Tuesday 24 October 2017

سید منور حسن


جماعت اسلامی پاکستان کےچوتھےامیر تھے۔ اگست 1944 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ تعلق تقسیم برصغیر سے پہلے کے شرفاءے دہلی سے ہے۔ آزادی کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان کو اپنے مسکن کے طور پر چنا اور کراچی منتقل ہوگئے۔ انہوں نے 1963 ء میں جامعہ کراچی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا۔ پھر1966 ء میں یہیں سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی منور حسن اپنی برجستگی اور شستہ تقریر میں معروف ہوگئے۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ علاوہ ازیں بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت[ترمیم]
اس کے بعد طلبہ کی بائیں بازوکی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن(NSF)میں شامل ہوئے،اور1959 ء میں اس تنظیم کے صدر بن گئے۔ زندگی میں حقیقی تبدیلی اس وقت برپا ہوئی جب آپ نے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے کارکنان کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھااور مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی کی تحریروں کا مطالعہ کیا۔ نتیجتاً آپ 1960 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوگئےاورجلد ہی جامعہ کراچی یونٹ کے صدر اور مرکزی شورٰی کے رکن بنادیے گئے۔ بعد ازاں 1964 ء میں آپ اس کے مرکزی صدر (ناظم اعلٰی) بنے اور مسلسل تین ٹرم کے لیےاس عہدے پرکام کرتے رہے۔ان کی عرصئہ نظامت میں جمعیت نے طلبہ مسائل، نظام تعلیم اور تعلیم نسواں کو درپیش مسائل کے سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کی خاطر کئی مہمات چلائیں۔
جماعت اسلامی میں شمولیت[ترمیم]
1963 ء میں اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے تک ترقی کی۔ان کی زیِر قیادت اس اکیڈمی نے ستر (70) علمی کتابیں شائع کیں۔ ماہنامہ The criterion اور The Universal Message کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ سید منورحسن 1967 ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیراور پھر امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شورٰی اور مجلس عاملہ کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ کئی فورمز پر جماعت اسلامی کی نمائندگی کی جیسے یونائیٹد ڈیموکریٹک فورم اور پاکستان نیشنل الائنس (پاکستان قومی اتحاد) وغیرہ ۔ 1977 ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لےکر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992 ء میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993ء میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔
آپ متعدد د بین الاقوامی کانفرنسوں اورسیمینارزمیں شرکت کرچکے ہیں۔ نیز ریاست ہائے متحدہ امریکہ،کینیڈا،مشرق وسطٰی ،جنوب مشرق اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان[ترمیم]
مارچ 2009ء میں سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہوگئے ہیں۔ ان سے قبل جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی ، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری نبھاءی۔ آپ جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے ہیں۔ مدت 2009ء تا 2014ء ہے۔
گو امریکہ گو مہم[ترمیم]
پاکستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر سید منور حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل امریکہ کا اس خطے سے چلے جانا ہے ، جب تک امریکہ اس خطے میں رہے گا دہشگردی میں اضافہ ہوتا رہے گا، اس لئے ضروی ہے کہ تمام سطحی کاموں کو چھوڑ کر پوری قوم گو امریکہ گو مہم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے۔

Friday 6 October 2017

مولانا مودودی رح کے کمال

بہت کم مُفکّرِ قُرآن ایسے نظر آئیں گے جو اپنے پیچھے کوئی فِرقہ چھوڑ کر نہیں گئے.
حالیہ صدیوں میں شاہ ولیُ اللہ اور مودُودی صاحب نے یہ عظیم مثال قائم کی.
مودُودی صاحب کی انفرادیت تو یہ بھی ہے کہ قُرآن کی تعلیم کسی باقائدہ ادارے یا اُستاد سے حاصل نہیں کی اور عام فہم تفہیمُ القُرآن لکھ کر نہ صرف عام آدمی کے لیے قُرآن کا فہم آسان کیا بلکہ پہلی بار قُرآن کو اسلامی کلیسا کے ہاتھ سے چھین کر اُن دُنیاوی تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھ میں دے دیا جن سے اُنکا دُور دُور تک کا تعلُق بھی نہیں تھا.
میں ذاتی طور پر چار بڑے سکالز سے مُتاثّر ہُوں جن میں مصری سکالر ڈاکٹر طارق رمضان، انڈین سکالر سیّد عبدُاللہ طارق، ہاورڈ سکالر لیلیٰ بختیار اور کینیڈین سکالر اِدریسہ پنڈت شامل ہیں ان سب کا دُور دُور تک مودُودی صاحب سے کوئی تعلُق نہیں لیکن ان سب میں ایک قدرِ مُشترک یہ ہے کہ یہ سب قُرآن کی طرف مودُودی صاحب کی کوئی نہ کوئی تصنیف پڑھ کر آئے.
ان سب کی الگ الگ فکر ہے لیلیٰ بختیار نے قُرآن کا موجُودہ ٹرمینالوجیز کا استعمال کر کے تاریخ کا پہلا بامُحاورہ انگلش ترجُمہ دی سب لائم قُرآن لکھا جس پر جامعةُ الاظہر نے اپنی مُہر لگائی یہ ترجُمہ چونکہ بامُحاورہ ہے اس لیے نو مُسلم گوروں اور مُحقِقین کے لیے آسانی پیدا کرتا ہے.
ڈاکٹر طارق رمضان یہُودی بیک گراوٴنڈ رکھتے ہیں لیکن اسلام نے ان کے گھر کا راستہ مودُدودی صاحب کی تصانیف کے ذریعے دیکھا. ڈاکٹر صاحب آکسفورڈ میں پڑھاتے تھے اب امیرکہ آگئے ہیں. امریکہ ان پر پابندی لگانا چاہتا تھا لیکن انکے امریکی سٹوڈنٹس نے تحریک چلا کر انکا ویزا بحال کروایا. انھوں نے سیرت مُحمدؐ پر ایک کتاب '' اِن دا فُٹ سٹیپس آف پرافِٹ لکھی جو سیرت پر لکھی گئی لاکھوں کتابوں کی امام کہی جاسکتی ہے.
اِدریسہ پنڈت کا بیک گراوٴنڈ ہندو ہے اسلام نے ان کا در بھی مولانا مودُودی کی فکر کے ذریعے دیکھا ان کی خاصیّت انٹر فیتھ ڈائلاگ ہےہاورڈ اور دیگر امریکن یُونیورسٹیز میں پڑھانے کے بعد یہ کینیڈا آگئیں اور اب یہاں ایک یُونیورسٹی میں ادیان عالم کے ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں اور اتنی مُوٴثر ہیں کہ انکا کیے ہُوئے کام کی جھلک کینیڈین حکُومتی پالیسی میں نظر آتی ہے.
سید عبدُاللہ طارق تیس سال تک انڈین دہریوں کے سربراہ رہے. جب مُسلمان ہُوئے تو ایسے مُسلمان بنے کہ ڈاکٹر اسرار جیسے عالم نے بھی اُنہیں اُمّت پر اللہ کی رحمت قرار دیا. یہ بھی مودودی صاحب سے قطعی مُختلف ہونے کے باوجُود مودُودی فکر کا ہی پودا ہیں.
میری اُوپر بیان کیے گئے چاروں افراد سے کمیونیکیشن جاری رہتی ہےاور مجھےان لوگوں سے بات کرکے ہمیشہ یقین ہو جاتا ہے کہ اسلام جلد ہی دُنیا کو نئی لیڈرشپ دے گا.
میں مولانا مودُودی کے فلسفے سے زیادہ مُتفق نہیں ہوں لیکن میرے دل سے مودودی کے لیے دُعا نکلتی ہے کہ اُن کے تحقیقی کام میں اتنی ڈائورسٹی اور وضاحت تھی کہ دُنیا بھر میں اُس کام نے خُود مودودی صاحب سے بالکل مُختلف ایسے لوگ پیدا کیے جو اسلام کی الگ الگ جہتوں سے دُنیا کو مُتعارف کروا رہے ہیں اورمودُودی صاحب کے نام پر کوئی فرقہ بھی نہیں بناتے.
کُچھ سال پہلے مُجھے اُزبکستان، تُرکمانستان اور قازقستان کی چھے یُونیورسٹیز کا وزٹ کرنا پڑا. وہاں میری حیرت کی دوبڑی وجُوہات تھیں ایک یہ کہ ان تینوں مُلکوں کے یُونیورسڑیز کے نوجوان حقیقی اسلام سے مُتعلق بہت پُرجوش تھے اور دوسری حیرت اس بات پر ہُوئی کہ ان ملکوں کی یُونیورسٹیز کے بیشتر اساتذہ مودُودی کے تحقیقی کام پر بِلڈ کرتے ہیں.
میرے خیال سے مودودی صاحب کا کمال بس اتنا ہے کہ اُنہوں نے قُرآن کی ایسی غیرفرقہ ورانہ تشریح کی تھی جس سے تعلیم یافتہ افراد کا مُتاثر ہونا ضروری تھا اور چُونکہ اپنے ابتدائی طالب علموں کو باندھنے کی کوشش کی بجائے صرف فُوڈ فار تھاٹ دیا لہٰذا اُنکے طالب علموں نے اُنکے کام کو الگ الگ سمتوں میں جاری رکھا.
Engrisrarahmad@hotmail.com

Wednesday 4 October 2017

سعادت کی زندگی شہادت کی موت

بہت افسوس ہوتا ہے جب کسی کو حق کی دعوت دی جائے اور اس کی طرف سے جواب ملے کہ میں جہاں پہ ہوں بالکل ٹھیک ہوں مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے یہاں پر میں ایک بات بتاتا چلوں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا آغاز کیا تو مکہ کے مشرک بھی یہی کہتے تھے کہ ہم جہاں ہیں ٹھیک ہیں ہم اپنے باپ دادا کے دین پر ہیں اور اسی پر مریں گےان سے کوئی پوچھے ارے پاگل اگر تمہارے باپ دادا مشرک مرے ہیں تو کیا تم بھی انہی کی طرح مشرک مرو گےدین اسلام بہت ہی وسیع اور مکمل دین ہے اس میں نہ کسی قسم کے اضافے کی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کمی کیوں کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہےآج کے دن ہم نے یہ دین مکمل کر دیا اور آپ(نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم) پر اپنی نعمت مکمل کی اور اسلام کو بحثیت دین پسند کیااسلام کے اس راستے پر ہوتے ہوئے ہمیں کسی قسم کی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہم بالکل درست سمت میں چل رہے ہیں بشرطیکہ اس تحقیق کے بعد کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیںاللہ تعالٰی ہمیں درست راستہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ایسا راستے جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا راستہ تھاآمین
یہاں پر ایک بات کی تفصیل ضروری سمجھوں گا کہ ہمیں تحقیق کیا کرنی ہے؟؟
ہمیں تحقیق یہ کرنی ہوگی کہکیا ہماری نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، کے علاوہ خوشی، غمی،لوگوں کے ساتھ تعلقات کاروبار اور روز مرہ کے مسائل واقعی قرآن و حدیث کے مطابق ہیںاگر تو واقعی ہم قرآن و حدیث کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں تو الحمداللہ اور اگر اس میں کمی کوتاہی،احادیث کی مخالفت اور بدعات و خرافات موجود ہیں تو ہمیں اللہ سے توبہ و استغفار کرنے چاہئیں اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منہج اپناتے ہوئے اللہ رب العزت سےسعادت کی زندگی شہادت کی موت کی دعاکرنی چاہیے۔
تحریر:اسرار احمد انڈس یونیورسٹی کراچی
Engrisrarahmad@hotmial.com

Tuesday 3 October 2017

قومی اسمبلی میں نااہل نواز شریف کی متنازعہ بل پاس کرانے پر جماعت اسلامی کا ردعمل

جماعت اسلامی کے ممبران قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ ،صاحبزادہ محمد یعقوب ،شیر اکبر خان اور محترمہ عائشہ سیدنے سینیٹ سے مورخہ 22 ستمبر 2017ء کو ترامیم کیساتھ منظور ہونے والے انتخابی اصلاحات بل 2017ء میں جمع کرائی گئی پانچ ترامیم کی تفصیل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ
پہلی ترمیم بل کی دفعہ9میں خواتین کے لیے دس فیصد لازمی ووٹ ڈالنے کی پابند ی کے بارے میں اپنے مؤقف کی وضاحت میں کہا ہے کہ مذکورہ سیکشن کے اندر عورتوں کے ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ اگر کسی حلقے میں کل پول شدہ ووٹوں میں سے خواتین کے ووٹوں کا تناسب 10 فیصد سے کم ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن یہ فرض کرے گا کہ عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے کسی معاہدے کے نتیجے میں روکا گیا ہے۔ اور الیکشن کمیشن ایک پولنگ سٹیشن یا ایک سے زیادہ پولنگ سٹیشنز یا پورے حلقے میں الیکشن کو کالعدم قرار دے دیگا۔ ہم نے مذکورہ بالا ترمیم کے ذریعے 10 فیصد والی شرط کی بجائے یہ ترمیم دی ہے کہ جس طرح عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنا قانون کی خلاف ورزی ہو ، اِسی طرح عورتوں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنا بھی خلافِ قانون ہے، اس لیے کہ اس قانون میں کہیں بھی مردوں اور عورتوں کو زبردستی ووٹ ڈالنے کی پابندی نہیں ہے، لیکن 10فیصد کی شرط کا مطلب ہر حلقے میں 10 فیصد خواتین کو ووٹ ڈالنے کا پابند کرناہے۔
2۔ دوسری ترمیم دفعہ27ذیلی شق (4) کے آخر میں جملہ شرطیہ کو حذف کرنے سے متعلق ہے۔یہ شق بنیادی طور پر اُن افراد سے متعلق ہے جنہوں نے اپنے ووٹ کو مستقل یا عارضی ایڈریس کے علاوہ کسی دیگر ایڈریس پر درج کرایا ہوا ہے، اس قانون کے مطابق 31دسمبر 2018ء کے بعد اُس کے ووٹ کا اندراج ختم ہوجائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ 31 دسمبر 2018ء کے جس شخص کا اُس کے مستقبل یا عارضی پتے کے علاوہ کسی ایڈریس پر اندراج ہے اُس کو نئے سرے سے اپنا ووٹ اندراج کرانا پڑے گا۔ اس طرح پورے پاکستان میں لاکھوں افراد کاووٹ کا اندراج ختم ہو جائے گا۔
3,4۔ تیسری ترمیم دفعہ 60ذیلی دفعہ (2)میں ہے اور چوتھی ترمیم دفعہ 110ذیلی دفعہ (2)میں ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی میں ختم کیا گیا ’’حلفیہ اقرار نامہ‘‘ کو برقرار رکھا جائے ۔کاغذات نامزدگی سے حلف نامہ ختم کرنے سے ممبران کو انکے ڈیکلریشن کی بنیاد پر آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کا اطلاق کرتے ہوئے نااہل نہیں کیا جا سکے گا۔
اسکے ساتھ ہی کاغذاتِ نامزدگی میں ختم نبوت کے اقرار نامہ کے شروع میں ’’صدق دل سے قسم اٹھانے کو ختم کیا گیا ہے‘‘ اس لیے جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ سیکشن میں صدق دل سے قسم اٹھانے کے الفاظ کو شامل کیا جائے۔فارم اے اور فارم بی کو مذکورہ ترامیم کے مطابق بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی نے پانچویں ترمیمسیکشن 203 میں ذیلی شق (الف) کے بعد حسبِ ذیل جملہ شرطیہ کا اضافہ کرنے کی دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہہ ایسا شخص کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار نہیں بن سکے گا جو بطور رکن پارلیمنٹ (مجلسِ شوریٰ)سے نااہل قرار دے دیا جائے یا جو قانون ہذا کے نفاذ سے پہلے کسی دیگر نافذ العمل قانون کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہو۔‘‘یاد رہے کہ جماعت اسلامی نے اس سے قبل مختلف مواقع پر پارلیمانی کمیٹی میں اختلافی نوٹ،قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پندرہ سے زائدترامیم جمع کرائی تھیں جو کہ اکثریت کی بنیا د پر حکومت نے منظور نہیں کیں۔
نوٹ:ہماری معلومات کے مطابق conduct of general election order(7) 2002میں مندرجہ ذیل سیکشن 7bاور7cاور حلفیہ اقرار نامہ ختم نبوت کو اب موجودہ قانون میں ختم کیا گیا ہے۔
3[7B. Status of Ahmadis etc. to remain unchanged.151Notwithstanding
anything contained in the Electoral Rolls Act, 1974 (XXI of 1974), the Electoral Rolls, Rules, 1974, or any other law for the time being in force, including the Forms prescribed for preparation of electoral rolls on joint electorate basis in pursuance of Article 7 of the Conduct of General Elections Order, 2002 (Chief Executive's Order No. 7 of 2002), the status of Quadiani Group or the Lahori Group (who call themselves `Ahmadis' or by any other name) or a person who does not believe in the absolute
and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him), the last of the prophets or claimed or claims to be a Prophet, in any sense of the word or
of any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him) or recognizes such a claimant as a Prophet or religious reformer shall remain the same as provided in the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan, 1973.
7C.151If a person has got himself enrolled as voter and objection is filed before the Revising Authority notified under the Electoral Rolls Act, 1974, within ten days from issuance of the Conduct of General Elections (Second Amendment) Order,2002, that such a voter is not a Muslim, the Revising Authority shall issue a notice to him to appear before it within fifteen days and require him to sign a declaration regarding his belief about the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhamamd (peace be upon him) in Form-IV prescribed under the Electoral Rolls Rules, 1974. In case he refuses to sign the declaration as aforesaid, he shall be deemed to be a non-Muslim and his name shall be deleted from the joint electoral rolls and added to a supplementary list of voters in the same electoral area as nonMuslim.
In case the voter does not turn up in spite of service of notice, an ex-parte order may be passed against him.]