Tuesday 4 December 2018

مولانا مودودیؒ اور شیخ حسن البناءؒ(جماععت اسلامی پاکستان اور اخوان المسلمون مصر)

اسلام کی دنیا بھر میں موجودہ پذیرائی سید ابوالاعلی مودودی اور شیخ حسن البناء (اخوان المسلمون کے بانی) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنہوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پذیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلی مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں قادیانی فرقہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہوسکا۔ سید ابوالاعلی مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔

سید ابوالاعلٰی مودودی25 ستمبر 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔

آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائیییی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔

1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔

اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دارالعلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔

کیونکہ سید مودودی لکھنے کی خداداد قابلیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے اور اسی کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میں اخبار "مدینہ" بجنور (اتر پردیش)، "تاج" جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا روزنامہ "الجمعیت" دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔

1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار"الجمعیۃ" کی ادارت چھوڑ دی۔

جس زمانے میں سید مودودی"الجمعیۃ" کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کی جس پر کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور علانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔

انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔
اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
” اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے “

"الجمعیۃ" کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ جہاں اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں، اور 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ"ترجمان القرآن" جاری کیا۔

1935ء میں آپ نے "پردہ" کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ "تنقیحات" اور"تفہیمات" کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔

سید مودودی نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے۔ جو لوگ اس تجویز سے اتفاق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور "جماعت اسلامی" قائم کی گئی۔ جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں پورے ہندوستان میں سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودی کو جماعت کا سربراہ منتخب کیاگیا۔
تقسیم ہند کے بعد سید مودودی پاکستان آگئے۔ پاکستان میں قائد اعظم کے انتقال کے اگلے ہی ماہ یعنی اکتوبر 1948ء میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے پر آپ گرفتار ہو گئے۔ گرفتاری سے قبل جماعت کے اخبارات "کوثر"، جہان نو اور روزنامہ "تسنیم" بھی بند کردیے گئے۔

سید مودودی کو اسلامی نظام کا مطالبہ اٹھانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ قرارداد مقاصد کی منظوری سے قبل اس کا متن بھی مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا۔ انہیں 20 ماہ بعد 1950ء میں رہائی ملی۔

اپنی پہلی قید و بند کے دوران انہوں نے "مسئلہ ملکیت زمین" مرتب کی، "تفہیم القرآن" کامقدمہ لکھا، حدیث کی کتاب "ابو داؤد" کا انڈکس تیارکیا، کتاب "سود" اور "اسلام اور جدید معاشی نظریات" مکمل کیں۔

1953ء میں سید مودودی نے "قادیانی مسئلہ" کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب تحریر کی جس پر انہیں گرفتار کرلیا گیا اور پھرفوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنادیا۔ سزائے موت سنانے کے خلاف ملک کے علاوہ عالم اسلام میں بھی شدید ردعمل ہوا۔ جن میں مصر کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے رہنما علامہ حسن الہضیبی، کابل سے علامہ نور المشائخ المجددی، فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی کے علاوہ الجزائر اور انڈونیشیا کے علماء نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے سید مودودی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جبکہ شام کے دار الحکومت دمشق میں ان کی سزائے موت کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔

بالآخر حکومت نے سزائے موت کو 14 سال سزائے قید میں تبدیل کردیا۔ تاہم وہ مزید دوسال اور گیارہ ماہ تک زندان میں رہے اور بالآخر عدالتِ عالیہ کے ایک حکم کے تحت رہا ہوئے۔

سید مودودی مسلسل خرابی صحت کی بنا پر 4 نومبر 1972ء کو جماعت اسلامی کی امارت سے علاحدہ ہوگئے۔ وہ 26 اگست 1941ء کو امیر جماعت مقرر ہوئے تھے اور قیدو بند کے وقفہ کے علاوہ 31 سال 2 ماہ اور8 دن تک جماعت کی امارت پر فائز رہے۔

امارت سے علیحدگی کے بعد انہوں نے تمام تر توجہ تصنیف و تالیف کے کام خصوصاً تفہیم القرآن کی طباعت اور توسیع اشاعت پر مرکوز کردی۔ چودہویں صدی ہجری میں اس عظیم کتاب کی تالیف نے اس صدی کو یادگار بنا دیا، اس عظیم علمی خدمت کو مسلمانوں کی تاریخِ علم و ادب کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ اس کتاب نے لوگوں کی زندگیوں کےرخ بدل دیے، یہ وہاں تک پہنچی جہاں تک سید مودودی کی دیگر تصانیف نہ پہنچ سکتی تھیں۔اس نے جدید طبقے کو بھی مسخر کیا اور قدیم طبقے نے بھی اقامت دین کا سبق اس کتاب سے سیکھا ہے۔

1956ء سے 1974ء تک کے عرصے میں آپ نے دنیا کے مختلف حصوں کا سفر کیا۔ اپنے متعدد دوروں کے دوران انہوں نے قاہرہ، دمشق، عمان، مکہ، مدینہ، جدہ، کویت، رباط، استنبول، لندن، نیویارک، ٹورنٹو کے علاوہ کئی بین الاقوامی مراکز میں لیکچر دیے۔ انہی سالوں میں آپ نے 10عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ 1959ء اور 1960ء میں قرآن پاک میں مذکور مقامات کی جغرافیائی کیفیت کا مشاہدہ کرنے کےلیے سعودی عرب، اردن، (بشمول یروشلم) شام اور مصر کا تفصیلی مطالعاتی دورہ کیا۔ انہیں مدینہ یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں مدعو کیا گیا۔ آپ 1962ء سے اس جامعہ کے قیام تک اس کی اکیڈمک کونسل کے رکن تھے۔ آپ رابطہ عالم اسلامی کی فاؤنڈیشن کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ اور اکیڈمی آف ریسرچ آن اسلامک لا مدینہ کے بھی رکن تھے۔

آپ کی تصانیف کا عربی، انگریزی، فارسی، ترکی، بنگالی، جرمن، فرانسیسی، ہندی، جاپانی، سواحلی، تامل، تیلگو سمیت 22 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ جبکہ مدینہ یونیورسٹی، ریاض، سوڈان، مصر اور دیگر کئی ممالک میں سید مودودی کی کتابیں نصاب تعلیم کا حصہ ہیں۔

1979ء میں سید مودودی کے گردے اور قلب میں تکلیف ہوئی جس کے علاج کے لیے آپ ریاستہائے متحدہ امریکا گئے جہاں ان کے صاحبزادے بطور معالج برسر روزگار تھے۔

آپ کے چند آپریشن بھی ہوئےمگر 22 ستمبر 1979ء کو 76 برس کی عمر آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کاپہلا جنازہ بفیلو، ریاست نیویارک میں پڑھا گیا اور پھرآپ کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا اور لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آپ کا جنازہ قطر یونیورسٹی کے وائس چانسلر، سابق صدر اخوان المسلمون شام علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھایا۔

مولانا سید ابو اعلی مودودی کی تصانیف یہ ہیں ۔

تفہیم القرآن (6 جلدیں)
تفہیمات (5 جلدیں)
رسائل و مسائل (5 جلدیں)
سیرت سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (2 جلدیں)
پردہ
الجہاد فی الاسلام
تنقیحات
مسئلہ قومیت
خطبات
دینیات
شہادت حق
دین حق
سلامتی کا راستہ
بناؤ اور بگاڑ
اسلام اور جاہلیت
اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر
تحریک اسلامی: کامیابی کی شرائط
اسلام کا نظام حیات
اسلام کا سرچشمہ قوت
سنت کی آئینی حیثیت
اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی
خلافت و ملوکیت
حقوق الزوجین
سود
معاشیات اسلام
اسلام اور ضبط ولادت
شرکت و مضاربت کے چند شرعی اصول
مسئلہ ملکیت زمین
ہندوستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب
اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر
قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں
تجدید و احیائے دین
تعلیمات (کتاب)|تعلیمات
سانحہ مسجد اقصی
اسلامی کا نظریہ سیاسی
اسلامی سیاست
خطبات یورپ
خطبات حرم۔

No comments:

Post a Comment