Wednesday 12 December 2018

6 دسمبر ۔ سقوط مشرقی پاکستان کے کچھ اہم حقائق

سقوط ڈھاکہ ہمارے ملک کا ایک سیاہ ترین ،دل دکھانے والا ،اپنوں کے بچھڑ جانے کا ،الگ ہو نے کا ،گھر ،خاندان کے ٹوٹ جانے کا دکھ ہر محبت وطن پاکستانی چاہے اس کا تعلق بنگلہ دیش سے ہو یا پاکستان سے ہو کو ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ بنگلہ دیش اس دن آزادی کادن مناتا ہے اور پاکستان میں اس دن غم کے بادل امڈ آتے ہیں ۔بنگلہ دیش میں بھی ایسے افراد ہیں جو دل سے اس دن خوش نہیں ہوتے وہ بھی پاکستان کے ٹوٹنے کا غم مناتے ہیں ۔1947ء میں نظریہ پاکستان کی بنیاد پر پاکستان کی انگریزوں اور ہندوئوں سے آزادی میں موجودہ بنگلہ دیش کے باسیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔اور صرف 24 سال بعد 16 دسمبر1971ء کو یہ ملک ٹوٹ گیا ،قوموں کی زندگی میں 24 سال کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی لیکن اتنے عرصے میں ایک ملک کا ٹوٹ جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے

سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ ’’آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘‘ اُن کے دل میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف چھپی نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندرا گاندھی نجی محفلوں میں اکثر یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنایا۔‘‘
۔ بھارت کا یہ پروپیگنڈہ کہ پاکستانی جنگی قیدیوں کی تعداد 90 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی، درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجیوں کی مجموعی تعداد تقریباً 34 ہزار تھی اور پولیس، پیرا ملٹری اور سرکاری ملازمین کو ملاکر یہ تعداد 90 ہزار بنتی تھی

1994/95 ء
کی بات ہے، ایوان کارکنان پاکستان (لاہور) میں 16 دسمبر کی تقریب تھی،  میجر جنرل (ر) رائو فرمان علی جو مشرقی پاکستان کے آخری گورنر اے ایم مالک کے مشیر اور پھر بھارت میں قید رہے تھے، سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب و واقعات پر روشنی ڈال رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہم تو یہاں سے ایک ہزار میل دور تھے اور ادھر سے ہم پر عجب عجب فیصلے تھوپے جا رہے تھے۔ یہ بے نظیر زرداری کی دوسری حکومت تھی، سامعین رائو صاحب سے مطالبہ کر رہے تھے کہ آپ کھل کر بتائیں کہ فیصلے کون کر رہا تھا اور وہ بتا نہیں پا رہے تھے۔ اتنے میں ایک صاحب اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’میں بتاتا ہوں کہ فیصلے کون کر رہا تھا۔ میرا نام کرنل محمود ہے اور کرنل سلیم اس بات کے گواہ ہیں کہ جب بھارتی طیارہ گنگا (30 جنوری 1971ئ) کو لاہور ایئر پورٹ پر اتار لیا گیا تو صدر پاکستان جنرل یحییٰ کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر بتایا گیا کہ ایک بھارتی طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر آن اترا ہے۔ اس کا کیا کیاجائے؟ جنرل یحییٰ نے نہایت بے نیازی سے جواب دیا: ’’جائو، بھٹو سے جا کے پوچھ لو‘‘۔ اس پر ہال میں ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے بلند ہوئے۔
یاللعجب! صدر پاکستان، آرمی چیف اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یعنی تین اعلیٰ ترین ملکی عہدوں کا مالک ایک ایسے شخص سے فیصلہ طلب کرنے کو کہہ رہا ہے جس کے پاس کوئی ملکی عہدہ نہیں اور وہ محض نومنتخب قومی اسمبلی میں اقلیتی پارٹی کا لیڈر ہے اور ابھی اس نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف بھی نہیں اٹھایا۔ سامعین کو اس سوال کا جواب مل گیا کہ قومی تاریخ کے ان نازک ترین برسوں میں حکومتی باگ ڈور اصلاً کس کے ہاتھ میں تھی اور کون بلانوش شرابی صدر یحییٰ کو اپنے شیطانی مقاصد کے لئے گدھے کی طرح استعمال کر رہا تھا۔ اگلے روز میں نے دو تین بڑے قومی اخبارات دیکھے مگر ایوان کارکنان پاکستان کے جلسے کی رپورٹنگ میں کرنل مذکور کے انکشاف کا ذکر تک نہیںتھا، اس لئے کہ میڈیا کے محبوب لیڈر کی جھوٹی شان میں فرق آتا تھا۔ ’’گنگا‘‘ دو کشمیری نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے ہائی جیک کیاتھا۔ اگلی شب ذوالفقار علی بھٹو طیارے کے اندران سے ملے اور پھر اسی شب ایک سازش کے تحت طیارے کو آگ لگا دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ گنگا کی آتش زنی میں بھٹو کا اشارہ اور ایک ایجنسی کا تعاون شامل تھا۔ اس احمقانہ اقدام کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان جانے والے ہمارے طیاروں کو اپنی فضا سے گزرنے کی ممانعت کر دی۔ ہمارے طیارے پھر کولمبو (سری لنکا) کے راستے مشرقی پاکستان جاتے رہے۔ اس طرح ہمارا مشرقی صوبہ ہم سے ڈھائی تین ہزار میل دور ہو گیا۔
وسط فروری میں اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ہو گا، لیکن پھر لاڑکانہ پلان کے مطابق بھٹو نے شیخ مجیب اور اس کے چھ نکات کی زور دار مخالفت شروع کر دی۔ اس دوران میں اسلام آباد میں طے کر لیا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا جائے۔ مجیب کو پتہ چلا تو اس نے گورنر ایڈمرل (ر) احسن اور ڈپٹی مارشل لائ، ایڈمنسٹریٹر صاحبزادہ یعقوب خان کی منت کی کہ خدا کے لئے اجلاس ملتوی نہ کریں، اگر ملتوی کرنا ہی ہے تو مجھے نئی تاریخ دے دیں تاکہ میں بنگالیوں کو مطمئن کر سکوں جو پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں کہ فوج اور بھٹو نے منتخب بنگالی قیادت کے خلاف گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ اس پر ایڈمرل احسن اور جنرل صاحبزادہ یعقوب خان اسلام آباد آئے اور شیخ مجیب کا پیغام دیا کہ اگر قومی اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ نہ دی گئی تو مشرقی پاکستان میں شدید ایجی ٹیشن ہو گا جسے فوج بھی کنٹرول نہ کر سکے گی، لیکن بدبخت جنرل یحییٰ نے کہا کہ جا کر بھٹو کو منائو، چنانچہ وہ دونوں سیدھے کلفٹن (کراچی) پہنچے اور کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیا جائے ورنہ وہاں خونریز ایجی ٹیشن ہو گا۔ اس پر بھٹو کا جواب تھا، چند ہزار بونگلوں کے مرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ گویا بنگالی بھٹو کے نزدیک قابل نفرت ’’بونگلے‘‘ تھے جن کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ یہ ساری تفصیل صاحبزادہ یعقوب خاں نے بعد میں ندائے ملت کے ایک انٹرویو میں سنائی۔ انہی دنوں بھٹو نے 28فروری 1971ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے شعلہ بار تقریر کی اور قومی اسمبلی کے اجلاس ڈھاکہ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ارکان ڈھاکہ میں یرغمال ہوں گے، لہٰذا ہم ڈھاکہ نہیں جائیں گے بلکہ جو ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ جیالے صحافی عباس اطہران دنوں روزنامہ ’’آزاد‘‘ میں کام کرتے تھے، انہوں نے بھٹو کی ملک کو دو لخت کرنے کی بنیاد رکھنے والی آتشیں تقریر کو ’’ادھر تم، ادھر ہم‘‘ کی بلیغ سرخی میں سمو دیا جو بھٹو کے ملک توڑنے کے کردار سے چپک کر رہ گئی، دراصل پاکستان اسی روز دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔
اگلے دن اسلام آباد سے اعلان ہوا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے، بھٹو کے سوا مغربی پاکستان سے بیشتر لیڈر ڈھاکہ پہنچ چکے تھے، ان میں پی پی پی کے رکن اسمبلی صاحبزادہ احمد رضا قصوری بھی شامل تھے جو بھٹو کی اس نئی روش کے سخت ناقد تھے اور اسی ’’جرم‘‘ میں چند سال بعد بھٹو صاحب احمد رضا کی ٹانگیں تو نہ توڑ سکے مگر ان کے والد نواب احمد رضا قصوری کو بھٹو کی خصوصی فورس ایف ایس ایف نے شادمان (لاہور) میں ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا اور اس مقدمے میں بھٹو صاحب دیگر ملزموں کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے حکم پر پھانسی پا گئے، خود احمد رضا قصوری اور ان کی والدہ فیڈرل سکیورٹی فورس (FSF) کی فائرنگ میں بچ گئے تھے۔
قصہ کوتاہ، قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہوتے ہی پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئی، لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر مظاہر کرنے لگے۔ دریں اثناء گورنر احسن اور صاحبزادہ یعقوب خان نے استعفا دے دیا تھا۔ ادھر سے بھٹو کے پسندیدہ جرنیل ٹکا خان کو گورنر اور ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر ڈھاکہ بھیجا گیا (جنہیں بعد میں بھٹو نے آرمی چیف اور پھر وزیر دفاع بنایا)، ٹکا خان سے وہاں ہائیکورٹ کے کسی جج نے حلف لینا گوارا نہیں کیا۔ ٹکا خان کے حکم پر ایجی ٹیشن کرنے والے آنسو گیس اور گولیوں کا نشانہ بننے لگے۔ جب معاملات ہاتھ سے نکل گئے تو پہلے یحییٰ خان اور پھر مسٹر بھٹو ڈھاکہ پہنچے۔ اس دوران میں 14مارچ کو بھٹو بیان دے چکے تھے کہ اس ملک میں دو وزیراعظم ہوں گے، وہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پی پی پی کو اقتدار سونپنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ڈھاکہ میں نئے مذاکرات لاحاصل رہے۔ 25 مارچ کی رات یحییٰ خان آرمی ایکشن کا حکم دے کرچلے آئے۔ اگلے روزبھٹو صاحب کراچی روانہ ہوئے۔ انہوں نے یہاں آ کر کہا: ’’ایسٹ بنگال رجمنٹ کے فوجی بھی چھائونیوں سے فرار ہو گئے، عوامی لیگ کے ایم این اے اور ایم پی اے فرار ہو کر سرحد پار بھارت چلے گئے، فوج نے شیخ مجیب الرحمن اور ڈاکٹرکمال کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان پہنچا دیا۔ ٹکا خان کی فورس نے بنگالیوں کے خلاف گنوں کے منہ کھول دیئے۔ تب بڑی سنگدلی سے ٹکا خان نے کہا تھا، مجھے لوگ نہیں،زمین چاہئے۔ جواب میں بنگالیوں نے بھی ’’پنجابیوں‘‘ اور بہاریوں کا خون بہانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس خونریزی کے ذمہ دارکون تھے؟ یقینا یحییٰ خان اور ان کے جرم میں برابر کے شریک مسٹر بھٹو! بنگالیوں نے ٹکا خان کو قصاب (Butcher) کا لقب دے دیا۔ ادھر میجر ضیاء الرحمن نے چٹا گانگ میں اپنے اعلیٰ افسر کو شہید کر کے ریڈیو سے بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا۔ بہاریوں اور مغربی پاکستان کی فیملیز پرغیر انسانی مظالم ڈھائے گئے۔ فوج کو پورے صوبے پر کنٹرول حاصل کرنے کے میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ لگا۔ اندرا گاندھی نے بنگالی نوجوانوں کو مغربی بنگال کے کیمپوں میں گوریلا تربیت دی۔ نیز بھارتی فوجی سول کپڑوں میں ان کے ہمراہ کئے اور یوں مکتی باہنی تشکیل دے کر انہیں گوریلا جنگ کے لئے مشرقی پاکستان میں داخل کر دیا۔مکتی باہنی کا کمانڈر کرنل عثمانی تھا۔ اس فورس نے مقامی بنگالیوں کے تعاون سے پاک فوج کو بڑا زچ کیا۔ پاک فوج نے اس کے مقابلے میں البدر اور الشمس تنظیمیں تشکیل دیں۔ اس دوران میں بنگالی ٹکا خان کے خون کے پیاسے تھے۔ ستمبر 1971ء میں انہیں واپس بلا کر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو وہاں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کربھیجا گیا لیکن جو ہونا تھا وہ ہو کر تاریخ کا حصہ بن گیا ۔

الطاف حسن قریشی ۔ ہفت روزہ " صحافت 14 دسمبر 1977 کے شمارے میں لکھتے ہیں

"پاکستان کا پرچم سرزمینِ ڈھاکہ میں سَر نِگوں ہو گیا ۔ جنرل نیازی اپنا ریوالور کھولتے ہیں اور گولیوں سے خالی کر کے جنرل اروڑا کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں ۔ جنرل نیازی کے تمغے اور رینک سرِ عام اتارے جاتے ہیں ۔ اُن کا چہرہ گہرے سمندر کی طرح ساکت رہتا ھے ۔ ہجوم کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ھے ۔ جنرل نیازی اپنی جیپ کی طرف آتے ہیں جس کا بھارتی فوجیوں نے محاصرہ کر رکھا ھے ۔
قصاب ، بھیڑیے اور قاتل " کا شور بلند ہوتا ھے ۔ جنرل نیازی اپنی گاڑی میں بیٹھنے والے ہیں ۔ ایک آدمی محاصرہ توڑ کر آگے بڑھتا ھے اور اُن کے سر پر جوتا کھینچ کر مارتا ھے ۔
ہائے ! یہ رسوائی ، یہ بےبسی اور یہ بےچارگی ، یہ ذلت اور یہ ہزیمت ۔
ہماری تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ "

یاد رکھیں جو قوم تاریخ سے سبق حاصل نہ کرے اور اپنے ماضی کو یاد نہ رکھے .... وہ باربار ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کرتی ہے۔ ماہرین عمرانیات قوموں کے ماضی کو ان کی یادداشت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جو قوم اپنا ماضی بھول جائے وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھتی ہے۔ پھر ایسی قوم پر ایک وقت آتا ہے جب وہ خود قصئہ ماضی بن جاتی ہے

No comments:

Post a Comment