بحثیت قوم ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایوانوں میں جن لوگوں کو بھیجتے ہیں کہ ایوان بالا اور ایوان زیریں میں بیٹھ کر ہماری ترجمانی کریں اور ہمارے مستقبل کی فیصلے کریں ان نمائندگان کی اکثریت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریہ کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات اور مبادی دین سے بھی لاعلم ہوتی ہے
جس کے نمونے ہر دور حکومت میں ملتے ہیں ایسا ہی ایک نمونہ پی ٹی آئی کی خاتون رکن اسمبلی عاصمہ حدید ہے جسکو حکمران جماعت ریزرو سیٹ پر لے كر آئی ہے۔
مزکورہ خاتون نے اسمبلی فلور پر اسرائیل کو منظور کرنے کے لیے نہ صرف قرار داد پیش کی بلکہ یہود نوازی میں تمام حدود کو کراس کرتے ہوئے تحریف قرآنی، رسول اللہ پر جھوٹ اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا، جس كا علمى محاكمہ ضرورى هے.
مزکورہ خاتون ممبر قومی اسمبلی کی تقریر درجہ زیل نکات پر مشتمل ہے جس کا تفصیل اور حقیقت اگلى سطور میں بیان کروں گا۔
۱- رسول اللہ (ص) ابتداء میں خانہ کعبہ کو نماز پڑھتے تھے لیکن بعد یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے یروشلم (بیت المقدس) کی طرف پڑھنا شروع کیا۔
۲- مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ اور یہودیوں کا بیت المقدس ہے۔
۳- یہودیوں کو دوست بناؤ کیونکہ رسول اللہ (ص) اور علی (ص) نے بھی فرمایا ہے کہ اپنے دشمن کو دوست بناؤ۔
٤-جب ہم پڑھتے ہیں تو درود میں بھی یہودیوں کو دعا دیتے ہیں۔
٥- حضور (ص) بنی اسرائیل سے تھے۔
مجھے تقریر میں سب سے زیادہ جس چیز نے ورطہ میں ڈالا وہ يہ كہ محترمہ اسلامی اصطلاحات کے بجائے یہودی اصطلاحات کا استعمال کرتی تھی، اور اپنی وفاداری کا بھر پور مظاہرہ کيا، اور افسوس بھی ہوا کہ ایوان زیریں میں موجود مسلمانوں اور اہل علم نے اس کی اس تقریر کا مدلل رد نہیں کیا جس کا ظاہر تو خوبصورت اور علمی تھا لیکن باطن گندگی اور جہالت کی اعلی مثال تھی جو سیدھا سادہ پاکستانی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
عاصمہ حدید صاحبہ کو کسی نے نہیں بتایا کہ رسول اللہ ابتداء میں صرف خانہ کعبہ کو نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ آپ نماز میں ایسے کھڑے ہوتے تھے کہ آپ کا رخ اور قبلہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں ہو، اور آپ اسی طرح نماز پڑھتے تھے، لیکن جب مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو وہاں ایسا ممکن نہیں تھا اگر خانہ کعبہ کی طرف پڑھتے تھے بیت المقدس پیچھے آتا تھا اور اگر بیت المقدس کی طرف منہ کرتے تھے تو خانہ کعبہ رہ جاتے تھے، یہ مسئلہ اہل علم کے درمیانی اختلافی ہے کہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا رسول اللہ(ص) کا اجتہاد تھا یا حکم ربانی تھا لیکن ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق اللہ کے حکم پر آپ نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا شروع کی اگرچہ رسول اللہ (ص) کی دلی تمنا اور آرزو تھی کہ وہ خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھیں اور یوں یہ آرزو تحویل قبلہ کے قرآنی حکم پر پوری ہوئی۔(الطبری، جامع البیان، ج(١-٢) ص(٥-٤٦٧). السيوطي، الدر المنثور ، ج١ ص٤٦٧. القرطبي ، الجامع لأحكام القرآن، ج٢ ص١٥٠)
لہذا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا رسول اللہ (ص) کا اجتہاد تھا یا اللہ تعالی کی طرف حکم تھا جیسا کا زکر ابن عباس کی روایت میں گزر گیا، اگرچہ اس سے یہود خوش ہوئے تھے لیکن رسول اللہ ( ص) نے ان کی خوشنودی کے لیے نماز نہیں پڑھی تھی بلکہ اہل علم نے اس کو من گھڑت اور اسرائیلیات کہا ہے جس کا سہارا عاصمہ حدید نے اپنی تقریر میں لیا ہے۔ (الموضوعات والاسرائيليات ص١٢٣)
عاصمہ حدید صاحبہ کمال چالاکی سے اگر ایک طرف اپنی قرارداد کی حمایت میں ایوان زیرین میں موجود ارکان کو قائل کر رہی ہے تو دوسری طرف فلسطینی مسلمانوں کے زخمی دلوں پر نمک ڈال رہی ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ اور یہودیوں کا قبلہ بیت المقدس ہے گویا کہ وہ فلسطین کا سودا کر رہی ہے کہ یہ یہود کا حق ہے حالانکہ اس کو علم نہیں کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ ہے ارض الانبیاء اسرائیل (١٩٤٨) سے اس پر ناجائز قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور فلسطینی مسلمان اس کے بچانے کے لیے ہر روز بچوں اور بوڑھوں کی شہادت نوجوان بیٹیوں کی آبرو ریزی اور بمباری برداشت کر رہی ہے جسکو آپ نے اتنی آسانی سے یہودیوں کى جھولی میں ڈال دیا۔
ایک طرف عاصمہ حدید اسمبلی میں موجود باریش اہل علم کو داڑھی کا طعنہ دے کر روایات کی صحت کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف ننگے سر قرآنی آیات اور رسول اللہ (ص) پر جھوٹ بولنے کی جسارت کرتی ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسیوں کے لیے یقننا قابل افسوس ہے، آپ اسرائیل سے دوستی کے بارے میں رسول اللہ (ص) اور علی (رض) سے منسوب روایت بیان کرتی ہے لیکن قرآنی آیت سے آنکھیں بند کرتی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ۔
اے ایمان والو یہود و نصاری کو (اپنا) دوست (مددگار) نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جس نے انہیں (اپنا) دوست بنایا پس ان ہی میں سے ہے۔ سورہ المائدہ (٥١).
اگر تقریر میں دیگر نکات کا تعلق علم اور معلومات سے تھا کم ازکم اپنی پارٹی کے مسلمانوں کو تو اس پر عاصیہ صاحبہ کو ٹوکنا چاہیے تھا کہ آپ یہ کیا کہہ رہی ہے کہاں سے یہ استدلال کر رہی ہے کہ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ ہم نماز میں درود یہود پر بھیجتے ہیں ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں، یہ اجتہاد باطل ہے لیکن محترمہ ہم جو نماز پڑھتے ہیں اس میں ابراھیم (ع)اور آل ابراھیم (ع) پر درود بھیجتے ہیں اور قرآن ابراھیم (ع) کے بارے میں کچھ یوں فرماتے ہیں۔
“مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ”
ابراھیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ یک سو مسلمان تھے اور مشرکوں سے نہیں تھے۔ سورہ آل عمران (٦٧)
اور آخری نکتہ جو جہالت کی انتہاء پر مبنی ہے کہ رسول اللہ (ص) یہود میں سے تھے آپ کو یہ علم نہیں کہ رسول اللہ (ص) یہود (بنو اسحاق) میں سے نہیں بلکہ بنو اسماعیل میں سے تھے ( ابن سعد الطبقات الكبرى، ج(١-٣) ص(١٢٦-٤). أبو زهرة، خاتم النبين، ج١ص٢٤٥. صالح بن طه ، سبل السلام، ص٢١)
عاصیہ صاحبہ قرآن اور تفاسیر کا مطالعہ کرلیں یہود کی دشمنی کی وجہ یہی تھی کہ وہ کیوں ان میں سے نہیں آئے کیونکہ آپ کی تشریف اوری سے پہلے وہ منتظر تھے اور دنیا پر دھاک بٹھانے کے لیے کہتے تھے کہ ہم آخری نبی (ص) کے آتے ہی آپ سب پر غالب ہوجائے گے لیکن جب رسول اللہ (ص) بنو اسماعیل (ع) میں آئے تو انھوں نے آپکو پہچانتے ہوئے بھی انکار کیا، جس پر قرآن شاہد ہے:
"الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُون"
وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی تھی وہ اسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بے شک کچھ لوگ ان میں سے حق کو چھپاتے ہیں اور وہ جانتے ہیں- سورہ البقرہ (١٤٦)
لیکن محترمہ کو یہود سے اتنی محبت تھی اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق کو بھی مسخ کیا، اہل علم کو اس موضوع پر لکھنا اور بولنا چاہیے اور ایسے یہود نواز لوگوں کو آشکارا کرنا چاہیے ورنہ خدا نہ کرے وہ دن دور نہیں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان یہود کی وہ سٹیٹ بن جائے جس کی پیش گوئی (۱۹٩٦) میں حکیم محمد سعید شہید (رح) نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف “ جاپان کی کہانی” میں ص(۱۳-۱٥) پر کی ہے۔
No comments:
Post a Comment