Friday 18 August 2017

کس منہ سے تم جمہوریت کی بات کرتے ہو

کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہو:
31جولائی کو سعد رفیق اور اگست 2 کو رضا ربانی نے و ہی رونا رویا جو اس ملک کے نالائق، موقع پرست، بدعنوان، خوشامدی، دھوکے باز، جھوٹے اور لٹیرے سیاست دان عرصہ دراز سے روتے آ رہے ہیں۔ کیا؟ یہی کہ حکمرانی صرف سیاست دانوں کا حق ہے جو انہیں عوام کی رائے سے ملتا ہے۔ فوج دیگر اداروں کی طرح سیاسی حکومت کے ماتحت ایک ادارہ ہے جس کا کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے۔ ملک کو چلانا، پالیسیاں بنانا اس کا کام نہیں۔ یہ سیاست دانوں کا کام ہے۔ فوج کا یہ آئینی فرض ہے کہ سیاست دانوں کی دی گئی حکمتِ عملی پر بلاچوں و چرا عمل کرے۔ سیاست میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔

بالکل درست فرمایا! جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اپنے پڑوسی بھارت کوہی دیکھ لیجیے۔ جرات نہیں کہ فوج مارشل لا لگا سکے حالاں کہ حالات کتنے موزوں ہیں! ربانی صاحب اتنا بتا دیں کہ کیوں انہوں نے فوجی عدالتوں کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کیا؟ اور یہ ’گناہ‘ کرنے کے بعد ٹسوے کیوں بہائے؟ مستعفی کیوں نہ ہوئے؟ دوسری بار پھران کی جماعت نے فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت کی۔ کیوں ابھی تک اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں؟ حمایت فوجی عدالتوں کی اور بھاشن جمہوریت کے!

ان کی جماعتیں اپنے اندرونی نظام میں کس حد تک جمہوری ہیں؟ بلاول کل کا بچہ ہے۔ اور ربانی صاحب اس کے سامنے مؤدب کھڑے ہوتے ہیں۔ فوج میں کوئی افسر رنگروٹ کے سامنے سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑا دیکھا ہے؟ کیا ان کی جماعت میں ایک بھی ایسا قابل شخص نہیں جو قیادت کے لائق ہو؟ دراصل یہ لوگ ازل سے غلام ابن غلام ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ بھٹو صاحب کے بعد کئی سینئر، قابل اور ایمان دار سیاست دان جماعت میں تھے۔ لیکن کم و بیش سب ہی بے نظیر کو سجدہ کرنے لگے۔ اس کے بعد زرداری کی غلامی میں جت گئے۔ اب نیا آقا بلاول ہے۔ اس کے بعد آصفہ یا بختاور۔ اس کے بعد ان کے بچے۔ یہ اور ان کی آنے والی نسلیں ہمیشہ غلام رہیں گے۔ کیا آرمی چیف اپنے بعد یا اپنی زندگی میں اپنے بچے کو اپنی گدی پر بٹھا سکتا ہے؟

رفیق صاحب بتائیں کہ ان کی جماعت میں کتنی جمہوریت ہے؟ آپ لوگوں نے نواز شریف کی بیٹی کو مستقبل کا وزیرِ اعظم متعارف کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ یہ سیاسی جماعت ہے یا خاندانی جاگیر جو باپ کے بعد اولاد میں شریعت کے اصولوں کی روشنی میں منتقل ہو جایا کرتی ہے۔ ان کی جماعت کی کیا خدمات ہیں جمہوریت کے لیے؟ اگر آرمی کی نظر عنایت نہ ہوتی تو کون جانتا تھا نواز شریف کو؟ پھر جب مشرف نے ان کا بھاری بھر کم مینڈیٹ ہوا میں اڑا دیا تو کتنے لوگ سڑک پر نکلے؟ چند ایک کو چھوڑ کر جماعت کے سارے رہنما مشرف صاحب کی گود میں جا بیٹھے۔ مشرف کے بعد دوبارہ نواز شریف کی گود میں بیٹھ گئے۔ مشرف سے خفیہ معاہدہ کر کے جماعت کا رہنما مع اہل و عیال سعودی عرب چلا گیا۔ بیچارے جاوید ہاشمی نے جنگ کی آمر سے اور کیا صلہ دیا اس کی قربانیوں کا؟ اسے ہی اٹھا کر پٹخ دیا! پوری جماعت میں کوئی ایک ایسا نہیں ملا جس کا دامن الزامات سے پاک ہو۔ کیسے دنیا یا فوج ایسے وزیر اعظم کی عزت کرے گی جو محض ایک کٹھ پتلی ہو اور جس پر بدعنوانی کے الزامات بھی ہوں؟ چالیس دن یہ ’نظام سقہ‘ چلتا کر دیا جائے گا اور شہباز شریف کو تخت پر بٹھایا جائے گا۔ کیا ایسا مسخرہ پن دوسرے جمہوری ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے؟

چار سال سے ن لیگ نے وزیر خارجہ مقرر کرنے کی زحمت نہیں کی۔ سال سال وزیرِ اعظم ایوان میں نہیں گئے۔ چار سال میں ایک بھی بار ان کا وزیر دفاع خواجہ آصف اپنی وزارت (دفاع) کے دفتر جو پنڈی میں ہے نہیں گئے۔ کیا فوج نے منع کیا ہوا تھا ان سب کو ایسا کرنے سے؟ کس منہ سے جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں یہ لوگ!

فوج پہ غلبہ پانا ن لیگ کا دیرینہ خواب ہے لیکن اس کے حصول کا طریقہ ہمیشہ احمقانہ رہا۔ کبھی آرمی چیف سے استعفا لے لیا۔ کبھی اسے اس کی غیر موجودگی میں برخاست کر دیا۔ کبھی فوج کے خلاف خبریں لگوا دیں۔ کبھی ڈان لیکس کا شوشہ چھوڑ دیا۔ زرداری صاحب نے اپنے دورِ سلطنت میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا اور منہ کی کھائی۔ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے فوج کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اپنے پیروں پر کلہاڑی ضرور ماری جا سکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ جسے شہہ سواری نہیں آتی وہ گھوڑے کے نزدیک نہیں پھٹک سکتا۔ یہ تو گھوڑے کی مہربانی ہے اگر ایسوں کو اپنی پیٹھ پر بیٹھنے دے۔ زیادہ اترانے والوں کی گھوڑے نے ہمیشہ اگاڑی یا پچھاڑی سے ہی عزت افزائی کی ہے۔

اگر عوام کی خدمت نصب العین ہو تو موجودہ طاقت بھی ضرورت سے زیادہ ہے۔ لیکن انہیں طاقت چاہیے اپنی مطلق العنانی قائم کرنے کے لیے۔ ایسا فوج کو نتھ ڈالے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لیے گاہے گاہے یہ رونا رویا جاتا ہے۔ جمہوریت کی دہائی دی جاتی ہے۔ یہ اتنا بتا دیں کہ جو ادارے کلی طور پر ان کے رحم و کرم پر ہیں انہیں کتنا مضبوط انہوں نے پچھلے 35 برسوں میں۔ 97 میں بہت طاقت ور تھے نواز شریف۔ عدلیہ سے پنگا لیا۔ عدلیہ نے آرمی چیف کو خط لکھ کر تحفظ کی درخواست کی جو قبول نہ کی گئی۔ اور ن لیگ کے غنڈوں نے عدالت عظمیٰ پر حملہ کر دیا۔ اب کی بار بھی ایسا کرنے کی کوشش کی تھی۔ نہال ہاشمی کو استعمال کیا گیا۔ سنگین نتائج کی دھمکی دلوائی ان کے ذریعے عدلیہ اور جے آئی ٹی کے ارکان کو۔ ان کی آنے والی نسلوں پر زمین تنگ کر دینے کا عندیہ دیا گیا۔ یہ فرعونیت تھی یا جمہوریت؟ اگر فوج ان کے ماتحت ہو گئی تو پھر اس کا بھی وہی حال ہو گا جو پولیس کا ہے۔ کور کمانڈر اور تھانیدار میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ جیالے، متوالے، پٹواری،  آرمی چیف لگیں گے۔

فوج کو سیاسی حکومت کے طابع وہی قیادت کر سکتی ہے جو اپنے ڈھانچے اور سسٹم میں فوج ہی کی طرح منظم اور مضبوط ہو۔ جمہوریت اس کے خون میں رچی بسی ہو۔ سیاسی جماعت کو باپ دادا کی جاگیر نہ سمجھے۔ دامن بدعنوانی سے پاک ہو۔ سویلین اداروں کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہو۔ مقصد لوگوں کی خدمت ہو نہ کہ موٹر وے اور میٹرو بسیں بنا کر عوام کا پیسہ لوٹنا۔ عوام کے دلوں پر ایسے راج کرتی ہو کہ اگر مارشل لا لگ جائے تو فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے نہ کہ فوجیوں کے بوٹ پالش کرنا شروع ہو جائے۔

ایسی بے باک اور دیانت دار قیادت کا تو فی الحال خواب میں ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ سیاست دانوں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اپنی شہرت اور کام کو بہتر بنائیں۔ فوج کو کنٹرول کرنے کا خواب فی الحال دیکھنا بند کر دیں۔ لوگوں کے روز مرہ کے مسائل میں آسانی پیدا کردیں۔ ان کے لیے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس اور جائداد کی رجسٹری وغیرہ جیسے معاملات آسان کر دیں۔ لوگوں کی گندی نالیاں صاف کر دیں۔ پولیس کو اپنی حفاظت کے بجائے عوام کی رکھوالی پر لگا دیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت میں کمیشن رکوا دیں۔ عوام کو ملاوٹ سے پاک اشیاء دلوا دیں۔ عدالتوں سے فوری انصاف دلوا دیں۔ یہ کام کر دیں پھر دیکھیے فوج خود بخود آپ کے ماتحت ہو جائے گی۔

چارلی چپلن کا جملہ یاد آ رہا ہے۔ طاقت کی ضرورت صرف انہیں ہوتی ہے جو فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کے لیے تو محبت ہی کافی ہے!
قلم کمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسرار احمد

No comments:

Post a Comment