Monday 17 December 2018

1971 میں پاک فوج پر بنگالی خواتین کے ریپ کا بے بنیاد الزام اور اصل حقیقت ۔

کتاب (30 لاکھ کی کہانی کے پیچھے صفحہ 30،25) کے مطابق  22 دسمبر 1971 کو کلکتہ سے مجیب کی جلاوطن حکومت نے اعلان کیا تھا کہ “ جن خواتین کے ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی (ریپ) کی ہے وہ بنگالی ہیروئنیں ہیں۔ پھر مجیب کی آمد پر جنوری 1972 میں ڈھاکا میں ایک بہت بڑا بنگالی ہیروینز کمپلیکس، قائم کر دیا گیا، جس کا سربراہ مجیب کے رشتہ دار جہانگیر حیدر کو مقرر کیا گیا۔ اس کمپلیکس کے لئے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ ہایم نے “ہیروینز کمپلیکس“ کا دورہ بھی کیا، لیکن یہ کمپلیکس ایک روز کے لئے بھی آباد نہ ہو سکا۔ کتنی بنگالی ہیروئنیں یہاں رجسٹرڈ ہوئیں؟ آج تک کسی کو یہ عدد معلوم نہ ہو سکا۔ کیونکہ اس باب میں دعوے کے لئے کوئی قابلِ ذکر ثبوت فراہم نہ ہو سکا۔ یوں خجالت میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ اور کمپلیکس اچانک ختم کر دیا گیا۔“

ازاں بعد تحریکِ آزادی ہند کے معروف راہنما اور بنگالی نزاد سبھاش چندرابوس کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس(بھارتی بنگالی اور ہاورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی) نے جون 2005 میں اپنے تحقیقی مقالےProblem of Using Women as Weapons in Recounting the Bangladesh War “بنگلہ دیش کی جنگ میں عورتوں کا بطور ہتھیار“ میں لکھا ہے: “ ہمیں سچ بتانا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی افواج پر بنگالی عورتوں کی اس پیمانے پر بے حرمتی کا الزام مبالغہ آمیز حد تک بے بنیاد ہے۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دی جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹرویو، مکالموں اور تحقیق سے یہی بات دیکھی ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو یکسر نظر انداز کر کے، صرف مقابلہ کرنے والے جوانوں کو نشانہ بنایا۔“ اس پر روزنامہ ڈیلی ٹائمز لاہور نے 2 جولائی 2005 کو اپنے اداریے New Impartial Evidence نے غیر جانب دارانہ ثبوت میں لکھا: “ پرفیسر شرمیلا بوس نے چشم دید گواہوں کی گواہی اور گہرے تحقیقی کام کی بنیاد پر برسوں سے لگنے والے اس الزام کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے بنگالی عورتوں کو بالجبر زیادتی کا نشانہ بنایا۔“
جوہری کا نام بنگلہ دیش کے مشہور صحافی کی حیثیت سے تسلیم شدہ ہے۔انہوں نے اپنی بنگلہ کتاب “The Riddle of Thirty Lakh “۔ (30 لاکھ کا معمہ ڈھاکا 1994) میں لکھا ہے:
یہ بات بھی وہم و گمان سے کوسوں دور ہے کہ اس دوران دو لاکھ سے زیادہ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی ہو۔ میں نے ملک کے مختلف اضلاع کے 500 افراد کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا ہے: “ آپ کے خاندان کے دور و نزدیک میں، یا آپ کے جاننے والوں میں یا پھر آپ کے گاؤں محلے میں، کسی پاکستانی فوجی نے جنسی بے حُرمتی کی ہو تو ایسا کوئی واقعہ بتا سکتے ہیں؟“۔ ان میں سے ہر فرد نے کہا: “نہیں“

No comments:

Post a Comment