Monday 26 November 2018

جہاد کشمیر ۔ شریعت اور تاریخی حقائق کی روشنی میں

مغل بادشاہ اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد دہلی کی حکومت چراغ مفلس بن گئی تھی۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چہار سو شر پسندوں کو سر اُٹھانے کا موقع مل گیا۔ اسی درمیان پنجاب کے زرخیز علاقہ میں سکھوں نے اپنی ایک مضبوط حکومت قائم کرلی تھی۔ اس کے حکمرانوں میں رنجیت سنگھ کافی مضبوط، متعصب اور اسلام دشمن واقع ہوا ہے۔

رنجیت سنگھ نے دولت افاغنہ کے آخری صوبہ’’ دار جبار خان‘‘ کے درباریوں سے ساز باز کرکے ۱۸۱۹ء میں ایک زبردست لشکر کے ساتھ کٹھوعہ، جموں، راجوری اور پونچھ کو تخت و تاراج کرتے ہوئے وادی کشمیر پر فیصلہ کن حملہ کیا، مسلمانوںنے جم کر اس کا مقابلہ کیا لیکن متحدہ قیادت نہ ہونے کی وجہ سے رنجیت سنگھ کی فوج جموں وکشمیر پر قابض ہوگئی۔ آج کی تاریخ سے رنجیت سنگھ نے کشمیر میں لوٹ مار اور بربریت کی وہ تاریخ قائم کی جو انسانی تاریخ پر ایک بد نما داغ ہے۔

اس طرح ۴۹۴ سال خالص اسلامی ریاست رہنے کے بعد مسلمانوں پر اپنی بد اعمالیوں کے سبب ایسا زوال آیا جس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی۔ یاد رہے رنجیت سنگھ یہ وہی دشمن دین ہے جس کے خلاف سید احمد شہید ؒ اور ان کے خلیفۂ اجل مولانا اسماعیل شہیدؒ نے اعلان جہاد کیا تھا۔

۱۸۱۹ء سے ۱۸۴۵ء تک رنجیت سنگھ، کھڑک سنگھ، رانی چندر کور شیر سنگھ اور دلیپ سنگھ نے حکومت کی۔

اس آخری دور میں سکھوں نے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ انگریزوں سے جنگ کی اور ہر مرتبہ منہ کی کھائی۔ آخری بار کی شکست سے انگریزوں نے سکھوں پر باون لاکھ تاوان جنگ لازم کیا۔ دلیپ سنگھ میں اتنی بڑی رقم ادا کرنے کی ہمت نہیں تھی اس نے اس کے بدلے ہیرا کوہ نور اور ریاست جموں وکشمیر انگریز کے حوالے کردی۔

انگریز کے لیے کشمیر میں حکمرانی کافی دشوار تھی، وہاں سکھوں کے خلاف پہلے ہی مسلمان جہاد کی تیاریاں کررہے تھے، اس لیے اس نے ریاست کی نیلامی کا اعلان کردیا جس کو جموں کے ایک جاگیر دار گلاب سنگھ بن کشتوڑا سنگھ ڈوگرہ (ہندو) نے ۷۵ لاکھ میں خرید لیا۔

گلاب سنگھ نے تین مرتبہ قبضہ کے لیے فوج کشی کی مگر مسلمانان کشمیر نے تینوں مرتبہ اس کو شکست دی۔ آخر گلاب سنگھ کی درخواست پر انگریزی سپہ سالار مسٹر لارنس نے زبردست لشکر کشی کے بعد قبضہ دلوایا۔ گلاب سنگھ کا باپ نہایت ہی مفلس کاشت کار تھا لیکن گلاب سنگھ نے رنجیت سنگھ کی پیادہ فوج میں بھرتی ہوکر کافی خدمت انجام دی جس کے صلہ میں رنجیت سنگھ نے اس کو جموں کا جاگیر دار بنادیا تھا۔

گلاب سنگھ ۱۸۵۳ء تک حکومت کرتا رہا ۱۸۵۳ء میں اس کی موت پر اس کا بیٹا رنبیر سنگھ تخت نشین ہوا۔ ۱۸۸۵ء میں رنبیر کا بیٹا پرتاب سنگھ حکمراں بنا جس کے لاولد مرنے پر ۱۹۲۶ء میں اس کا بھتیجا ہری سنگھ راجہ تسلیم کرلیا گیا جو ۱۹۴۷ء تک رہا۔ اس درمیان انہوںنے ظلم وتشدد کے علاوہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کی۔ اسلامی تعلیمات ہی نہیں آباء واجداد کی تاریخ سے بھی نوجوانوں کو دور رکھا۔

لیکن اس دوران بھی کشمیری مسلمان کسی نہ کسی شکل میں مزاحمت کرتے رہے اور مسلسل تیاریوں میں لگے رہے۔ چنانچہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کو مسلمانوں نے سری نگر شہر میں راجہ کے خلاف ایک زبردست جلوس نکالا ،جس پر پولیس فائرنگ سے ۲۱ نوجوان شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ ۲ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو پونچھ، راجوری، ریاسی اور جموں کے دیگر اضلاع کے مسلمانوں نے مالیہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس بحرانی کیفیت سے گھبرا کر ۵ نومبر ۱۹۳۱ء کو راجہ نے تمام ریاست انگریز کی امن فوج کے حوالے کردی۔

۱۹۴۰ء کے بعد راجہ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں بہت تیزی آ چکی تھی، لیکن۱۹۴۷ء میں جب برصغیر انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا تو جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک پوری قوت سے اٹھی۔ ابتدائً گلگت، بلتستان اور چلاس وغیرہ کے علاقے سکھ ڈوگروں سے آزاد ہوئے اور پھر ۱۶ اگست ۱۹۴۷ء کو بارہ مولہ، مظفر آباد، میر پور، کوٹلی پونچھ، راجوری کے مسلمانوں نے اعلان جہاد کر دیا جو ایک سیلاب بن کر آگے بڑھنے لگا۔ ڈوگرہ فوج کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ہزاروں مارے گئے اور باقی جموں کی طرف فرار ہو گئے۔اس شکست خوردگی کے عالم  میں راجہ نے بڑی مکاری سے کشمیر کا الحاق اس شرط پر بھارت سے کر دیا کہ بھارت اس کے بیٹے کو کوئی نہ کوئی عہدہ دے گا۔

سوچنے کی بات ہے کہ اول تو خود راجہ غاصب تھا، پھر جب قبضہ جاتا رہا، حکومت جاتی رہی تو الحاق کر دیا۔ کیسا الحاق؟؟ کیا دنیا کے کسی بھی قانون میں اور دنیا کے کسی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے سمجھدار  انسان کے نزدیک اس الحاق کی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے؟؟ لیکن اسی الحاق کو بہانہ بنا کر اور شیخ عبد اللہ کے کاندھوں پر سوار ہو کر بھارت کشمیر میں فوج داخل کردی اور ہر طرف قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم کیا کہ الامان و الحفیظ۔

قتل و غارت کی اس داستان خون آشام کو سن کر پونچھ، مظفر آباد، کوٹلی اور گلگت وغیرہ کے مسلمان منظم ہو گئے، آزاد قبائل نے بھی ان کا ساتھ دیا اور پاکستان نے بھی کسی قدر مدد کی۔ ان مجاہدین نے بھارت کے بڑھتے قدم روک دیے اور زبر دست جنگ کرکے بھارت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔  اس صورتحال سے بوکھلا کر بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقدمہ درج کر دیا۔ پھر وہ دن اور آج کا دن… اقوام متحدہ کے منافقانہ کردار کی وجہ سے ابھی تک کشمیر بھارت کے زیر تسلط ہے۔

             جہاد کشمیر کے متعلق 2 سوالات

سوال نمبر ۔1

حیثیت جہاد کشمیر کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کشمیر میں بھارت نواز حکمرانوں کا جو بھارت کے آلہ کار ہیں کیا شرعی حکم ہے؟

الجواب
اللہ تعالى نے جہاد کے لیے کچھ وجوہات مقرر فرمائی ہیں جن کی بناء پر کسی بھی علاقہ میں جہاد کیا جاتا ہے۔
1- دنیا بھر میں دعوت الى اللہ کے راستے کھولنے کے لیے [البقرة : 193]
2- مسلمانوں پر حملہ ور کافروں کوپیچھے دھکیلنے کے لیے [البقرة : 190]
3- مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کے خاتمہ کے لیے [الأنفال : 72]
4- مسلم اراضی کفار سے چھڑانے کے لیے [البقرة : 191]
5- کفار سے جزیہ وصول کرنے کے لیے[التوبة : 29]
6- مسلمان مقتولوں کا کافروں سے بدلہ لینے کے لیے [البقرة : 178]
7- کفار کو عہد شکنی کے سزا دینے کے لیے [التوبة : 12]
8- شعائر اسلام کی توہین کی وجہ سے [التوبة : 12] جہاد کیا جاتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ اس طرح کی عبارات سے بھرا ہوا ہے۔ نمونہ کے لیے ایک اقتباس عرض ہے!

’’جب دشمن اسلامی شہروں میں داخل ہوجائے تو اَلاَقرب فالا قرب (یعنی قریب والے پھر ان سے قریب والے) کے اعتبار سے اس کا دفاع کرنا یقیناً فرض عین ہے۔ اس لیے کہ تمام اسلامی شہر ایک ہی شہر کے حکم میں ہیں (لہٰذا سب پر جہاد فرض ہوگا) نیز اس حالت میں دشمن کی طرف نکل پڑنا اس طرح فرض عین ہوگا کہ بچہ والد کی اجازت کے بغیر اور قرض دار قرض خواہ کی اجازت کے بغیر ہی سر بکف میدان کار زار میں آجائیں گے اس سلسلہ میں امام احمدؒ کی صریح نصوص موجود ہیں، اس حالت کو اصطلاح فقہاء میں نفیر عام کہتے ہیں۔ (الفتاویٰ الکبریٰ/ ج ۴/ ص ۶۰۸)

علامہ جصاص رحمہ اللہ نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے۔

ترجمہ: ’’تمام امت مسلمہ کا یہ واضح عقیدہ ہے کہ جب کسی مسلمان ملک کی سرحد پر دشمن کے حملہ کا خوف ہو اور وہاں کے مقامی باشندوں میں دشمن سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو۔ اور اس طرح ان کے شہر، ان کی جانیں اور ان کی اولاد خطرہ میں پڑ جائیں تو پوری امت مسلمہ پر یہ فرض ہے کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے سینہ سپر ہو جائیں، تا کہ دشمن کی دست درازی روک دی جائے، اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ پوری امت اس پر متفق ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک کا بھی ایسا قول نہیں ہے کہ ایسی حالت میں مسلمانوں کے لئے جہاد چھوڑ کر بیٹھے رہنا جائز ہوتا ہو کہ دشمن مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہیں اور ان کے اہل و عیال کو قید کر کے ان سے غلاموں کا برتاؤ کرتے رہیں۔‘‘

(احکام القرآن/ ص ۱۱۴)

کشمیر میں مذکورہ بالا وجوہات میں سے اکثر پائی جاتی ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کا علاقہ ہے جس پر ہندو قابض ہے۔ دعوت الى اللہ کے راستے وہاں مسدود کیے جا رہے ہیں۔ہندو مشرک جب چاہیں مسلمانوں پر حملہ آور ہو تے اور انہیں ظلم وستم کا نشانہ بناتے اور عزتوں کو تار تار کرتے ہیں ۔اور کشمیر کے حوالہ سے جو عہد انہوں نے کیا تھا اسے مسلسل توڑتے چلے آ رہے ہیں ۔ لہذا کشمیر میں ان تمام تر وجوہات کی بناء پر جہاد کرنا بالکل درست اور شرعی فریضہ ہے ۔ اور وہاں موجود کٹھ پتلی حکومت ‘ در اصل کفر ہی کی حکومت ہے جسکا خاتمہ ضروری ہے۔

سوال نمبر 2 ۔
کیا کشمیر کا جہاد ، اسلامی جہاد نہیں ہے یہ پانی اور زمین کی لڑائی ہے ؟

یہ لڑائی

1۔ مسلمانوں کو کفر کے ظلم سے آزاد کرنے کے لیے ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ (سورۃ الانفال : 72)
اور اگر وہ (مسلمان) تم سے دین کی خاطر مدد مانگیں تو تم پر انکی مدد کرنا فرض ہے ۔
2۔ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقے چھڑوانے کے لیے ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
[وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُم(البقرۃ : 191)
اور انہیں جہاں پاؤ قتل کر دو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے تم ا نہیں وہاں سے نکالو ۔
3- یہ لڑائی عہد شکنی کے نتیجہ میں ہے ۔ معاہدہ تھا کہ کنٹرول لائن کو سرحد نہیں قرار دیا جائے گا ، معاہدہ تھا کہ کشمیر کا قضیہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے اور اسکے علاوہ اور بھی بہت سے معاہدات تھے جو ا نہوں نے توڑے ۔ اللہ کا فرما ن ہے :
وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُون (التوبۃ: 12)
اور اگر وہ اپنے عہد توڑ دیں اور تمہارے دین پر طعنہ زنی کریں تو کفر کے اماموں سے لڑو کیونکہ انکے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں ۔ تاکہ وہ باز آ جائیں ۔

لہذا یہ کہنا کہ جہاد کشمیر اسلامی جہاد نہیں ، بالکل غلط ہے ۔ قارئین کرام اس وقت جہاد کشمیر  متحدہ جہاد کونسل کے زیرانتظام امیر حزب المجاہدین سید صلاح الدین صاحب کی سربراہی میں جاری و ساری ہے ۔

No comments:

Post a Comment