Monday 24 December 2018

تاریخِ افغانستان پر ایک نظر

افغانستان ایک قدیم تاریخی مملکت ہے۔ قدیم وسط ایشیا سے ہندوستان آنے کا صرف ایک ہی زمینی راستہ تھاجو افغانستان کی شمال مغربی سرحدوں سے گزرتا ہے۔ تاہم عظیم ہمالیائی سلسلے کو پارکرکے چین کی حملہ آور فوجیں ضرور ہندوستان آئیں۔ کبھی کبھی ان غیر متعین اور دشوار گزار راہوں سے منگول اور تاتار نسلوں کے لوٹ مار کرنے والے گروہ بھی ہندوستان کے علاقوں میں گھس آتے تھے۔ اس کے باوجود یہ پہاڑی علاقے تاریخ میں کسی بھی مرحلے پر باہر سے آنے والوں کے لیے باقاعدہ اور مستقل گزرگاہ نہیں بن سکے۔ عظیم ہمالیہ کے ان سلسلوں نے بہرحال مشرق کی طرف سے آنے والے تاتاری قبائل اور ان جیسے حملہ آوروں کو ہمیشہ ہندوستان میں آنے سے روکے رکھا۔ عربوں کو چھوڑ کر جو سمندری راستوں سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ آریا ، ترک، تاتار ، منگول، افغان، ستھین (Scythian )ان سے ملتے جلتے گروہ اور ایران اور توران کے حکمران ،خراسان ، ہرات قندھار، بلخ، دریائے کابل کے ذریعے اور ان علاقوں سے جنہیں برطانوی بلوچستا ن کہا جاتا تھا، ہندوستان آئے تھے۔ قدیم آریائی دور کا ایک اہم شہر بلخ جو ہزاروں سال قبل آریائی بادشاہوں کا مرکز تھا، افغانستان میں واقع ہے۔ یہ وہی بلخ ہے جس میں علامہ اقبالؒ کے مرشد جلال الدین بلخی رومی پیدا ہوئے۔ بلخ پر کشتاسب کے حامیوں کے قبضے سے افغانستان میں زرتشت دور کا آغاز ہوتا ہے۔ پانچ سو قبل از مسیح کی اس مذہبی تحریک نے عوام کے ذہنوں سے پرانے خیالات کا صفایا کیا۔ اس تبدیلی نے ان لوگوں کو نئی فکر ی روش سے آشنا کردیا۔ آریانا (قدیم افغانستان کا نام)میں تہذیب اقوام کے آریائی وزرتشتی دور کے بعد آسوریوں اور ہخامنشیوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ سیر وس کبیر (549 - 529 ق م) اور داریوش (522- 485ق م) نے آریانا کی سرزمین کو دو حصوں قندھار اور باختر میں تقسیم کیا۔ اس کے بعد یہ علاقہ سکندر اعظم کی یلغار کا شکار ہوا۔ یہ سرزمین یونانی تہذیب و زبان سے بھی آشنا ہوئی ہے۔ اشوکا مذہب بدھ مت اکثر مشرقی علاقوں میں ترقی کرتا ہے۔ 120قبل از مسیح میں کوشانیوں کے دوسرے دور کا عروج ہوتا ہے۔کاپیسا یا موجودہ بگرام اس دور کے اہم تجارتی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ جو چین اور ہندوستان کے سنگم پر واقع ہے۔بدھ مت مذہب کو ترقی ملتی ہے اور اس دور کے یادگار طویل القامت بدھا کے مجسمے تعمیر ہوتے ہیں۔ جو تقریباً دو ہزار سال بعد 2001ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے ہاتھوں مسمار ہوئے۔ بدھائی دور کے بعد افغانستان میں اسلامی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ روم و فارس کی فوجیں اسلامی جہادی لشکروں سے شکست کھاتی ہیں۔ نویں صدی عیسوی میں جنوبی ہندوکش کے راستے اسلام بڑی کامرانی سے افغانستان میں داخل ہوتا ہے اور افغانستان سے ہوتا ہوا ہندوستان کا رخ کرتا ہے۔ طاہر ہراتی اور یعقوب لیث صفاری زابلی کے ذریعے 871ء میں کابل اسلامی سلطنت کے زیرِ نگین آتا ہے۔ طاہرہراتی بغداد اور دیگر عربی خطوں کا رخ کرتا ہے اور خراسان اسلامی سلطنت کا مرکز بن جاتا ہے۔ عباسی دور میں افغانستان میں زبردست ترقی ہوتی ہے۔اقتصادیات ، زراعت، صنعت ، تجارت ، مسکوکات، انتظامی امور ، جدید انتظامی ڈھانچہ وجود پاتا ہے۔ جبکہ مساجد کی تعمیر علم و ادب ، فکر و فرہنگ میں بھی اضافے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد افغانستان میں غزنویوں کے درخشان اسلامی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ آریانا کی سرحدیں اصفہان و ہمدان کے علاوہ ہندوستان تک پھیلیں۔ محمود نے اسلام کی احیا و سربلندی کے لئے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔ اس کے بعد آریانا میں غوریوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ 1233ء میں افغانستان میں آخری غوری سلطان کی ہلاکت مغلوں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ تیموریوں کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ دسویں صدی ہجری کے اوائل میں کابل میں بابر کی حکومت ہوئی ہے۔ بابر ہندوستان کا رخ کرتا ہے۔ وہاں لودھی افغانوں کی سلطنت کو تاراج کرکے اپنی حکمرانی کا اعلان کرتا ہے۔ اس سلسلے کی کڑی شیرشاہ سوری کی سخت کوششوں اور کٹھن جدوجہد کے بعد دوبارہ ہندوستان میں افغان حکمرانی تک پہنچتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ افغان کمزور ہوتے رہے اور صفویوں نے آریانا پر قبضہ جمایا۔ صفویوں کے مقابلے میں ایک مدبر افغان شخصیت میرویس خان نیکہ نبردآزما ہوتا ہے۔ صفویوں کو شکست دے کر افغانستان میں ہوتکیوں کے حکومت کادور شروع ہوتا ہے۔ نادرشاہ افشار کی ہلاکت کے بعد میں احمد شاہ درانی افغانستان کا بادشاہ بن جاتا ہے۔ احمد شاہ درانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے درخواست پر اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کے تعاون کے سلسلے میں ہندوستان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ قندھار سے ہوتے ہوئے لاہور تا دہلی افغان حکومت کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اس نکتے کی طرف حضرت علامہ اقبالؒ نے یوں اشارہ کیا ہے۔ جس کے دم سے دلی و لاہور ہم پہلو ہوئے آہ ! اے اقبال وہ بلبل بھی آج خاموش ہے احمد شاہ ابدالی نے 25 سال تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد زمامِ حکومت اپنے بیٹے تیمور شاہ درانی کے حوالے کردی۔ احمد شاہ درانی کے گھرانے کے پاس تقریباً سو سال تک افغانستان کے تخت و تاج کا اختیار رہا۔ اس کے بعد محمد زئی خاندان کی حکمرانی شروع ہوئی۔ امیر دوست محمد خان ، امیر شیرعلی خان، امیر عبدالرحمن خان ، امیر حبیب اللہ خان ، امیر امان اللہ خان ، اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ شہید اور محمد ظاہر شاہ افغانستان کے سربراہانِ حکومت رہے۔

برطانیہ اور افغانستان کے درمیان پہلی جنگ  1842-1839 میں لڑی گئی۔
تاریخ سے معلوم چلا ہے کہ اس وقت دنیا کی طاقتور ترین فوج کو ان قبائلی جنگجووں کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی جن کے پاس باقاعدہ ہتھیار بھی نہیں تھے۔
چھ جنوری 1842 میں جب 18500 برطانوی فوجی کابل سے نکلے ہیں تو صرف ایک برھانوی شہری اسسٹنٹ سرجن ڈاکٹر برائڈن جلال آباد کے راستے چھ روز بعد زندہ نکل پائے۔
امریکی جنگ اور 1840 کی جنگ کے درمیان مماثلت یہ ہے کہ دونوں جنگوں میں جن شہروں میں فوجی اڈے قائم کیے گئے وہ ایک ہی ہیں، اس وقت اور آج کے فوجی ایک ہی زبان بولتے ہیں اور ان پر انہی پہاڑوں اور دروں سے حملہ کیا جا رہا ہے۔
چھ جنوری 1842 میں جب 18500 برطانوی فوجی کابل سے نکلے ہیں تو صرف ایک برھانوی شہری اسسٹنٹ سرجن ڈاکٹر برائڈن جلال آباد کے راستے چھ روز بعد زندہ نکل پائے
اس وقت کٹھ پتلی حکومت کے سربراہ شاہ شجاع تھے اور اشرف غنی ہیں ۔ اور مخالفین اس وقت غلزئی قبیلے سے تھے اور حکمت یار کا تعلق اور طالبان کے جنگجوؤں کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔

اکتوبر 1963 میں جب ہیرلڈ میکملن حکومت وزیر اعظم ایلک ڈگلس کے سپرد کر رہے تھے تو انہوں نے ایلک ڈگلس کو ایک مشورہ دیا۔ ’جب تک تم افغانستان پر حملہ نہیں کرتے تب تک تمہیں حکومت کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔‘

افغانستان میں محمد زئی خاندان کا آخری حکمران سردار محمد دائود خان تھا جو تادمِ مرگ مادرِوطن کی نگہبانی کرتا رہا۔ 27 اپریل 1978ء کو ان کی وفات کے بعد روس نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان نے نورمحمد ترکئی کی سربراہی میں زمامِ حکومت سنبھالی۔ آٹھ اور نواکتوبر 1979ء کی درمیانی شب پولیٹیکل بیورو کے حکم سے نور محمد ترکئی ہلاک کردیئے گئے۔ 16ستمبر 1979ء کو حفیظ اللہ امین برسرِ اقتدار آئے مگر 27 دسمبر1979ء کو انہیں زخمی ہونے کے بعد پھانسی دی گئی۔ اس روز روس کے وفادار کمیونسٹ افغان رہنما ببرک کارمل کو اقتدار سونپا گیا۔ جن کے دورِ حکومت میں 24اور27دسمبر 1979ء کے درمیانی عرصہ میں سوویت فوجی افغانستان میں داخل ہوئے۔روسیوں کے خلاف افغانستان میں جہاد کااعلان کیا گیا۔ لاکھوں افغان مہاجر ہوئے۔ ہزاروں شہدانے قربانیاں دیں۔
سوویت یونین کے خلاف جہاد میں کلیدی کردار ادا کرنے والے گلبدین حکمت یار
1947 کو شمالی افغانستان کے صوبہ قندوز کے ضلع امام صاحب میں پیدا ہوئے-ان کا تعلق غلزئی پشتونوں کے خروٹی قبیلے سےہے-
حکمتیار نے 1968 میں ملٹری اکیڈمی جوائن کی مگر چند برس بعد ہی اسلامی خیالات کے باعث انہیں ملٹری اکیڈمی سے نکال دیا گیا-یہاں سے نکلنے کے بعد حکمتیار نے کابل یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ میں داخلہ لیا- اور پھر انجینئرنگ کو بھی ادھورا چھوڑ دیا -لیکن ان کے چاہنے والے انہیں انجیئنر گلبدین حکمتیار کہ کر ہی پکارتے ہیں ۔
ببرک کارمل کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ برسرِ اقتدار آئے جنہیں1998ء میں طالبان حکومت کے وجود میں آنے کے بعد کابل میں پھانسی دی گئی۔ چھ سال تک طالبان برسرِ اقتدار رہے۔ 2001ء میں یہاں ایک اور سپرپاور امریکہ نے روس کے انجام کے عبرت سے بے خبر ہوکر حملہ کیا اور طالبان حکومت کے سقوط کے بعد اپنے من پسند حکومت کو تشکیل دیا
اب 18 سال بعد امریکہ و نیٹو افواج کے ہوش ٹھکانے آچکے ہیں اور واپسی کے  محفوظ راستے تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے لیکن افغانستان مین داخلے کے تو بے شمار راستے ہیں لیکن  واپسی کا صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور وہ ہے ذلت کا راستہ !

No comments:

Post a Comment