کیا جماعت اسلامی بدل گئی ہے؟ 🛂
کچھ لوگ شکوہ کناں ہیں کہ جماعت سید مودودی کی جماعت اسلامی نہیں رہی اور اپنی اصل سے دور جا چکی ہے۔ وہ سیاسی حکمت عملی کی تبدیلی کو جماعت کے بدلنے سے تعبیر کرتے ہیں ۔ حالانکہ جماعت اپنے لکھے ہوئے دستور کے مطابق ہی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور اب بھی اسکا منہج اسکے دستور کے مطابق ہی ہے۔
باقی سیاست میں ملکی حالات و موقع محل کے مطابق انتخابی حکمت عملی ہمیشہ بدلتی رہی ہے۔محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں مولانا نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ جدوجہد کی، اکہتر میں اکیلے الیکشن لڑا، ستتر میں بھٹو کے خلاف جماعت pna کے اتحاد میں سرخوں اور لبرل جماعتوں کے ساتھ شریک رہی، پھر IJI میں رائٹ ونگ کے اتحاد کا حصہ بنی، ترانوے میں سیاسی میدان کو جماعت سے الگ کرکے اسلامی فرنٹ بنا کر تجربہ کیا گیا، پھر دینی جماعتوں کے اتحاد کا حصہ بنی پچھلے الیکشن میں pti اور مسلم لیگ ن دونوں سے ایڈجسٹمنٹ کیلیے مذاکرات ناکام ہوئے اور ہم نے ایم ایم اے کی بحالی کی دیگر جماعتوں کے مطالبے پر کان نہ دھرے لہذا چاروناچار اکیلے میدان میں اترے۔ درمیان میں ستانوے اور 2008 میں مختلف امور پر الیکشن بائیکاٹ بھی کیا۔ اس بار جماعت شائد انتخابی کامیابی کے حوالے سے اب تک کے اپنے کامیاب ترین تجربے mma کو دھرانا چاہتی ہے جسمیں غالباً نوخیز جماعۃ الدعوہ بھی حصہ ہوگی۔
مختصراً سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور اسمیں حریف و حلیف بدلتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے پروگرام کی ترویج کیلیے اپنی پارلیمانی طاقت بڑھانا چاہتی ہیں اور اسی لیے الیکشن میں حصہ لیا جاتا ہے۔ سیاست میں ہر چیز سیاہ یا سفید نہیں ہوتی بلکہ کافی کچھ گرے ہوتا ہے۔
جماعت کو سیاہ حصے سے بچتے ہوئے زیادہ سفید حصے اور مجبوراً گرے حصے میں ہی رہنا ہوگا۔ اپنی دعوت کا فوکس خراب نہیں کرنا اور اپنے حامیان کی مکمل تربیت ضروری ہے، لیکن عامۃ الناس سے ووٹ محض دعوت سے نہیں بلکہ انکے مسائل کو ڈسکس کرنے اور انکا حل پیش کرنے سے ہی ملیں گے۔
جماعت کو اب ایک کرپشن سے پاک عام فرد کی نمائندہ سیاسی جماعت کے طور اپنے آپ کو ڈھالنا اور منوانا ہوگا کیونکہ دیگر مشہور جماعتیں محض کرپٹ اشرافیہ کی آماجگاہ بن چکی ہیں اور انکی لیڈر شپ اخلاق وکردار سے عاری ہیں۔ اگر جماعت اس سیاسی خلا کو پر کرنے کیلیے یکسوئی سے جدوجہد کرتی رہی اور جمہوری تسلسل میں بھی کوئی روکاوٹ نہ آئی تو اسکے متحرک اور عام آدمی کے مسائل کا بخوبی ادراک رکھنے والے امیر سراج الحق اسے نمایاں انتخابی جماعت بنانے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔ جماعت کی پارلیمانی کامیابی ملک کے بہتر مستقبل کیلیے انتہائی خوش آئند ہوگی۔
بہرحال موجودہ انتخابی نظام میں اصلاحات اور متناسب نمائندگی کا طریقہ انتخاب لانے کےلیے جماعت کو ایک بھرپور تحریک چلانی چاہیے، کیونکہ موجودہ انتخابی نظام کرپٹ الیکٹیبلز کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔
No comments:
Post a Comment