14 جون 2009ء کو ضلع ننکانہ کے ایک نواحی گاؤں اِٹانوالی میں عیسائی مذہب کی مبلغہ آسیہ مسیح نے قرآنِ مجید اور حضور نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں نہایت نازیبا، دل آزار اور گستاخانہ کلمات کہے جن کو دہرانے کی میرا قلم اجازت نہیں دیتا۔ آسیہ مسیح کے شوہر عاشق مسیح نے فوری طور پر وفاقی وزیر اقلیتی اُمور شہباز بھٹی سے رابطہ کیا جن کی مداخلت پر کئی دن تک ملزمہ کے خلاف پرچہ درج نہ ہوسکا۔ وفاقی وزیر کی اس حرکت سے علاقہ بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔بالآخر 19جون 2009ء کو آسیہ مسیح کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت ایف آئی آر نمبر 326 درج کرلی گئی اورملزمہ کو گرفتار کرکے حفاظتی اقدام کے طور پر ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ بھیج دیا گیا ۔
اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کی تفتیش پنجاب پولیس میں نیک نامی اور دیانت داری کی مثالی شہرت رکھنے والے جناب سید محمد امین بخاری ایس پی شیخوپورہ نے کی، جنہوں نے 26 جون 2009ء کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت آسیہ مسیح کا بیان ریکارڈ کیا اور نہایت جانفشانی ، غیر جانبداری اور شفاف طریقے سے اس کیس کے تمام پہلوؤں کی مکمل تفتیش کرتے ہوئے آسیہ مسیح کو واقعی ملزمہ قرار دیا او راپنی رپورٹ میں لکھا کہ
''ملزمہ آسیہ مسیح کا حضور نبی کریمﷺکی شان میں اور قرآنِ مجید کے متعلق گستاخانہ باتیں کرنا قانونی طور پر ثابت ہوچکا ہے۔ ملزمہ نے یہ تمام باتیں نہ صرف تسلیم کیں ہیں بلکہ اپنی غلطی کی معافی بھی مانگی ہے۔''
اس مقدمہ کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب، جناب محمد نوید اقبال کی عدالت میں ہوئی۔ملزمہ کی طرف سے اکبر منور درّانی ایڈووکیٹ، طاہر گل صادق ایڈووکیٹ، چوہدری ناصر انجم ایڈووکیٹ،جسٹن گل ایڈووکیٹ، طاہربشیر ایڈووکیٹ، ایرک جون ایڈووکیٹ اورمنظور قادر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، جبکہ استغاثہ کی طرف سے میاں ذوالفقار علی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک اس مقدمہ کی سماعت ہوتی رہی۔ 8 نومبر 2010ء کو اس مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج نے جرم ثابت ہونے پر ملزمہ آسیہ مسیح کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت سزائے موت کامستحق قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا :
''یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس گاؤں میں عیسائی حضرات کی ایک کثیر تعداد مسلمانوں کے ساتھ کئی نسلوں سے آباد ہے۔ لیکن ماضی میں اس قسم کا کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ مسلمان اور عیسائی دونوں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات اور اعتقادات کے سلسلے میں برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں۔ اگر توہین رسالت کا اس قسم کا کوئی واقعہ پہلے کبھی اس گاؤں میں پیش آیا ہوتا، تو یقیناً فوجداری مقدمات اور مذہبی جھگڑے اس گاؤں میں پہلے سے موجود ہوتے۔لہٰذا اس دفعہ یقیناً توہین رسالت کا ارتکاب ہوا ہے۔ جس کے باعث مقدمہ درج ہوا اور عوامی اجتماع منعقد ہوا اور یہ معاملہ اس قصبے اور اِرد گرد میں موضوعِ بحث بن گیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ نہ تو ملزمہ خاتون نے اپنی صفائی میں کوئی شہادت پیش کی، اور نہ ہی دفعہ (2)340، ضابطہ فوجداری کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات غلط ثابت کئے۔مندرجہ بالا بحث کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ استغاثہ نے اس مقدمہ کو کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت کردیا ہے۔تمام استغاثہ گواہان نے استغاثہ کے موقف کی متفقہ اور مدلل اندازمیں تائید و تصدیق کی ہے۔استغاثہ گواہان او رملزمہ، اُن کے بزرگوں، یا ان کے خاندانوں میں کسی دشمنی کا وجود نہیں پایا جاسکا۔ لہٰذا ملزمہ خاتون کوناجائز طور پر اس مقدمہ میں ملوث کیے جانے کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ملزمہ کو اس مقدمہ میں کوئی رعایت دیئے جانے کا بھی کوئی جواز موجود نہیں۔لہٰذا میں ملزمہ آسیہ بی بی زوجہ عاشق کو زیر دفعہ 295سی تعزیراتِ پاکستان، موت کی سزا کا مجرم ٹھہراتا ہوں۔''
اس فیصلہ کے خلاف دنیابھر کی سیکولر لابیاں، نام نہاد 'انسانی حقوق' کی تنظیمیں اور عیسائی نمائندے میدان میں آگئے۔ عیسائی پوپ بینڈکٹ نے آسیہ ملعونہ کے دفاع میں احتجاج کرتے ہوئے اس فیصلہ کی مذمت کی او رکہا کہ وہ ایسے کسی فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔پوپ نے ویٹی کن میں منعقدہ خصوصی دعائیہ تقریب میں آسیہ مسیح کی رہائی کے لیے نہ صرف اس کا نام لے کر دعا کرائی بلکہ صدرِ پاکستان سے بھی اپیل کی کہ اس کی سزا معاف کی جائے۔ اُنہوں نے حکومت ِپاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قانون توہین رسالت کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
پوپ کے بیان کے بعد 20 نومبر 2010ء کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر عدالت سےمجرمہ قرار دی جانے والی خاتون سے ملنے کے لیے فوراً ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ پہنچے۔ جہاں اُنہوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل شیخوپورہ کے وی آئی پی کمرہ میں آسیہ مسیح سے خصوصی ملاقات کی اور اُسے حکومتی سطح پر ہرممکن امداد کا یقین دلایا۔ وہ گورنر ہاؤس سے اپنے ساتھ آسیہ مسیح کو ملنے والی سزا کی معافی کی ٹائپ شدہ درخواست بھی ہمراہ لائے تھے۔ گورنر سلمان تاثیرنے میڈیا کی موجودگی میں آسیہ مسیح سے کہا کہ یہ آپ کی طرف سے تحریر کردہ درخو است ہے، آپ اس پر دستخط کردیں تاکہ میں بطورِ گورنر اس درخواست کوصدر آصف علی زرداری تک پہنچا کر سزا کی معافی ممکن بنوا سکوں۔ سزا کی معافی کے بعد آپ کو یورپ کے کسی ملک میں بھجوا دیا جائے گا۔ اس موقع پر گورنر پنجاب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملعونہ آسیہ مسیح کو معصوم قرار دیا او رکہا کہ دنیا کی کوئی طاقت آسیہ مسیح کوسزا نہیں دے سکتی۔ اُنہوں نے کہا کہ قانونِ توہین رسالت ایک 'امتیازی، غیر انسانی او رکالا قانون ' ہے جس کو ہر حالت میں ختم ہونا چاہئے۔
اس پریس کانفرنس کے ذریعے یورپی ممالک کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ حکومت آسیہ مسیح کو سزا دینے کے حق میں نہیں ہے اور حکومت ایسے تمام قوانین کو بھی ختم کردے گی جواقلیتوں کی 'آزادئ اظہار' کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ معتبر ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ایڈیشنل سیشن جج جناب محمد نوید اقبال ، جنہوں نے شانِ رسالت میں گستاخی کا جرم ثابت ہونے پر آسیہ مسیح کو سزائے موت سنائی تھی، کو ٹیلی فون کیا او رنہایت غلیظ زبان استعمال کی۔ اس کے بعد وہ آئے روز مختلف ٹی وی چینلز پر برملا کہتے رہے کہ قانون توہین رسالت ضیاء الحق کے دور میں انسانوں کا بنایا ہوا 'کالا قانون' ہے، اس کے رد عمل میں دی یونیورسٹی آف فیصل آباد سے ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے ، نیک بخت طالب علم صاحبزادہ عطاء الرسول مہاروی نے 16 نومبر 2009ء کو یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن میں مہمانِ خصوصی گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے احتجاجاً براؤنز میڈل وصول کرنے سے انکار کیا او رحقارت سے کہا کہ آپ نہ صرف گستاخانِ رسول کی سرپرستی کرتے ہیں، بلکہ توہین رسالت ایکٹ 295سی کو ظالمانہ اور ختم کرنے کے بیانات بھی جاری کرتے ہیں۔ اس طرح آپ بذاتِ خود توہین رسالت کےمرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا آپ سے میڈل وصول کرنا میں گناہ سمجھتا ہوں۔
30 نومبر 2010ء کو ملک کے جید علماے کرام نے قانون توہین رسالت کو 'کالا قانون' کہنے اور ملعونہ آسیہ مسیح کی بے جا حمایت و سرپرستی کرنے پرسلمان تاثیر کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا۔ اسی دن پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر اطلاعت و نشریات شیری رحمٰن نے قانون توہین رسالت کو ختم کرنے کا بل اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا۔اس سے اگلے روز صدر پاکستان آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر اقلیتی اُمور شہبازبھٹی مسیح کی سربراہی میں اراکین اسمبلی پر مشتمل 9 رُکنی کمیٹی تشکیل دی جس نے قانونِ توہین رسالت کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک ماہ کے اندر حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرنی تھی ۔
4 جنوری 2010ء کو گورنر سلمان تاثیر کو ان کے سرکاری محافظ غازی ملک ممتاز حسین قادری نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ واقعات کے مطابق گورنر پنجاب، اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس ٹو کی کوہسار مارکیٹ میں واقع ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں اپنے کاروباری دوست شیخ وقاص کے ساتھ کھانا کھا کر واپس اپنی گاڑی کی طرف آرہے تھے کہ ان کے سرکاری محافظ گن مین غازی ملک ممتاز حسین قادری نے ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی جس پر وہ شدید زخمی ہوگئے۔ اُنہیں فوری طور پر پولیس کی گاڑی میں ڈال کر پولی کلینک لے جایا گیا، لیکن وہ راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ غازی ملک ممتاز حسین قادری نے موقع پر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ گرفتاری کے وقت وہ حیران کن حد تک نہایت پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ اس نے ابتدائی تحقیقات میں اعتراف کیا کہ
''گورنر پنجاب نے قانون توہین رسالت کو ' کالا قانون' قرار دیا تھا، ا س لیے گستاخِ رسول کی سزا موت ہے۔سلمان تاثیر گستاخِ رسول تھا، اس نے چونکہ قانون توہین رسالت کے تحت عدالت سےسزا پانے والی ملعونہ آسیہ مسیح کوبچانے کا عندیہ دے کر خود کو گستاخِ رسول ثابت کردیا تھا، اس پر میں نے اپنا فرض پورا کردیا ۔
Saturday, 17 November 2018
آسیہ ملعونہ سے ممتاز قادری تک
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment