عالمِ کفر کو ہماری نمازوں سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ نہ انہیں سروکار ہے ہمارے روزوں سے ۔ نہ ہی حج سے ۔ ہماری جو عبادت عالم کفر کے سینے میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے وہ ہے جہاد ۔
اگر آپ اسلام کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ مسلمانوں نے اس دنیا پر تب تک حکومت کی ہے جب تک جہاد کرتے رہے ۔ جب مسلمان عیاشیوں میں مبتلا ہوئے تبھی سے اسلام کا پرچم سرنگوں ہونا شروع ہوا ۔آج بھی آپ عالمِ کفر کے آگے سر اٹھا کر جیتا انہی قوموں کو دیکھتے ہیں جو جہاد پر عمل پیرا ہیں ۔
جو مسلمان کافر کے خلاف جہاد کریں ان کی شکست ناممکن ہے یہ بات رب العزت کی طرف سے طے شدہ ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں ۔ کجا یہ کہ کسی کو اپنے رب کے وعدے پر ہی بھروسہ نہ ہو ۔ لڑنے والے محض کلاشنکوفوں سے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کے مشترکہ اتحاد کو دھول چٹا دیتے ہیں اور جنہوں نے نہیں لڑنا وہ بے شک ایٹم بم رکھ کر گھومتے رہیں ۔ وہ ایٹم بم بھی انہیں عزت دلانے میں ناکام رہتا ہے ۔
مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کی محبت نکالنے کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے ۔ اگر آپ آج سے بیس سال پیچھے جائیں تو پاکستان کے اسکولوں کی کتابوں میں سورہ محمد اور سورہ احزاب کی آیات ہوا کرتی تھیں ۔ مگر نائن الیون کے بعد ہمارے اس دور کے (مسلمان) حکمرانوں کو یقین دلایا گیا کہ قران کی یہ آیات پاکستان کے بچوں کے لیئے مناسب نہیں لہٰذا انہیں کورس میں شامل نہیں رہنا چاہیئے ۔ ہمارے حکمرانوں نے بھی اس بات کا یقین کر لیا اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیئے ایک ایک کر کے تمام آیات کو بچوں کے کورسز سے نکال دیا ۔ چونکہ مسلمان بھی ہیں لہٰذا اپنے مسلمان دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لی کہ چلو قران میں سے پڑھ لیں گے ۔ اسکولوں میں پڑھانا ضروری نہیں ۔ یہ خیال تک نہیں آیا کہ آخر کافر کیوں یہ چاہتے ہیں کہ یہ آیات بچوں کو نہ پڑھائی جائیں ۔
پچھلی نسلیں آہستہ آہستہ مٹ رہی ہیں اور اگلی نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں ۔ نئی نسلیں قران کو بس عربی میں محض خانہ پری کے لیئے پڑھ لیتی ہیں ۔
پچھلے بیس برسوں میں پاکستانی مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کو مٹانے کے لیئے کئی محاذوں پر ایک ساتھ کام کیا گیا ۔ نہ صرف تعلیمی نظام سے جہاد کی آیات کا خاتمہ کیا گیا بلکہ تحریک طالبان پاکستان جیسی جماعتیں بنا کر جہاد کو بدنام کیا گیا ۔ مسلمان بچوں کو یہ سکھایا گیا کہ ہر مسئلے کا حل بس امن ہے ۔
اسلام بلاشبہ امن کا ہی مذہب ہے لیکن اسلام کبھی یہ نہیں سکھاتا کہ ہر مسئلے کا حل امن ہے ۔ نہ ہی اسلام ہر مسئلے کا حل جنگ میں تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔
اسلام دراصل معاملہ شناسوں کا دین ہے ۔ ایک اچھے مسلمان کو اتنی سمجھ بوجھ ہونی چاہیئے کہ کس مسئلے کو امن سے حل کرنا ہے اور کہاں جنگ ناگزیر ہے ۔ وہ کون سے حالات ہیں جن میں کفار سے معاہدہ کر کے جنگ کو ٹالا جا سکتا ہے ۔
اسی قوت فیصلہ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے ۔
ہم پر ایک وقت وہ بھی گزرا ہے جب ہم محکوم تھے ۔ ہمارے بزرگوں نے جہاد کیا اور انگریزوں کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا ۔
کیا خیال ہے آپ کا کہ انگریزوں سے لڑائی میں مسلمانوں کی جان و مال کا نقصان نہیں ہوا تھا ؟ بالکل ہوا تھا ۔ مگر ان قربانیوں کا حاصل یہ ہمارا پیارا وطن ہے ۔ جہاں ہم آزاد فضا میں سانس لیتے ہیں ۔
امن اور معاہدوں کی بات اس وقت کی جاتی ہے جب دو الگ الگ ممالک آپس میں لڑ پڑیں ۔
جب آپ کے ملک پر قبضہ کر لیا جائے تب نہ امن کی بانسری بجائی جا سکتی ہے نہ کوئی معاہدہ ہوتا ہے ۔ تب صرف اور صرف جنگ ہوتی ہے ۔ لڑ کر اپنی زمین واپس حاصل کرنی پڑتی ہے ۔
یہی کام ہم نے آزادی حاصل کرتے وقت کیا تھا ۔ غلام رہتے ہوئے سمجھوتوں اور امن کی بات دانش مندی نہیں بلکہ بزدلی کہلاتی ہے ۔
جو خاتون آج کل موضوع بحث ہیں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ مجھے ان بچوں کی فکر ہے جو فلسطین و کشمیر میں کٹ رہے ہیں اور ہم یہاں آپس میں لڑنے میں مصروف ہیں ۔ تو جن مولویوں کو لڑنے کا شوق ہے وہ وہاں جا کر لڑیں یا اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں ۔
خاتون کا دینی علم برطرف کہ یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے ۔ مگر مجھے ان کی سیاسی بصیرت بھی پلے نہیں پڑی ۔ مجھے قطعاً سمجھ نہیں آئی کہ فلسطین کے بچوں کی خاطر جہاد کرنے مولوی کیوں جائیں گے جبکہ حکومت مولویوں کی نہیں ہے ۔
آپ کو فلسطین و کشمیر کے بچوں کا درد ہے تو آپ کے پاس حکومت ہے ۔ فوج ہے ۔ ایٹم بم ہے ۔ میزائل ہیں ۔ ہر قسم کا اسلحہ ہے ۔ مدد کریں ان بچوں کی ۔
اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ مسئلہ جنگ کے بجائے پرامن مذاکرات یا معاہدوں سے حل ہو سکتا ہے تو یہ کام بھی حکومت کا ہے نہ کہ مولویوں کا ۔ لڑائیں کوئی سائنس اور فلسطینیوں کو ان کی زمین واپس دلوائیں ۔ یہودیوں کو سمجھائیں جا کر کہ یہ زمین آپ کی نہیں ہے لہٰذا آپ کو یہاں قبضہ برقرار نہیں رکھنا چاہیئے ۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کی بات مان لیں ۔
لیکن اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی زمین بھی واپس نہ ملے ۔ یہودیوں کا وہاں قبضہ بھی برقرار رہے اور پاکستان اور یہود کے درمیان کوئی معاہدہ ہو جائے تو پھر کیسا فلسطینیوں کا درد ؟
مجھے تو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اس معاملے کا درمیانی راستہ کیا ہو گا ۔ کیا اسرائیل کو سمجھایا جائے گا کہ یہ زمین آپ کی نہیں ۔ یا فلسطینیوں کو سمجھایا جائے گا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا ۔ مٹی پاؤ ۔ اب کیوں اپنی اور اپنے بچوں کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو ۔ امن سے رہو اور یہود کو اپنا حاکم تسلیم کر لو ۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے ؟
کیا وہ فلسطینی آپ سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم لوگوں نے آزادی کے لیئے جانیں کیوں قربان کی تھیں ؟ہمیں کس منہ سے محکوم بن کر امن سے رہنے کی تلقین کرنے آئے ہو ؟
بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ کفار نہ صرف ہمارے دلوں سے جہاد کی محبت مٹانے میں کامیاب ہو رہے ہیں بلکہ شائد آئندہ نسلیں جہاد کے نام سے نفرت کرنا شروع کر دیں ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور سمجھداری سے فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
Wednesday, 14 November 2018
مسلمانوں کا سب سے خطرناک ہتھیار
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment