Friday, 18 August 2017

یہودی کامیاب قوم کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

"یہودی، ایک کامیاب قوم ، مگر کیسے"

کچھ عرصہ قبل ایک ناول پڑھا جو یہودیوں کے خلاف لکھا گیا تھا۔ اس میں ہیرو جو اسرائیل کے خلاف مشن پر تھا اسے ایک آڈیو ریکارڈنگ ملی۔ وہ آڈیو ریکارڈنگ  کئی سال پہلے ہونے والے ایک اجلاس کی تھی۔ اس میں دنیا کے چند ٹاپ کے دانشور یہودی اکٹھے تھے اور یہ اجلاس پوری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تھا۔

اجلاس کی صدارت کرنے والا شخص اجلاس کا مقصد بتاتے ہوئے کہتا ہے:
"یہودی اس دنیا کی عظیم قوم ہیں ،یہودیوں کے علاوہ باقی تمام اقوام دراصل دو ٹانگوں پہ چلنے والے جانور ہیں جو صرف اور صرف بنی اسرائیل کی خدمت کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم یہاں اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ  اس بات پر غور کرسکیں کہ کس طرح دنیا پر عظیم یہودی حکومت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے"۔

اب سب دانشور مل کر اپنی اپنی رائے دیتے ہیں جن میں سے ان آراء پر اتفاق ہوجاتا ہے:
"پوری دنیا کی معیشت اپنے قبضے میں کرلی جائے، دنیا کے ہر ملک میں صرف ہماری مصنوعات کی مانگ ہونی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ایسے پراڈکٹ متعارف کرائے جائیں جن تک ہر شخص کی رسائی ہو، جن کا متبادل کوئی نہ دے سکے اور جن میں ایسے کیمیکل استعمال کیے جائیں جو صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہوں تاکہ دشمنوں کی جسمانی و دماغی صلاحیتیں متاثر ہوں"
"دنیا کو وہی  نظر آنا چاہیے جو ہم دکھانا چاہیں، یعنی میڈیا ہمارے قبضے میں ہو۔ اس مقصد کے لیے میڈیا تک ہر ایک کی رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سستے داموں ہر ایک تک پہنچایا جائےاور پھر اس پر اپنی مرضی کا مواد ڈالا جائے تاکہ دیکھنے والے ذہنی طور پر اسی سانچے میں ڈھل جائیں جس میں ہم انہیں ڈھالنا چاہیں"

میٹنگ کے آخر میں کسی نے نکتہ اٹھایا کہ یہ منصوبے ٹھیک ہیں اور ان کا نفاذ ہمیں فائدہ بھی پہنچائے گا لیکن اس میں وقت تو بہت لگ جائے گا ہم تو شاید یہ کام کرتےکرتے ہی مر جائیں۔

اس بات کے جواب میں صدر مجلس بتاتا ہے کہ بالکل ایسا ہی ہے ہم ان منصوبوں کے پایہ تکمیل تک پہنچتے پہنچتے بمشکل زندہ رہ پائیں لیکن ہم نے یہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کرنا ہے تاکہ وہ دنیا پر حکومت کریں اور پوری دنیا عظیم یہودی قوم کی غلام ہو۔ اس لیےہم اپنی زندگی میں ان منصوبوں پر عمل کریں گے اور آنے والی نسلوں تک اسی طرح منتقل کرتے جائیں گے تاکہ وہ ہمارے مشن کو جاری رکھ سکیں۔

اب آتے ہیں اپنی یگڑم بشٹا کی طرف، کہنے کو تو یہ ناول میں کہی گئی باتیں ہیں لیکن اگر آپ گوگل پہ  "بےبے دی کھبے پیر دی چپل" سرچ کرنے سے فری ہوجائیں تو پیپسی سے لے کر پیمپر تک ہر پراڈکٹ چیک کرلیں، لے دے کے اس کی بنیاد یہودیوں کے کسی کارخانے میں جانکلتی ہے، البتہ تیکھی بھنگ، کچی شراب، لیمن سوڈا اور اس جیسی دیگر ایجادات کا سہرا بلاشبہ ہمارے ہونہار "انجینیئرز" کے سر ہے۔

اسی طرح میڈیا کی صورتحال ہے، لوگوں کے اذہان کو اپنے مطابق چلانے کے لیے انہوں نے کس طرح میڈیا پہ قبضہ کیا ہوا ہے ہم جانتے ہی ہیں۔ (ہم جانتے ہیں والی بات اپنی تسلی کے لیے کردی ورنہ پتا ہے سب کو کہ ہم کتنا جانتے ہیں،  جانتے ہوتے تو مار نہ کھاتے) ہمارے فیس بک اکاؤنٹ سے لے کر بڑے بڑے چینلز تک ہر چیز کے مالک یہودی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کا 96 فیصد میڈیا 6 یہودی کمپنیوں کی ملکیت ہے۔ ان میں سب سے بڑی کمپنی "والٹ ڈزنی" ہے جس کے پاس ایک بڑا کیبل نیٹ ورک، سات اخبار، کچھ میگزینز اور درجنوں پروڈکشن ہاؤسز ہیں، اسی طرح ٹائم وارنر، ویاکوم جیسی کمپنیاں ہیں جن کی ملکیت میں بچوں کے کارٹون چینل سے لے کر بڑے بڑے فلم ، ڈرامہ اور نیوز چینلز ہیں، اسی طرح پرنٹ میڈیا میں نیویارک ٹائمز، نیوز ویک اور دی ٹائم بڑے بڑے اخبارات ہیں، اور یہ سب یہودیوں کی ملکیت ہیں۔

‌ان سب میں ہمارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان کامیاب لوگوں کی طرح ہمیں بھی 'لمبی اور پراثر پلاننگ' کے ساتھ ساتھ 'معیشت' اور 'میڈیا' کو اپنے قبضے میں کرنا ہے کہ کسی بھی میدان میں کامیابی کا یہ مؤثر ذریعہ ہے، اور یہ ہمارے لیے اس طرح سے بھی آسان ہے کہ ہمارے پاس جو قدرت کی طرف سے عطا کردہ نعمتیں اور مدد ہے وہ یہودیوں کی نسبت زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ بھی کچھ سمجھنے کی باتیں ہیں وہ آپ خود سمجھیں بلکہ مجھے بھی بتائیں، میں اتنی دی یہودیوں کی بنی چائے سُڑَک لوں، اتنی لمبی تحریر لکھ کے سر درد کرنے لگا ہے
تیرا منتظر مسافر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسرار احمد

No comments:

Post a Comment