور ایسے ایک سے زائد سسٹم اسرائیل کی حفاظت کے لیے نصب ہیں جنکا کام حماس کی جانب سے داغے جانے والے میزائلوں کو فضا میں ہی ختم کرنا ہے۔ اسرائیل پچھلی دھائی کے وسط سے اس سسٹم کا پرچار پوری دنیا میں کر رہا ہے مگر اسکے تمام دعویٰ کی اصل یہ رہی کہ حالیہ مہم جوئی میں یہ سسٹم بُری طرح ناکام رہا اور ہر چار میزائل جو القسام کی طرف سے داغے گئے ان میں سے تقریباً ایک کو ہی فضا میں ختم کر سکا۔ حماس نے اسکے سسٹم کا کیا توڑ کیا؟ یہ جاننے کے لیے پوری دنیا مجھ سمیت بیتاب ہے۔ مگر اتنی تفصیل ضرور موجود ہے کہ حماس کے توڑ کرنے والے پورے سسٹم کی قیمت  پورے آئرن ڈوم پر آنے والے اخراجات کا ۱ فیصد بھی نہیں۔
اس ناکامی پر اسرائیل ڈرا کہ کہیں حماس ۲۰۱۴ کی طرح دوبارہ اسرائیل کے بن گوریان ہوائی اڈے پر no fly zone نہ قائم کر دے اور اس ڈر کے نتیجہ میں دہائی لے کر دنیا کے سامنے آیا کہ حماس جارحیت دکھا رہی ہے مگر اب کی بار حماس ممکنہ اسرائیلی پروپیگنڈے پر  پہلے ہی کام کر چکی تھی اور مصر سے لے کر امریکہ تک یہ باور کروا چکی تھی کہ حماس کی کروائی محض جوابی ہے۔ حماس نے مزید دھمکی بھی دی کہ غزہ کی سرحد پر موجود اسرائیلی ملٹری سے وہ خوفزدہ نہیں بلکہ مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان دیا کہ وہ اسرائیل کے ناکام covert operation میں مرنے والے سپیشل فورسز کے دستے کے سربراہ کی آپریشن کے دوران ہلاکت کی ویڈیو بھی منظر عام پر لے آئے گی تاکہ معلوم ہو کہ جارحیت کا آغاز اسرائیل کی طرف سے کیا گیا تھا۔
اس پر پھر اسرائیل کو ۲۰۱۴ کی طرح دوبارہ حماس کی ہی شرائط پر دوبارہ صلح پر قائل ہونا پرا کہ اسکا آزمایا سر پینترا حماس نے اللہ رب العزت کی نصرت سے اس پر ہی الٹ دیا تھا۔ جنرل سیسی کا مصر اور ٹرمپ کا امریکہ اس تمام کاروائی کو انگشت بدنداں دیکھتے ہی رہ گئے۔
نیٹ پر حماس کے ابلاغی بازو شہاب نیوز کی کاوشوں سے وائرل ہونے والی یحییٰ السنوار کی تصویر دراصل  حماس کی اس ریلی کے دوران کی ہے جو حماس نے اپنے شہادت پانے والے ۷ مجاہدین بشمول کمانڈر نور کے اعزاز میں منعقد کی تھی۔یحییٰ السنوار حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ ہیں جو فروری ۲۰۱۷ میں اسماعیل هنية کے بعد منتخب ہوئے تھے، اسکے ساتھ ساتھ كتائب الشهيد عز الدين القسام کی بھی کچھ ذمہ داریاں آپ کے پاس ہیں۔
ریلی سے خطاب کے دوران ہی یحییٰ السنوار نے وہ سائیلسنر لگی پستول بھی نکال کر دکھائی جو حماس نے ناکام لوٹنے والے سپیشل فورسز کے کمانڈوز میں سے ایک سے چھینی تھی۔ پرُ عزم یحییٰ السنوار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس اسرائیل کے غزہ کے گرد قائم کئے گئے جبری محاصرے کو توڑنے کے لئے پرُ عزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اب اندازہ ہو چکا ہے کہ ہم یہ محاصرہ مزید جاری نہیں رہنے دیں گے اور اسے یہ بھی سمجھ آ چکی ہے کہ ۲۰۱۴ کے حملوں کے بعد کا ہمارا صبر کسی بھی طرح ناکام نہیں رہا۔ ہمارے میزائل ماضی کے مقابلے میں اب مزید بہتری کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اگر اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر چڑھائی  کی حماقت کی تو پھر پہلے کی طرح ہی اسکی ہزاروں قیدیوں کی آزادی کے بدلے میں ہی خلاصی ہو گی۔
اس گرجدار خطاب اور ہزیمت انگیز صلح کے بعد اسرائیل خود بھی داخلی طور پر بحران کا شکار ہے کہ حکمران پارٹی میں ہی پھوٹ پر چکی ہے۔
ایک زنگ آلود پستول سے مزاحمت کا آغاز کرنے والی حماس اللہ رب العزت کی نصرت اور اس پر کامل بھروسے کے ساتھ آج اس مقام پر ہے کہ بارود کے ڈھیر ایٹمی اسرائیل کو اپنی شرائط پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ اسرائیل جس کی پشت پر ٹیکنالوجی کی مہارت اور دنیا کی سپر پاورز کی حمایت ہے۔
بے شک اللہ سب سے بڑا کارساز ہے۔

فَاَکۡثَرُوۡا فِیۡہَا الۡفَسَادَ  فَصَبَّ عَلَیۡہِمۡ رَبُّکَ سَوۡطَ عَذَابٍ  اِنَّ رَبَّکَ لَبِالۡمِرۡصَادِ
(الفجر)
یہ وہ لوگ جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور ان میں بہت فساد پھیلایا تھا۔ آخر کار تمہارے ربّ نے ان پر عذاب
کا کوڑا برسا دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ گھات لگائے ہوئے ہے.