Saturday 8 December 2018

شہداء کی سرزمین پاکستان کے خلاف عالمی میڈیا وار

دہشتگردی ، شدت پسندی، سیاسی عدم استحکام ، معاشی مسائل، سماجی ناہمواریاں یہ سارے وہ معاملات ہیں جو دنیا میں کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت پیش آتے رہتے ہیں یہ جہاں بھی ہوں ہمیشہ ناخوشگوار ہی ہوتے ہیں، ان سے پہنچنے والا نقصان بھی ناقابل برداشت اور ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ کوئی ملک، حکومت اور عوام نہیں چاہتے کہ وہ اس صورتحال سے دوچار ہوں اور اکثر اوقات ایسا دشمن ملکوں کی ایماء اور تعاون سے ہی ہوتا ہے۔ ان دنوں پاکستان ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے، دہشتگردی نے ہماری قومی زندگی کو بُری طرح متاثر کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ان حالات کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے اور انشاء اللہ اِن تمام مسائل کو شکست دیکر سرخرو بھی ہوگا اور مضبوط بھی لیکن اس وقت کئی دشمنوں سے یہ تن تنہا نبرد آزما ہے۔ دہشتگردوں کو کئی اطراف سے مالی اور افرادی مدد مل رہی ہے اور پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کے ذریعے بد امنی اور عدم استحکام کی صورتحال پیدا کی جارہی ہے۔ اس ساری صورتحال سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت اور امریکہ کو پہنچ رہا ہے، بھارت کو یوں کہ پاکستان کمزور ہو اور اسکے سامنے خطے میں موجود واحد رکاوٹ ختم ہو اور اس کا دیرینہ خواب پورا ہو، وہ علاقے کا چوہدری بن سکے اور چھوٹے موٹے ممالک کو اپنا طفیلی بنا سکے، سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کر سکے، ایٹمی قوت بڑھاتا رہے اور کوئی اس کا مدمقابل نہ ہو۔ امریکہ اس دہشتگردی کا فائدہ یوں اٹھا رہا ہے کہ اسی بہانے وہ اس خطے میں موجود رہے، چین سے اس کا اصل فاصلہ تو کم نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس طرح وہ اس کے نزدیک رہے اور اس کی ہر قسم کی سرگرمی کو آسانی سے مانیٹر کر سکے اور پوری دنیا پر اکیلے حکومت کرنے کا اُس کا دجالی خواب پورا ہوسکے۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی’’ را ‘‘اس تحریک میں آگے آگے ہے‘ اسی ایجنسی کے زیر سایہ چھپنے والے ایک جریدے میں پاک فوج کے اوپر کئی اعتراضات کئے گئے اور الزامات لگائے گئے ۔ بیورو آف ریسرچ اینڈ انٹیلی جنس کے اس جریدے میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی حکومتیں بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہاں ہیں لیکن فوج انہیں ایسا نہیں کرنے دیتی یعنی اس طریقے سے پاک فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے، یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پاکستان میں ایک عدالتی بغاوت کی کوشش کی گئی جس کیلئے فوج عدالتوں کے پس پشت تھی۔ ایک بار پھر یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے پاک فوج سوائے اپنے ہر کسی کو ملک دشمن سمجھتی ہے یوں فوج اور حکومت اور فوج اور دیگر اداروں کے درمیان خلیج حائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ساتھ ہی ایک بحث بھی چھیڑ دی گئی اور دوسرے لکھنے والوں کو بھی ایک موضوع فراہم کیا گیا ہے۔ اسی موضوع پر جان ہا پکن یونیورسٹی کے ڈینل ایس مار کی نے بھی پاک فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کیلئے حکومت کو بھارت کا خیرخواہ اور فوج کو مخالف بتایا ہے ۔ اس قسم کے بیانات کی زبان اور انداز تحریرسے صاف ظاہر ہے کہ ان ماہرین کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ پاکستان پر تنقید اگر ایک موضوع ہے تو بھارت کی تعریف ایک اور موضوع لیکن دونوں کو جوڑا جا رہا ہے جو اس بات کی غمازی ہے کہ پر دے کے پیچھے ڈور کسی ایسی قوت کے ہاتھ میں ہے جس کے ہر عمل کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے پاکستان کو نقصان پہنچانا‘ اُس کی دوسرے ممالک سے دوستی یا دشمنی ہو یا اپنے ملک کی پالیسی سازی سب کا مرکزی نکتہ ہوتا ہی پاکستان ہے اور نیت وہی ایک کہ پاکستان کو نیچا دکھا کر اور اُسے نقصان پہنچاکر علاقے پر اپنی گرفت بڑھانا۔ اگر حقائق کو سامنے رکھ کر حالات و واقعات کاجائزہ لیا جائے تو پاکستان سے رقبے اور آبادی میں کئی گنا بڑا بھارت دہشتگردی سے پاکستان کے مقابلے میں کہیں کم متاثر ہے وہاں ہونیوالی دہشتگردی اکثر اوقات اندرونی ہوتی ہے اور اسکی نوعیت بھی مذہبی شدت پسندی ہوتی ہے جس میں ہندو اکثریت ہی اکثر اوقات مسلم اقلیت اور کبھی دوسری اقلیتوں کو نشانہ بناتی ہے اُسکے حاضر سروس کرنل سر کانت اور کمانڈر کلبھوشن یا دیو پاکستان کیخلاف تخریبی کارروائیوں میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ اگر یہ لکھنے والے بھارت کے کردار کو جانچیں اور پر کھیں اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ دہشتگردوں کا پشت پناہ کون ہے‘ اسے بھارت کا گھنا ونا کردار بلوچستان سے کشمیر تک ہر جگہ نظر آئیگا لہٰذا ان لکھنے والوں کو ایک بار تمام حالات وواقعات کو ضرور دیکھنا چاہئے اور پاکستانی لکھاریوں کو بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ان سب کو بھر پور جواب دینا چاہئے۔ دنیا کے سامنے حقیقت کو رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ سچ اور جھوٹ اور حق اور باطل میں تفریق کر سکے۔

No comments:

Post a Comment