Tuesday 11 December 2018

تحفظ ناموس رسالت ﷺ کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟

ناک انسانی چہرے پر اونچا اور نمایا مقام رکھتا ہے ، چیرے کو سڈول اور خوبصورت بناتا یے۔ ناک کا اصل کام تو سانس لینا اور سونگهنا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ناک اونچی رکهنے یعنی جهوٹی شان و شوکت اور غرور و تکبر جتانے میں استعمال ہوتا ہے۔

اللہ رب العزت تو اپنے ادنٰی ترین بندے کی بھی تحقیر و تذلیل برداشت نہیں کرتے چہ جائکہ کہ کوئی اللہ کے محبوب ترین ہستی کو اہانت کا نشانہ بنائے۔ جب مکہ کے قریش سرداروں نے آنحضرت ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ہی عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ ابوجہل و ابو لہب کے عبرتناک انجام سے کون واقف نہیں ہے۔ اور ولید بن مغیرہ جو کہ بڑا بدذات تھا‘ اس کی بدذاتی یہ تھی کہ جھوٹا‘ بات بات پر قسمیں کھانے والا‘ چغل خور‘ نیک کاموں سے روکنے والا‘ بد مزاج‘ سرکش اور حرامی تھا۔ اسے مال و اولاد کا بڑا گھمنڈ تھا۔ اس بد بخت نے اللہ کے پیارے نبی ﷺ کو دیوانہ کہا تھا جس سے مقصود نبوت کا ابطال تھا۔ اس کے جواب میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے سورہ قلم میں پہلے اپنے حبیب ﷺ کی نبوت ‘ آپ ﷺ کے اخلاق حمیدہ اور اجرِ آخرت بڑی واضح دلائل سے ثابت کرکے جنون کی نفی کی:

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (١)

ن، قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں

مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ (٢)

(اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں،

وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ (٣)

اور بے شک آپ کے لئے ایسا اَجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا،

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (٤)

اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)،

فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ (٥)

پس عنقریب آپ (بھی) دیکھ لیں گے اور وہ (بھی) دیکھ لیں گے،

بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ (٦)

کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے،

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (٧)

بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے، اور وہ ان کو (بھی) خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں، (سورة القلم)

پھر آپ ﷺ کے خلق عظیم کے مقابلے میں اس بدبخت کے دس عیوب بیان فرما دیئے:

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ (١٠)

اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قَسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہے،

هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ (١١)

(جو) طعنہ زَن، عیب جُو (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لئے چغل خوری کرتا پھرتا ہے،

مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ (١٢)

(جو) بھلائی کے کام سے بہت روکنے والا بخیل، حد سے بڑھنے والا سرکش (اور) سخت گنہگار ہے،

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ (١٣)

(جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے

أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ (١٤)

اِس لئے (اس کی بات کو اہمیت نہ دیں) کہ وہ مال دار اور صاحبِ اَولاد ہے،

إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (١٥) سورة القلم

جب اس پر ہماری آیتیں تلاوت کی جائیں (تو) کہتا ہے: یہ (تو) پہلے لوگوں کے اَفسانے ہیں، (سورة القلم)

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جتنے ذِلت آمیز اَلقاب باری تعالیٰ نے اس بدبخت (ولید بن مغیرہ) کو دئیے کلامِ اِلٰہی میں کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس نے حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اَقدس میں گستاخی کی، جس پر غضبِ اِلٰہی بھڑک اٹھا۔ ولید نے حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کا ایک کلمہ بولا تھا، جواباً اللہ رب العزت نے اُس کے دس رذائل بیان کیے اور آخر میں نطفۂ حرام ہونا بھی ظاہر کر دیا، اور اس کی ماں نے بعد ازاں اِس اَمر کی بھی تصدیق کر دی۔ (تفسیر قرطبی، رازی، نسفی وغیرھم)

اور آخر میں اللہ اس کی ناک کو خاک ملا کر عبرتناک انجام تک پہنچایا:

سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ (١٦)

’’اب ہم اس کی سونڈ جیسی ( اونچی) ناک پر داغ لگا دیں گے ‘‘ (سورة القلم)

اللہ تعالی اس متکبر کو اور بھی سزا دے سکتے تهے‘ لیکن ناک پر داغ لگانے کی سزا کیوں تجویز کی؟

کیونکہ ناک ہی جھوٹی عزت اور غرور و تکبر کا نشان ہے۔
اس لئے اس کی کفر خبیثانہ کی پاداش میں اس کے چہرے اور ناک کو داغدار کرکے اس کی جھوٹی عزت اور غرور و تکبر کو خاک میں ملا دینا ہی شانِ رسول ﷺ میں گشتاخی اور اللہ کے ساتھ سرتابی و سرکشی کی مناسب سزا تھی ۔

یہ سزا ہر خبیث و کمینہ گستاخِ رسول اللہ ﷺ کے حق میں عام ہے۔

اور اس کے علاوہ دنیا اور آخرت میں لعنت اور ذلیل کرنے والا عذاب بهی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (٥٧)

’’ بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولﷺ کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘ (سورۃ احزاب)

ہم بھی بے شمار لعنت بھیجتے ہیں ایسے جھوٹے‘ خبیث‘ کمینے‘ بدذات‘ بد کار و بد کردار اور سرکش لوگوں پر جو فریڈم آف اسپیچ  یعنی اظہار رائے کی آذادی کے نام پر شعائرِ اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں، اسلام کی ہتک اور تذلیل کرتے ہیں ، مقدس ہستیوں،  اسلامی ہیروز کو (معاذ اللہ) برا بھلا کہتے ہیں ‘ انہیں ظالم بنا کر پیش کرتے ہیں اور مسلمانوں، حجاب، قرآن، مساجد، اسلامی تعلیمات اور اسلامی شعار کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا کر رہے ہیں ۔ ان کی ناپاک عزائم  اب  یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ  اربوں مسلمانوں کی  دلوں کی دھڑکن ‘ اربوں مسلمانوں کے جان سے بھی پیارے رسول اللہ ﷺ کی ہتک آمیز خاکے  بنانے  کے مقابلے بھی کروانے لگے۔

الحمد للہ ! ہم مسلمانوں کے بھر پور احتجاج نے ان کمبختوں کے دلوں میں  رعب پیدا کر دیا اور وہ  اپنے اس ناپاک عزائم سے باز رہے۔ اس پر ہم سب مسلمانوں کو  اللہ کا بیشمار شکر ادا کرنا چاہئے اور شکرانے کی نمازیں ادا کرنی چاہئے ۔ اس کے  ساتھ ہی اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئے  کیونکہ  اگر ہم ہی  فرقے میں بٹے  ہوں  اور  ایک دوسرے فرقے کے اسلاف پر لعن طعن کر رہے ہوں‘ ان کے  ہتک آمیز  خاکے بنا کر فیس بک  اور سوشل میڈیا پر شائع کر رہے ہوں تو یہود و نصاریٰ اور کفار کو   ہمارے پیارے نبی ﷺ کی(نعوذ باللہ) تضحیک کرنے سے کون روک سکتا ہے؟
ہم ناموس رسالت ﷺ کے محافظ تو  بنتے ہیں لیکن أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ کی ڈگر پر  نہیں چلتے  ‘ قرآن و سنت  پر عمل کرنے سے ہماری جان جاتی ہے۔ اپنے  اخلاق کے بارے میں ہم خود ہی جانتے ہیں جو  نبوی اخلاق سے کسی صورت بھی مطابقت نہیں رکھتا‘ ہمارے معاملات میں نبی ﷺ کی تعلیم کی کوئی جھلک نہیں اور اپنے معاملات میں  ہم نےکجروی اختیار کی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ جس کی وجہ کر کفار کے اذہان میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی  صحیح تصویر واضح نہیں ہو پاتی اور وہ آپ ﷺ کو بھی ہمارے جیسا ہی تصور کرتے ہیں۔

نبی ﷺ کی محبت ہم سبھوں کے دلوں میں  دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہے ‘ یہاں تک کہ اپنی جان  اور ماں باپ اور بیوی بچوں سے بھی زیادہ۔
ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت میں ہر مسلمان اپنا جان قربان کرتا ہے تو کیا  ہمارے لئے مشکل ہے کہ ہم سنتوں پر عمل نہ کریں؟
آپ ﷺ نے جس مکارم اخلاق کی تکمیل کر گئے ہیں ‘ کیا ہمارے لئے مشکل ہے کہ ہم آپ ﷺ کی محبت میں اپنا اخلاق ویسا نہ بنائیں؟
قرآن و سنت کے مطابق اپنے معاملات کو درست نہ کریں؟
اپنے نبی ﷺ کی نافرمانی کرنا نہ چھوڑ دیں؟
اللہ کی نافرمانی  میں زندگی نہ گزاریں؟
فرقہ پرستی کی بت کو اپنے ہاتھوں سے توڑ نہ دیں ؟
اور ایک متحد امت بن کر ناموس رسالت ﷺ کے محافظ نہ بن جائیں؟

بلا شبہ یہ سب ممکن ہے اور اسی طرح ہم سب ناموس رسالت ﷺ کے سچے محافظ بن سکتے ہیں۔

جس کے بعد کسی کفار کو کبھی بھی یہ جرائت نہ ہوگی کہ وہ ناموس رسالت ﷺ یا دین  اسلام   کی کسی شعائرپر انگلی اٹھائے۔

آج ڈنمارک یا کسی اور کی حکومت کیا شہنشاہ فارس کسریٰ (خسرو پرویز ) کی حکومت سے بڑھ کر ہے؟ ۔ جب خسرو پرویز ملعون نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ ﷺ کا خط پھاڑ دیا تو اللہ رب العزت نے اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہی اسے قتل کروا کر عبرت کا نمونہ بنا دیا اور اس کی حکومت کو پارہ پارہ کر دیا۔

اور ناموسِ رسالت کے محافظوں کو اس ملک فارس (ایران) کا وارث بنا دیا۔

آج بھی ہمارے رب کیلئے ایسا کرنا ممکن ہے‘ بس ہم مسلمانوں کو فرقہ پرستی چھوڑ کر قرآن و سنت پر واپس آنا ہوگا اور ناموس رسالت کا سچا محافظ بننا ہوگا۔ ان شاء اللہ پھر جلد ہی اللہ سبحانہ و تعالی ناموس رسالت کی حفاظت کرنے والوں کو ڈنمارک کیا پورے دنیا کا وارث بنا دے گا۔

لیکن اگر ایسا نہیں ہوا‘ اگر ہم ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کیلئے فرقہ پرستی چھوڑ کر قرآن و سنت والی سچے دین پر آکر متحد نہیں ہو سکے تو اللہ کیلئے یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارا نام مٹا دے‘ جس طرح اندلس سے مٹا دیا۔

لہذا فرقہ پرستی کی بت کو آج ہی توڑ دیجئے اور اپنے دلوں سے نکال پھیکئے۔
قرآن و سنت کا علم حاصل کیجئے اور سچے دین کو اپنائیے۔
ناموس رسالت کی حفاظت کیجئے۔
شان ِمحمد مصطفی ﷺ کو سمجھئے۔
عظمتِ رسول اللہ ﷺ کو اپنے دل میں جگہ دیجئے۔
اپنے دل میں ایمان کی دیا جلائیے ‘ حب رسول ﷺ سے اپنے دل کو معمور کیجئے۔

No comments:

Post a Comment