Saturday 21 July 2018

"نظریات فی فکرالامام المودودی‘‘

یوں تو غیرمنقسم ہندوستان کی تحریک اسلامی کے بانی ومرشد مولانا سید ابوالاعلی مودودی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ان کی سیرت اور شخصیت پر کافی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، لیکن جب کسی عالمی شخصیت پر کوئی عالمی شخصیت قلم اٹھاتی ہے، تو اس کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔

مولانا مودودی بلاشبہہ اپنے دور کی ایک عالمی شخصیت تھے، پوری مسلم دنیا انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ سعودی حکومت نے شاہ فیصل کی یادگار کے طور پر جب فیصل ایوارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو ساری دنیا کے مسلم علماء اور مسلم اسکالرس کے اتفاق رائے سے سب سے پہلے فیصل ایوارڈ کو مولانا مودودی کی ہی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔

اسی طرح ڈاکٹر یوسف القرضاوی بلاشبہہ اپنے وقت کی عالمی شخصیت ہیں۔ وہ تحریک (الاخوان المسلمون) کے چوٹی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ علماء اسلام کی عالمی یونین (الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین) کے صدر ہیں۔ ان کی گراں قدر علمی تصانیف ساری دنیا میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں۔

ادھر کچھ دنوں پہلے (نظرات فی فکرالامام المودودی) کے نام سے ان کی تازہ تصنیف منظرعام پر آئی ہے، جو گرچہ نہایت مختصر ہے، مگر راقم الحروف کے خیال میں علامہ مودودی پر لکھی گئی کتابوں میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ زوردار کتاب ہے۔ اس کتاب کی الگ شان، اور الگ آن ہے۔

یہ کتاب ’’قدر جوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘‘ کا بہترین مصداق ہے۔ علامہ قرضاوی نے جتنی فراخ دلی سے علامہ مودودی کی عظمتوں کا اعتراف کیا ہے، یہ خود ان کی عظمت کی دلیل ہے۔

یہ صحیح ہے کہ کسی کے علم وفضل کو اہل علم وفضل ہی پہچانتے ہیں، کسی کی بلندیوں کی پیمائش بلندیوں پر رہنے والے ہی کرسکتے ہیں۔

ہندوپاک کے علماء اس گوہر یگانہ کو اس طرح نہیں پہچان سکے، جس طرح وادئ نیل کے گوہر شناس دیدہ وروں نے پہچانا۔

امام حسن البنا شہید کے ساتھیوں سے براہ راست ہماری ملاقاتیں رہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ امام حسن البنا شہید انہیں علامہ مودودی کی کتابیں پڑھنے کی تاکید کیا کرتے تھے، اور فرماتے تھے:
(یوں سمجھو گویا یہ ہماری ہی کتابیں ہیں!)

امام سید قطب شہید اپنی بے مثال تفسیر (فی ظلال القرآن) میں جگہ جگہ علامہ مودودی کی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں، اور انہیں وہ خطاب دیتے ہیں، جس سے زیادہ بلند اور عظیم خطاب ایک مومن کے نزدیک کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ وہ جگہ جگہ انہیں (المسلم العظیم) یعنی ’’عظیم مسلم‘‘ کے نام سے ذکر کرتے ہیں۔

علامہ قرضاوی بھی انہیں ایک عظیم مصلح، ایک عظیم مفکر اور ایک بلندپایہ مجدد کہتے ہیں، اور انہیں الامام المودودی کہہ کر امت کے ائمہ عظام کی صف میں لاکھڑا کرتے ہیں۔

یہاں کسی کو ہرگز ہرگز یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ یہ عقیدت کی زبان ہے، یہ سارے لوگ جن کا تذکرہ کیا گیا، یہ سب انتہائی حقیقت پسند اور دیدہ ور لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کے خوگر رہے ہیں۔

چنانچہ علامہ قرضاوی جہاں علامہ مودودی کے علم وفضل ، ان کے فہم وذکا، ان کی بصیرت وعزیمت، ان کی عبقریت اور بلند نگاہی اور غلبۂ اسلام کے لیے ان کی بے قراری کا اعتراف کرتے ہیں، وہیں متعدد امور میں ان کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں، اور بغیر کسی رو رعایت کے ان پر نقد کرتے ہیں۔

علامہ قرضاوی نے مولانا مودودی پر جو نقد کیا ہے، اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے علامہ مودودی کی جو تعریف وتحسین کی ہے، وہ عقیدت کی بنیاد پر نہیں کی، بلکہ انہوں نے ان کی کتابوں کا تحقیقی اور معروضی مطالعہ کیا ہے، جو چیزیں قابل تعریف ملیں، ان کی تعریف کی ہے، اور جو باتیں قابل تنقید نظر آئیں، ان پر تنقید کی ہے۔

یہاں مولانا مودودی پر تنقید کی بات آگئی ہے، تو بہتر معلوم ہوتا ہے کہ لگے ہاتھوں ان تنقیدوں کا سرسری جائزہ لے لیا جائے، جو ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے علامہ مودودی پر کی ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ہم نے ایک ایک کرکے ان ساری تنقیدوں پر غور کیا، ان کی طرف سے جو جو مسائل اٹھائے گئے ہیں، ان سب کا جائزہ لیا تو ہمیں ان سارے امور میں مولانا مودودی کا موقف ہی زیادہ مضبوط ومحکم اور کتاب وسنت سے قریب تر معلوم ہوا۔

مثال کے طور پر علامہ مودودی اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’پردہ‘‘ میں عورت کے لیے چہرے کا پردہ ضروری قرار دیتے ہیں۔

علامہ یوسف القرضاوی اسے مذہبی تشدد اور مغربی تہذیب کے خلاف ایک ردّعمل قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ چہرے کا پردہ واضح طور سے قرآن پاک سے ثابت ہے۔

سورہ احزاب میں اہل ایمان کو امہات المومنین کے سامنے جانے سے منع کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
(وَإِذَا سَأَلْتُمُوھنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوھنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْھرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِھن)
(تمہیں ان سے (یعنی امہات المومنین سے) کوئی چیز یا کوئی سامان مانگنا ہو ، تو آڑ سے یا پردے کے پیچھے سے مانگو، تمہارے دلوں کی پاکی اسی میں ہے، اور ان کے دلوں کی پاکی بھی اسی میں ہے۔)

اس آیت کریمہ میں واضح طور سے نامحرم اہل ایمان کو امہات المومنین کے گھروں میں داخل ہونے، اور آمنے سامنے ہوکر گفتگو کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ ممانعت آئی تو ہے امہات المومنین کے سیاق میں، لیکن یہ امہات المومنین کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
تمام نامحرم مردوں کا نامحرم عورتوں کے تعلق سے یہی حکم ہوگا۔ اہل فکرونظر کے ہاں یہ ایک مسلمہ اصول ہے، کہ کسی شخص یا کسی گروہ کو کوئی حکم دیا جائے، اور اس حکم کی علت وحکمت بھی بیان کردی جائے، تو ایسی صورت میں وہ حکم اس شخص یا گروہ کے لیے خاص نہیں رہ جاتا، بلکہ جہاں جہاں وہ علت پائی جائے گی، وہ حکم لاگو ہوگا۔

اس حکم کی علت وحکمت یہ بتائی گئی ہے کہ اسی میں قلب کی طہارت ہے، چاہے وہ امہات المومنین ہوں، یا گروہ مومنین ہو۔ ظاہر ہے اگر اس حکم کا تعلق طہارت قلب سے ہے، تو یہ تمام انسانوں کی ضرورت ہے، خواہ وہ عورتیں ہوں، یا مرد ہوں، اور خواہ وہ اُس دور کے لوگ ہوں، یا اِس دور کے لوگ۔

یہ ایک نہایت واضح دلیل ہے چہرے کے پردے کی، اس کے علاوہ بھی قرآن پاک میں اس کی متعدد دلیلیں موجود ہیں، لیکن ظاہر ہے یہاں زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔

علامہ یوسف قرضاوی کا ایک اور اعتراض یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جمہوریت یا ڈیموکریسی کے سلسلے میں بھی تشدد کا رویہ اختیار کیا ہے، اس پر زبردست تنقید کی، اور اسے حاکمیت الہ کے مقابلے میں حاکمیت جمہور کہہ کر ٹھکرا دیا۔ حالانکہ اس کے سلسلے میں نرم موقف اختیار کرنا چاہئے تھا، اس میں جو خوبیاں ہیں، ان کو تسلیم کرنا چاہئے تھا۔

علامہ قرضاوی کا خیال ہے کہ جمہوریت کا حاکمیت الہ سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ جمہوریت دراصل کسی ایک فرد یا ایک فیملی کی حکومت کے مقابلے میں عوام کی حکومت کا اعلان ہے۔ جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں عوام کو آزادی حاصل ہوتی ہے، اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے، جبکہ بادشاہت میں یہ دونوں چیزیں ناپید ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک شریعت کی بالادستی کا تعلق ہے، تو یہ چیز تو باقی رہے گی ہی، مسلم سماج میں جو ڈیموکریسی ہوگی، وہ تو شریعت کی پابند اور حاکمیت الہ کی حامی ہوگی ہی۔

راقم الحروف کے خیال میں علامہ قرضاوی کی اس بات میں کچھ زیادہ وزن نہیں ہے، ضرورت ہے کہ وہ اپنی اس رائے پر نظرثانی کریں۔

یہ صحیح ہے کہ جمہوریت شخصی بادشاہت کے بجائے عوامی حکومت کا اعلان ہے، لیکن اس کی جو روح ہے، وہ حاکمیت الہ نہیں، حاکمیت جمہور ہے۔ یعنی قانون اور نظام اللہ کا بنایا ہوا نہیں، بلکہ انسانوں کا بنایا ہوا چلے گا۔

ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو اسے حاکمیت جمہور کہنا بھی صحیح نہیں۔ جمہوری حکومتوں میں جمہور کا رول تو صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کے موقع پر کسی پارٹی کو اپنا ووٹ دے دیں، اور جب جمہور کے ووٹ سے کوئی پارٹی برسراقتدار آجاتی ہے، تو پھر جمہور کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں، اور رولر پارٹی ہی ملک کے سیاہ وسپید کی مالک بن جاتی ہے۔

اس کے بعد جمہور کو حکومت سے اگر کوئی بات منوانی ہو تو انہیں مرن برت رکھنے پڑتے ہیں، دھرنے دینے پڑتے ہیں، ریلیاں نکالنی پڑتی ہیں، اور بسااوقات بے رحم پولیس کے ڈنڈے کھانے پڑتے ہیں۔ اس طرح کتنی ہی جانیں ہلاک ہوجاتی ہیں! کتنے ہی جسم لہولہان ہوجاتے ہیں! اور کتنے ہی خاندان تباہ ہوجاتے ہیں۔

جہاں تک عوام کو آزادی حاصل ہونے یا حقوق ملنے کی بات ہے، تو یہ بھی اک دھوکا اور جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ جمہوری ملکوں میں کس کو آزادی حاصل ہوتی ہے؟ اور کس کو حقوق ملتے ہیں؟ علامہ اقبال نے کتنی صحیح بات کہی ہے ؂

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیرازنوائے قیصری
دیواستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

آج انہی جمہوری ملکوں کا یہ حال ہے کہ وہاں ہزاروں لاکھوں انسان اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ اور فقروفاقہ، خوف وہراس اور بدامنی وبے اطمینانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

جو لوگ اسلامی نظام اور اس کی برکتوں سے ناواقف ہیں، وہ لوگ تو جمہوریت کے جھوٹے وعدوں اور پرفریب نعروں سے دھوکا کھاسکتے ہیں، اور کھاتے ہیں۔ مگر جو لوگ اسلامی نظام کی برکتوں سے واقف ہیں، ان کے لیے جمہوریت یا ڈیموکریسی میں کیا کشش ہوسکتی ہے؟

خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب خلافت سنبھالی تو اپنے پہلے ہی خطبے میں یہ اعلان کیا کہ :

(لوگو! تمہیں اپنے حقوق کے لیے ہم سے کوئی کشمکش نہیں کرنی پڑے گی، بس ہمیں یہ اطلاع ہوجائے کہ کس کے کیا حقوق ہیں، ان شاء اللہ ہر ایک کے حقوق اس کے گھر پہنچ جائیں گے!)

یہ ہے اسلامی نظام جو ہر ایک کو آزادی بھی دیتا ہے، عزت بھی دیتا ہے، اور بغیر کسی ریلی اور دھرنے کے ہر ایک کے حقوق اس کے گھر پہنچاتا ہے۔

کیا ڈیموکریسی کی پوری تاریخ میں آج تک کسی حکمراں نے اس طرح کا اعلان کیا ہے؟یا عملاََ ایسا کرکے دکھایا ہے؟

صرف اور صرف اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے اسلامی نظام کی یہ شان ہے کہ اس نے ہر غریب مظلوم کے آنسو پونچھے، ہر ضرورت مند کی ضرورتیں پوری کیں، ہر مصیبت زدہ کی غم خواری کی، اور ہر شہری کو آزادی اور عزت کی قبا پہنائی۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، مگر آج اس حقیقت کو کون تسلیم کرے گا؟ یہ امت مسلمہ کی بدنصیبی ہے کہ آج اس کے سروں پر ایسے ہی حکمراں مسلط ہیں، اور ماضی بعید سے ہوتے آرہے ہیں، جنہیں اسلام سے کوئی واسطہ نہیں رہا ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ فرزندان اسلام کا خون پیا ہے، اور خون مسلم ہی ان کی مرغوب ترین غذا رہی ہے!

اس طرح انہوں نے اسلام کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ بڑی تاریک اور انتہائی بھیانک ہے۔ ورنہ ان حکمرانوں نے اگر اسلام کو سینے سے لگایا ہوتا، اس کی صحیح نمائندگی کی ہوتی، اور دنیا کو اس کی برکتوں کا مشاہدہ کرایا ہوتا، تو آج دنیا کیوں تاریکیوں میں بھٹکتی؟ اور خدا کے بھیجے ہوئے نظام خیروبرکت کو چھوڑ کر کیوں مفادپرست انسانوں کے بنائے ہوئے ظالمانہ نظاموں کے تلخ تجربے کرتی؟!

دنیا کو یہ جاننا چاہئے کہ آج نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی حکمرانی کا جو رنگ وہ دیکھ رہے ہیں، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ان حکمرانوں کی اپنی تصویریں ہیں، جن میں اسلام کی کوئی جھلک نہیں، اسلام ان سے ناخوش وبے زار ہے! اور مکمل طور سے ان سے اعلان براء ت کرتا ہے!

الغرض جمہوریت یا جمہوری نظام پر اگر علامہ مودودی نے کڑی کڑی تنقیدیں کیں، تو یہ ان کی غلطی نہیں تھی، بلکہ یہ ان کی بصیرت اور عزیمت تھی، یہ ان کی شدت پسندی نہیں بلکہ حقیقت پسندی تھی۔ علامہ مودودی جیسے دیدہ ور عالم اور قائد تحریک سے اسی کی توقع کی جاسکتی تھی، جو انہوں نے کیا اور کہا۔

جمہوریت کی حیثیت زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسے دوسرے انسانی ازموں اور باطل نظاموں کے مقابلے میں قدرے غنیمت قرار دیا جائے۔ اور أھون البلیّتین کے اصول پر کسی بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے اس سے چھوٹی مصیبت پر طبیعت کو راضی کرلیا جائے۔

اگر علامہ مودودی نے پاکستان کی الیکشنی سیاست میں کبھی حصہ لیا، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آخر میں ان کا نظریہ بدل گیا تھا۔ اور جمہوریت سے انہیں کوئی خوش گمانی ہوگئی تھی۔

بلکہ یہ دراصل غلبۂ اسلام کے لیے بے قراری تھی، بالکل اسی طرح کی بے قراری تھی جس طرح کسی پیاسے کو ہوتی ہے۔

کبھی پیاس کا مارا ہوا شخص پیاس کی شدت سے سراب کے پیچھے دوڑتا ہے۔ کبھی تو پانی کے دھوکے میں دوڑتا ہے، اور کبھی پانی نہ ملنے کی صورت میں جانتے بوجھتے سراب کی جھوٹی چمک سے ہی اپنی طبیعت کو بہلاتا ہے۔

جہاں تک علامہ قرضاوی کی یہ بات ہے کہ مسلم سماج میں جمہوریت خود بخود شریعت کی پابند ہوگی، وہاں حاکمیت الہ اور حاکمیت جمہور کا جھگڑا نہیں ہوگا، تو ایسا کس مسلم سماج میں ہوا ہے؟ کیا آج اس روئے زمین پر کوئی ایسا مسلم سماج ہے، جس نے جمہوری نظام کو اس روح اور اس اسپرٹ کے ساتھ اپنایا ہو؟

یہ محض اک خوش فہمی یا خوش گمانی ہے، جس کا عملی دنیامیں نہ کہیں وجود ہے، نہ آئندہ اس کا کوئی امکان ہے!

یہاں گفتگوچل رہی تھی مولانا مودودی کے نظریۂ جمہوریت کی۔جمہوریت پر مولانا علیہ الرحمہ کی گفتگو بہت ہی پہلودار، اور بڑی جاندار ہے۔ اسے مکمل طور سے سمجھنے اور اس کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ براہ راست مولانا کی تحریروں پر غور کیا جائے۔ مولانا فرماتے ہیں:

(ہم جمہوری حکومت کے بجائے جمہوری خلافت کے قائل ہیں۔ شخصی بادشاہی، اور امیروں کے اقتدار، اور طبقوں کی اجارہ داری کے ہم بھی اتنے ہی مخالف ہیں، جتنا موجودہ زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا جمہوریت پرست ہوسکتا ہے۔

اجتماعی زندگی میں تمام لوگوں کے یکساں حقوق، مساویانہ حیثیت اور کھلے مواقع پر ہمیں بھی اتنا ہی اصرار ہے جتنا مغربی جمہوریت کے کسی بڑے سے بڑے حامی کو ہوسکتا ہے۔

ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت کا انتظام اور حکمرانوں کا انتخاب تمام باشندوں کی آزادانہ مرضی اور رائے سے ہونا چاہیے۔

ہم بھی اس نظام زندگی کے سخت مخالف ہیں جس میں لوگوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی، اور سعی وعمل کی آزادی نہ ہو۔ یا جس میں پیدائش اور نسل اور طبقات کی بنا پر بعض لوگوں کے لیے مخصوص حقوق، اور بعض دوسرے لوگوں کے لیے مخصوص رکاوٹیں ہوں۔

یہ امور، جو جمہوریت کا اصل جوہر (Essence) ہیں، ان میں ہماری جمہوریت اور مغربی جمہوریت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اہل مغرب نے ہمیں سکھائی ہو۔ ہم اس جمہوریت کو اس وقت سے جانتے ہیں، اور دنیا کو اس کا بہترین عملی نمونہ دکھاچکے ہیں، جبکہ مغربی جمہوریت پرستوں کی پیدائش میں ابھی سینکڑوں برس کی دیر تھی۔

دراصل ہمیں اس نوخیز جمہوریت سے جس چیز میں اختلاف اور نہایت سخت اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ یہ جمہور کی مطلق العنان بادشاہی کا اصول پیش کرتی ہے۔ اور ہم اس کو حقیقت کے اعتبار سے غلط اور نتائج کے اعتبار سے تباہ کن سمجھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بادشاہی (Sovereignty) صرف اس کا حق ہے جس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ )

مولانا مزید فرماتے ہیں:

(انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ خدا کو حاکم مان کر انسانی زندگی کا نظام حکومت خلافت ونیابت کے نظریہ پر بنایا جائے، یہ خلافت بلاشبہہ جمہوری ہونی چاہیے۔ جمہور کی رائے ہی سے حکومت کے امیر یا ناظم اعلی کا انتخاب ہونا چاہیے۔ انہی کی رائے سے اہل شوری منتخب ہونے چاہئیں۔ انہی کے مشورے سے حکومت کے سارے انتظامات چلنے چاہئیں۔ ان کو تنقید واحتساب کا کھلا حق ہونا چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ اس احساس وشعور کے ساتھ ہونا چاہیے کہ ملک خدا کا ہے۔ ہم مالک نہیں بلکہ نائب ہیں۔ اور ہمیں اپنے ہر کام کا حساب اصل مالک کو دینا ہے۔ نیز وہ اخلاقی اصول اور وہ قانونی احکام اور حدود اپنی جگہ اٹل ہونے چاہئیں، جو خدا نے ہماری زندگی کے لیے مقرر کردیے ہیں۔ )

مولانا مزید فرماتے ہیں:

(پھر یہ ضروری ہے کہ اس پورے نظام تمدن وسیاست کی کارفرمائی، اور اس کا انتظام ان لوگوں کے سپرد ہو جو خدا سے ڈرنے والے ، اس کی اطاعت کرنے والے، اور ہر کام میں اس کی رضا چاہنے والے ہوں۔ جن کی زندگی گواہ ہو کہ وہ خدا کے حضور اپنی پیشی اور جواب دہی کا یقین رکھتے ہیں۔)

(ملاحظہ ہو: تحریک اور کارکن، صفحہ ۳۳؍۳۵)

یہ ہے مولانا مودودی کا تصور جمہوریت! یہ نہ مذہبی تشدد ہے، نہ مغربی تہذیب کا ردعمل! یہ ہے دینی بصیرت اور اسلامی حمیت! یہ ہے بے پناہ داعیانہ تڑپ جو مغربی جمہوریت کو ’’مسلم‘‘ بنانے اور اسے اسلامی خلافت کے سانچے میں ڈھالنے پر مصر ہے!

مولانا مودودی نے اسلام اور جاہلیت کی جو تشریح کی ہے، اس پر بھی لوگوں کو اعتراض ہے۔ علماء ومشائخ کو بھی اعتراض ہے اور مسلمانوں کے حکمرانوں کو بھی اعتراض ہے۔

یہ گفتگو جو خالص کتاب وسنت کی ترجمان ہے، یہ گفتگومسلم دنیا کے لیے حلق کا کانٹا بن گئی ہے۔ علامہ یوسف قرضاوی کا بھی خیال ہے کہ علامہ مودودی نے اس میں غلو سے کام لیا ہے، اور اس کے سلسلے میں بہت سخت موقف اختیار کیا ہے۔

غور کیا جائے تو یہاں پر بھی علامہ مودودی ہی واضح طور سے حق بجانب نظر آتے ہیں۔ اسلام اور جاہلیت کی علامہ نے جو تشریح کی ہے، وہ صد فیصد صحیح اور قرآن وسنت کے عین مطابق ہے۔

جن لوگوں کو علامہ مودودی کے نظریہ اسلام وجاہلیت سے بے چینی ہے، ان کی بے چینی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہے، بلکہ ان کی بے چینی اس بات پر ہے کہ اگر وہ تشریح صحیح مان لی جائے تو دنیا بھر کے وہ سارے سماج جو آج مسلم سماج سمجھے جاتے ہیں، یا جو اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں، وہ سب جاہلیت زدہ سماج قرار پائیں گے۔

حد یہ ہے کہ مسلمانوں کے وہ طبقات، اور عرب وعجم کے وہ حکمراں، جو رات دن اسلام کی مخالفت اور خدا اور رسول سے بغاوت میں مصروف رہتے ہیں، انہیں بھی یہ اصرار ہے کہ انہیں خادم اسلام اور پاسبان حرم کہا جائے، اور ان پر جاہلیت زدہ ہونے کا الزام نہ لگایا جائے۔

امام سید قطب شہید کو تختہ دار پر چڑھانے کی اصل وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اسلام اور جاہلیت کی جو تشریح کی، اس کی زد خونخوار فرعون مصر جمال عبدالناصر پر بھی پڑ رہی تھی۔ اور ان تمام لوگوں پر پڑ رہی تھی، جو اس کی فرعونیت کے گن گارہے تھے، اور اسے نہایت اعزاز واکرام کے ساتھ جبہ ودستار پہنا رہے تھے، یا جو اس کی فرعونیت پر چپ سادھے ہوئے تھے۔

اس کی زد ان علماء ومشائخ پر بھی پڑ رہی تھی، جو مغربی تہذیب اور مغربی کلچر کے دل دادہ تھے، یا جو آخرت سے زیادہ دنیا کے طالب تھے، جن کی زندگیاں آخرت فراموشی اور دنیا طلبی کا بدترین نمونہ تھیں۔

علامہ مودودی نے اسلام اور جاہلیت کی جو تشریح کی ہے، اس کی زد ان تمام حکام وسلاطین پر بھی پڑتی ہے، جو ہماری تاریخ کے ہیرو سمجھے جاتے ہیں، چاہے وہ جس دور کے بھی ہوں۔

ظاہر ہے وہ سارے لوگ جن کے ہاتھوں میں اقتدار آیا، اور اس سے انہوں نے اسلام کی خدمت واشاعت اور اسلام کی نمائندگی نہیں کی، اور پورے نظام سلطنت کو اسلامی شریعت کے تابع نہیں رکھا، جنہوں نے اپنے اقتدار سے اسلام اور اہل اسلام کی خدمت کرنے کے بجائے، اپنی اور اپنے خاندان کی دنیا سنوارنے کی کوشش کی، وہ اگر جاہلیت زدہ نہیں تھے تو اور کیا تھے؟

اسلامی خلافت یا اسلامی حکومت ملکی فتوحات کا نام نہیں ہے، نہ اس کا نام ہے کہ بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں، لوگ تو آج بھی اسلام میں داخل ہورہے ہیں، اور بھاری تعداد میں داخل ہورہے ہیں، ہندوستان میں بھی داخل ہورہے ہیں، یورپ، امریکا، اور چین جاپان میں بھی داخل ہورہے ہیں، اور ان سارے ملکوں میں داخل ہورہے ہیں، جہاں اسلام کو مٹانے کی منظم کوششیں ہورہی ہیں۔

اسلامی حکومت تو اس کا نام ہے کہ حاکم اپنی پوری زندگی میں سچا مسلم اور اللہ ورسول کا تابع فرمان ہو، اور اس کا پورا نظام سلطنت شریعت کے تابع اور شریعت کے رنگ میں رنگا ہوا ہو، اس کے ہاں ظلم وزیادتی نام کی کوئی چیز نہ ہو، اور ہر ایک کو کلمۂ حق کہنے کی پوری آزادی حاصل ہو۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خلفائے اربعہ اور خلیفہ خامس حضرت عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کس کا نام لیا جاسکتا ہے؟

اب اگر ہماری تاریخ میں خلفاء وسلاطین کا ایک لمبا سلسلہ رہا ہے، مگر انہوں نے نہ اپنی ذات کو، نہ نظام سلطنت کو مکمل طور سے اسلامی شریعت کا پابند رکھا، تو یہ جاہلیت نہیں تھی، تو اور کیا چیز تھی؟

قرآن پاک میں جن بزرگ اصحاب رسول کی بار بار تعریف کی گئی ہے اور نہایت وجد آفریں انداز میں کی گئی ہے، وہ صحابہ کرام جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوکر غلبۂ اسلام کے لیے اپنی جانیں لڑائیں، اور ہر طرح کی جانی ومالی قربانیاں پیش کیں، ان سے محبت رکھنا اور جان ودل سے ان کا احترام کرنا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، اور وہی لوگ صحیح معنوں میں اسلام کے نمائندے تھے۔

ان کے سلسلے میں جتنی بھی غلط باتیں تاریخ میں آئی ہیں، جو ان کے شایان شان نہیں ہیں، وہ سب باتیں اس قابل ہیں کہ انہیں ٹھکرادیا جائے،اور بے تکلف کہہ دیا جائے: سُبْحَانَکَ ھَذَا بُھتَانٌ عَظِیْمٌ

البتہ جو لوگ ان کے بعد کے ہیں، جن کا سب سے بڑا کارنامہ اقتدار کے لیے کشمکش اور اقتدار کے لیے خوں ریزی رہا ہے، ان کی وکالت کرنا اور ان کی کوتاہیوں اور بدعنوانیوں کو نظرانداز کرنا، اور ان بادشاہوں کی فتوحات پر فخر کرنا یہ کسی طور سے ہمارے شایان شان نہیں ہے۔

کچھ اچھے کام تو ہر حکمراں کے ہاں مل جاتے ہیں۔ اگر سیکڑوں سال پر پھیلی ہوئی مسلمانوں کی تاریخ میں سے کچھ اچھے اور قابل ذکر کام ہم چن لیں، اور ان کا گلدستہ تیار کرکے کہیں: یہ ہے ہماری تاریخ اور اس کے کارنامے!

اور انہی کے پہلو بہ پہلوجو دوسرے بہت سے کام ہیں، جن پر ایک حساس اور دردمند مسلم سرپیٹ لیتا ہے، اور بسااوقات خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے، ان سب کاموں سے صرف نظر کرلیں، تو یہ کہاں کا انصاف اور کہاں کی حقیقت پسندی ہوگی؟
یہاں مسئلہ ملکی فتوحات یا کچھ اچھے کاموں یا کارناموں کا نہیں، بلکہ اسلامی نظام حکومت اور اسلامی آداب حکمرانی کی سچی اور مکمل نمائندگی کا ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ پر علامہ مودودی کی تنقیدیں اور تبصرے اور اسلام کے بے لوث پیمانوں کی روشنی میں حکام وسلاطین کا بے لاگ احتساب، یہ علامہ کا زبردست کارنامہ ہے، جس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہیں۔

البتہ علامہ قرضاوی کا یہ رجحان بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ہماری اسلامی تاریخ اپنی اصل شکل میں مدوّن نہیں ہوئی ہے، اس میں واقعات کی صحیح اور سچی تصویر نہیں پیش کی گئی ہے۔ اسے بڑی مہارت کے ساتھ بگاڑنے اور بدنما وبدرنگ بنانے کی منظم کوشش ہوئی ہے۔

اور یہ تنہا علامہ قرضاوی کا رجحان نہیں ہے۔ ان سے پہلے امام سید قطب، علامہ علی طنطاوی اور دوسرے محققین بھی یہی بات کہہ چکے ہیں۔

اس موضوع پر علامہ قرضاوی کی ایک مستقل تصنیف بھی ہے (تاریخنا المفتری علیہ) یعنی (ہماری تاریخ، جو بگاڑ دی گئی ہے)

لیکن سانحہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے ہاتھوں میں وہی بگڑی ہوئی تاریخ ہے، اور اسی بگڑی ہوئی تاریخ کو لے کر اسلام پر حملے کیے جاتے ہیں، اور اس کی نہایت گھناؤنی تصویر پیش کی جاتی ہے۔

ایسی صورت میں وہی بات کہی جاسکتی ہے جو علامہ مودودی نے فرمائی ہے، کہ یہ دین اسلام کی تصویر نہیں ہے، بلکہ جاہلیت کی تصویر ہے۔

اب اگر اسلامی تاریخ کی نئی تدوین ہوجائے، اور اس کی اصل تابناک تصویر سامنے آجائے، تو چشم ماروشن دل ما شاد! پھر تو سارا جھگڑا ہی ختم ہوجاتا ہے۔

یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ علامہ مودودی نے اسلام اور جاہلیت پر تو زور قلم صرف کیا، اسلام کیا ہے؟ اور جاہلیت کیا ہے؟ ان دونوں میں بنیادی فرق کیا ہے؟ کیا ان دونوں کا یکجا ہونا ممکن ہے؟ مسلم امت کی موجودہ حالت اسلام کی نمائندگی کررہی ہے یا جاہلیت کی؟ ان موضوعات پر مولانا نے جم کے لکھا، اور پوری جرأت کے ساتھ لکھا۔ لیکن کسی پر بھی انہوں نے کفر کا فتوی نہیں لگایا، مسئلہ تکفیر ایک الگ مسئلہ ہے، جس کا اس مسئلہ اسلام وجاہلیت سے کوئی تعلق نہیں۔

علامہ مودودی سے پہلے کسی نے اسلام اور جاہلیت پر اس طرح کھل کر گفتگو نہیں کی، مگر مسئلہ تکفیر کا جہاں تک تعلق ہے، تو یہ کاروبار تو علامہ مودودی کے عالم وجود میں آنے سے بہت پہلے سے چل رہا ہے، اور بہت زور وشور سے چل رہا ہے۔
اس امت کے جتنے مصلحین اور مجددین گزرے ہیں، ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو، جس پر تکفیر کے تیر نہ برسائے گئے ہوں، اور اس کا دامن تار تار نہ کیا گیا ہو۔
خود مولانا مودودی بھی اس تیر سے خوب خوب لہولہان ہوئے ہیں، اور بری طرح ان کی شخصیت کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ لہذا علامہ مودودی کو فتنہ تکفیر کا ذمہ دار قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟

آج تکفیر کا ترکش ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، جن کا مولانا مودودی اور تحریک اسلامی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ایسی صورت میں فتنۂ تکفیر کا سہرا مولانامودودی کے سرباندھنا مولانا کے ساتھ بھی زیادتی ہے، اور ان لوگوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے، جو بہت زمانے سے یہ ’کار عظیم‘ انجام دیتے آئے ہیں۔ اور صحیح معنوں میں اس کے حق دار ہیں کہ انہیں یہ تاج پہنایا جائے!

بات خاصی لمبی ہوگئی۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، امام مودودی اور علامہ قرضاوی دونوں ہی ملت کی محبوب اور گراں بہا شخصیتیں ہیں۔ جب ان کی بات چھڑتی ہے، تو قلم میں خود بخود روانی آجاتی ہے۔ لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم۔

علامہ قرضاوی کی یہ کتاب ہمارے لٹریچر میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ انہوں نے امام مودودی کی شخصیت کا جو تجزیہ پیش ہے، اور جس طرح بے باکی اور فیاضی کے ساتھ ان کی عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے، یہ خود ان کی عظمت کی دلیل ہے۔

غالباََ یہاں یہ کہنا تحصیل حاصل ہوگا کہ اگر علامہ قرضاوی نے اعتراف عظمت کے ساتھ ساتھ امام مودودی پر کچھ گرفت بھی کی ہے، تو اس سے ان کی عظمت میں ذرہ برابر کمی نہیں آتی۔

بالکل یہی صورتحال علامہ قرضاوی کی ہے۔ اگر راقم الحروف نے ان سے اختلاف کیا ہے، یا ان کے اعتراضات پر کچھ اظہار خیال کیا ہے، تو اس سے ان کی عظمت پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

بیشک یہ دونوں بزرگ امت مسلمہ کے گل سرسبد ہیں۔ یہ آسمان اسلام کے چمکتے دمکتے آفتاب وماہتاب ہیں، ان کی چاندنی اور ان کی روشنی سے کتنے ذہن اور کتنے دل ودماغ روشن ہوئے، اور ہورہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا کسی کے بس میں نہیں۔
آج حالت یہ ہے کہ کسی بڑے سے بڑے فرعون کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان کی روشنی کو دبا سکے، یا ان کے چراغ کو بجھا سکے۔ وَذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَشَاءُ۔

ضرورت تھی کہ علامہ قرضاوی کی اس گراں قدر کتاب کو اردو کا پیرہن بھی پہنایا جائے۔ یہ سعادت عزیزی ابوالاعلیٰ سید سبحانی کے نصیب میں لکھی تھی۔ انہوں نے بڑی عرق ریزی اور جاں فشانی کے ساتھ اس کے لیے خوبصورت اردو پیرہن تیار کیا ، جو اس کتاب کے شایان شان ہے۔ اس پر وہ اردو دنیا کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اللہ تعالیٰ اس کوشش کو شرف قبول عطا فرمائے، اور لوگوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔ آمین

No comments:

Post a Comment