آج کا جدت پسند طبقہ اسلام اور سیکولرازم کو ایک قرار دینے پر تلا ہوا ہے ۔ لیکن قسط نمبر 1 میں کی گئی وضاحت سے ثابت ہو کیا گیا ہے کہ اسلام اور سیکولرازم کا ایک ہونا تو کجا وہ تو ایک دوسرے کی متضاد بنیادوں پر استوار ہیں ۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سیکولرازم کلیسا کے خلاف بغاوت کا نام ہے اور اسلام میں کوئی کلیسا ہے ہی نہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ۔
" و رھبانیۃ، ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم "
اور حدیث رسول (ص) ہے :" لارھبانیۃ فی الاسلام"
اور جب آیت " اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ "
کا نزول ہوا تو عدی بن حاتم نے اس پر اعتراض کیا کہ ہم تو ایسا نہیں کرتے تھے مگر حضور(ص) کے توجہ دلانے پر انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ہم اپنے علماء کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام مانتے تھے آپ (ص) نے فرمایا کہ تمہارے اسی فعل کو قرآن نے رب ماننے سے تعبیر کیا ہے "
مگر تاریخ اسلام میں ہزاروں خامیوں کوتاہیوں کے باوجود آج تک کسی نے کلیسا کی طرح حلال و حرام کو متعین کرنے کی جسارت نہیں کی تو پھر اسلام کے ماننے والوں کو سیکولرازم کی ضرورت کہاں ؟
اسلام میں قطعا" اس چیز کی گنجائش نہیں کہ کوئی مخصوص طبقہ مذہب کا اجارہ دار بن جائے ۔قرون اولی میں سب لوگ براہ راست قرآن و سنت سے راہنمائي لیتے تھے اور آج بھی بنیادی اصول یہی ہے کہ جسطرح ہر فرد کےلئے اگرچہ ڈاکٹر بننا ضروری نہیں لیکن صحت کے بنیادی اصولوں سے واقفیت ضروری ہے اسی طرح ہر فرد کے لئے شریعت میں مہارت تامّہ حاصل کرنا تو ضروری نہیں لیکن بنیادی زندگي سے متعلق انکی تعلیمات سے آگاہی ضروری ہے ۔یوں اسلام نے مذہبی اجارہ داری کاخاتمہ کردیا ۔
کلیسا نے خود کو رب اور بندے کے درمیان لازمی وسیلہ قراردیا اسکے برعکس اسلام نے
" إِذَا سَأَلَک عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ 6 (40
کا پیغام دیکر انسانی تکریم کو چار چاند لگادیئے ۔
حضور (ص) نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رض کو خود اپنی نجات کا سامان کرنے کو کہا اور انکی نجات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔اس میں بھی دراصل انسانی تکریم کا یہ پہلو غالب ہے کہ ہر فرد کا معاملہ اسکے رب کے ساتھ ہوگا۔ کلیسا نے عیسی (ع) کے مصلوب ہونے کی کہانی اختراع کرکے ہر شخص کے لئے گناہوں کے ارتکاب کے دروازے کھول دیئے جبکہ اسلام نے" لاتزد واذرۃ و زد اخری " کا سنہری اصول دیکر ہر فرد کو اپنے اعمال کی جزا و سزا کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اس میں انصاف کو اسقدر ملحوظ رکھا کہ
" تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ "
کہہ کر قرابتداری کے لحاظ کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا۔
کلیسا نے پہلے عورت کی مذمت کی ، اسکو برائی کا سرچشمہ قرار دیا اور پھر اسکو یہ باور کرادیا کہ مقام عزت پانے کے لئے تمہیں مرد کے شانہ بشانہ آنا پڑے گا اور جب عورت مردوالے کام کرتی بھی ہے تو حقیقت میں برتری اسکی نہیں مرد کی ثابت ہوتی ہے مگر اسلام نے مرد و عورت کے لئے فرائض کا تعین کرنے کے بعد دونوں کو یکساں جزا و سزا کے وعدے دیئے ، جنس کی بنیاد پر دونوں کے مقام میں کوئی تضاد نہیں رکھا ۔
کلیسا کی مندرجہ بالا خامیوں کا نتیجہ سیکولرازم تھا اور اسلام میں تو یہ خامیاں ہیں ہی نہیں سیکولرازم کی گنجائش کہاں ؟
آج کے سیکولر طبقے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی مغرب والوں سے لے رہے ہیں تو اسکا طریقۂ استعمال کیوں نہیں ؟ اس میں کیا قباحت ہے ؟ اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم ان سے ٹیکنالوجی تولے سکتے ہیں مگر نظام زندگی نہیں دوسرا یہ کہ انہوں نے بھی جدید علوم ہم سے لئے تھے کیا انہوں نے ہمارا نظام زندگی بھی قبول کیا تھا ؟
پاکستان اور بھارت کی ایک دوسرے سے علیحدگی بھی کسی سیکولر ازم کی بنیاد یا نظریے کے تحت نہیں تھی ۔
سبھائیوں اور اَکالیوں سے لے کر خود بانیانِ پاکستان، Founding Fathers of Pakistan، تک، کسی کا بھی یہ خیال نہیں تھا کہ ہندوستان کا بَٹوارا اِس لیے ہو رہا ہے کہ یہاں دو، تین یا زاید ’’سیکولر مملکتیں‘‘ بنیں گی اور چلیں گی۔ اُس وقت جنوبی ایشیا کی کسی قوم اور گروہ کی سیاسی قیادت اتنی احمق، بھولی بھالی، کم نظر یا کنفیوزڈ نہیں تھی کہ آج کے ’’روشن خیالوں‘‘ جیسا واہمہ پالتی اور یہ حماقت آمیز، بلکہ خیانت آمیز بات سوچتی۔ بانیٔ پاکستان کی شخصیت اور کردار میں جو اُجلاپَن، کھراپَن اور بے ساختگی تھی، اُس میں ایسی ’’مُنافقت‘‘ یا ’’حماقت‘‘ کا کوئی گزر نہیں تھا۔
قائد نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ ہندوؤ! تمہاری تعداد زیادہ ہواکرے اور تمہاری معیشت مستحکم سہی اور تم سمجھتے ہو کہ سروں کی گنتی سے آخری فیصلے ہوتے ہیں یہ سب غلط ہے میں تمہیں بتا دوں کہ تم ہماری روح کو تباہ نہیں کر سکتے تم اس تہذیب کو نہیں مٹا سکتے اس تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے ہمارا ایمان زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا بے شک تم ہمیں مغلوب کرو ہم پر ستم ڈھاؤ اور ہمارے سا تھ بدترین سلوک روا رکھو لیکن یاد رکھو! ہم نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے سنگین فیصلہ کرلیا ہے اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مرجائیں گے ۔
اُردو کی عظیم ناول نگار قراۃ العین حیدر نے ایک بار کراچی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے کسی سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے نہیں بنا تو دراصل آپ تحریکِ پاکستان اور مسٹر جناح کے بارے میں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بددیانت، جھوٹے اور دھوکے باز تھے کہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر وَرغلا کر، پاکستان تو بنوا لیا۔ مگر دراصل یہاں ایک ’’سیکولر ریاست‘‘ اُن کے پیشِ نظر تھی۔ کم از کم مَیں، مسٹر جناح کو ایسا نہیں سمجھتی۔
تحریک پاکستان کے نامور محقق و مورخ پروفیسر شریف المجاہد پاکستان کے مذہب بیزار سیکولرافراوکی اسلامی تعلیمات کے متعلق لاعلمی اور مذہب سے ان کی نفرت کے بارے میں اپنے تحقیقی مقالہ"پاکستان میں نارواداری "میں تحریر فرماتے ہیں۔
"بدقسمتی سے آزاد خیال افراد اور حقوق انسانی کے مبلغ اسلام بلکہ سرے سے مذہب کے بارے میں ہی ایک مسخ شدہ تصور رکھتے ہیں اور اس کی وجہ اسلام سے ان کی ناواقفیت ہے اب سے پہلے جو تجدد پسند گزرے ہیں اگر یہ لو گ انہی کی طرح اسلام کے تاریخی ورثے اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوتے تو انہیں اندازہ ہو تا کہ وہ اسلام کی اس تفسیر سے جو خمینی نے کی ہے بہت دور ہیں اس کی بجائے اسلام کا ایک انسانی پہلو ہے"
علامہ یوسف القرضاوی اپنی مشہور کتاب "سیکولرازم اور اسلام "میں سیکولردانشوروں کی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"لادینیت کے داعی حضرات اعلیٰ الاعلان اس صاف ستھرے اسلام پر تو اعتراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتے البتہ انھوں نے اپنا ایک الگ اسلام اختراع کر لیا ہے اور اسے وہ ہم پر زبردستی تھوپنا چاہتے ہیں ان کااسلام اس اسلام سے قطعی مختلف ہے جو اللہ کی کتاب قرآن پاک میں موجود ہے جو اسلام قرآن مجید میں محفوظ ہے یہی حقیقی اسلام ہے۔یہی حقیقی اسلام ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی اسلام کو لے کر معبوث ہوئے تھے اسی جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دعوت دی تھی ۔یہی وہ اسلام ہے جسےخلفاءراشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عملاً نافذ کیا اور جس کی تو ضیح و تشریح آئمہ محدثین اور مفسرین نے کی ہے لیکن اسلام سے لادینیت پسندوں کی مراد ایسا اسلام ہے جن پروہ ان غلطیوں کا بوجھ لاد سکیں جو تاریخ میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی ہیں وہ اسلام کی وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو انھوں نے نے خود بتائی ہے یا ان کے پیش رو مستشرقین اور مسیحی مشزیوں نے تیار کی ہے "( اسلام اور سیکولر ازم ۔ صفحہ 30)
مندرجہ بالا حقائق سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اوّلا" سیکولرازم مغرب سے درآمد شدہ اصطلاح ہے ہمیں اسکی قطعا" ضرورت نہیں دوسرا یہ کہ تاریخ اسلام میں کبھی بھی ایسے حالات پیدا ہی نہیں ہوئے کہ ہمیں بھی کلیسا کے استبداد کے متاثرین کی طرح مذہب کے خلاف بغاوت اور سیکولرازم کی ضرورت پڑتی ۔
مشہور جرمن مسلمان سکالر مراد ہوف مین لکھتے ہیں کہ اسلام دیگر نظاموں سے اس لیے مختلف ہے کہ یہ ان معاملات کو بھی محیط ہے جو دیگر مذاہب کے دائرہ میں شامل نہیں۔
No comments:
Post a Comment